اخلاق باختہ بھارتی ثقافتی یلغار۔’پیمرا‘ کی غیر ذمہ دارانہ غفلت

indian radicals سیّد ناصررضا کاظمی
پاکستان جہاں ایک آزاد وخود مختار ریاست کی حیثیت سے اپنی باوقار شناخت رکھتا ہے وہاں کوئی ایک پاکستانی اِس تاریخی ‘ واقعاتی شہادت سے منحرف نہیں ہوسکتا کہ ہمارا یہ وطن جسے ہم ’مملکتِ خداداد ‘ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اوراسلامی نظریاتی مملکت ہونے پر بہت فخر کرتے ہیں ،یہی ہے واحد نظریہ ‘ جو ہمارا قابلِ ستائش ثقافتی اثاثہ بھی ہے اور ساتھ ہی ہمارا یہ اسلامی نظریہ بحیثیتِ قوم ہماری انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو ایک باعظمت اخلاقی منفرد سانچے میں ڈھالنے کا ہمہ وقت متقاضی بھی رہا ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اِسی اسلامی نظرئیے سے مکمل ‘پختہ ارادوں اور غیر متزلزل وابستگی کے ساتھ نسل درنسل جڑے رہیں ایک نظریاتی قوم کی شناخت رکھتے ہوئے ہم انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے اپنے اِس مقصد کی تکمیل کے لئے اپنے آپ کو کیسے تیار کرپائیں یعنی وہ کون سی ترجیحات ہوں کہ ہمارا کوئی دشمن کوئی ایسا ازلی دشمن جو ہماری ثقافتی جڑوں کو سبوتاژ کرنے ‘ ہمیں مختلف گروہوں میں منقسم کرنے ‘ ہماری ملی وقومی یکجہتی میں انتشار و افتراق کا زہر گھولنے کی تلخ ترین زہریلی بدنیتی کی انارکی پیدا کرنے کوئی مذموم کوشش کرئے تو ہم اُسے کیسے ناکام بنائیں؟ اوّلاً ہم اپنے اُس ازلی مکار دشمن کی ایسی سازشوں کی شناخت کیسے کریں تبھی ہم اُس کی کوششوں کو ناکام بناسکیں گے کل سے زیادہ آج کی جدید ٹیکنالوجی میں جب سے الیکٹرونک میڈیا کے مختلف دل کشش اور دلفریب ٹولز عام ہوئے ہیں بشمول سوشل میڈیا یا انٹر نیٹ کا جو جال یکدم ہمارے اردگرد پھیلا دیا گیا ہے یا عالمی پیمانے پر ازخود پھیلتا جارہا ہے اِس الیکٹرونک میڈیا ‘ انٹر نیٹ اور انٹر نیٹ کے توسط سے سوشل میڈیا اور پھر جدید سے جدید موبائل سسٹم کی پُرکشش اور دلآویز ی کی وسعت پذیری نے مسلم آئیڈیالوجی کو نشانہ پر رکھ کر ایک بہت بڑی بھیانک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کی ‘ فی الوقت اُن کی ہمارے خلاف ذرائعِ ابلاغ کے نام پر کی جانے والی یہ سازش ہمیں اگر کامیاب ہوتی ہوئی معلوم ہورہی ہے تو اب بھی وقت ہے ، ہم ذرائعِ ابلاغ کے اخلاق باختہ اور شرمناک اِس منہ زور سیلاب کے میڈیمز کے آگے بند باندھ سکتے ہیں تو فوراً باندھ لیں، ورنہ بہت دیر ہوجائے گی اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے بچوں کے ہاتھوں میں-50 50 ہزار روپے کے موبائل فونز کے علاوہ ہمارے گھروں کے اند ر لگائے جانے والے42 سے56 انچ کے ایل سی ڈیز نے ہماری نظریاتی‘سماجی’ ثقافتی اور معاشرتی قدروں کا جنازہ نکالنے میں کوئی رتی برابر کسر نہیں چھوڑی ایسے کتنے گھر ہونگے جن میں42 سے56 انچ کے ایل سی ڈیز یا50 ہزار روپے کے موبائل فونز کے ذریعے سے مثبت یا کوئی مفید کام لیئے جاتے ہوں ؟ اِسی طر ح کی گھناونی بد حالی کا ایک سورس انٹر نیٹ پر سوشل میڈیا کا بھی ہے، یہ دنیا ذرائعِ ابلاغ کی جدید ٹیکنالوجی کے نتیجے میں ’گلوبل ویلج‘ یقیناًضروربن گئی مگر ٹیکنالوجی کی اِس جدت نے ہمارے گھروں کے اندر کئی گھر بنادئیے ہیں، والدین اپنے کمروں میں‘ جوان بچے اور بچیاں اپنے کمروں میں اپنی
اپنی پسند کی فلمیں دیکھ رہے ہیں والدین کو علم ہوتا ہی نہیں ہے کہ اُن کے بچے اور بچیاں را ت رات بھر اپنے کون سے رشتہ داروں سے کس قسم کی اور کیا کیا باتیں کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ضائع کررہے ہیں،معاشرے کو صحافت سے اور صحافت کو معاشرے سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا یہ بالکل صحیح، صحافت کا ایک براہِ راست تعلق ذرائعِ ابلاغ سے بھی ہوتا ہے، جدید ذرائعِ ابلاغ کے براہ راست اثرورسوخ کے ’مضر ‘ یا پھر ’ مفید‘ اثرات قومی طبقات پر فی الفور پڑتے ہیں بڑی بدقسمتی کامقام ہے کہ نجی الیکٹرونک میڈیا کی آزادی نے عوام کی اکثریت کومفید اور بہتر رہنمائی سے فیضیاب کرنے کی اپنی پیشہ ورانہ اہم ذمہ داری نبھا نے میں بڑی کوتاہی برتی ہے یہ کوئی بات نہ ہوئی نظریاتی اخلاق کے اِس حساس موضوع پر وقتاً فوقتاً دوچار ٹا ک شو کرلیئے گئے؟ یہ ایک ایسا نشریاتی خلاء پیدا ہوا ہے جسے پُر نہیں کیا جاسکا بھارت جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے اُس کے لئے یہ موقع بڑا سنہری ثابت ہواجس سے وہ فائدہ اُٹھا رہا ہے، بھارتی ٹاک شوز ‘ بھارتی اسٹیج شوز‘ بھارتی فیشن شوز ‘بھارتی ڈرامے ‘بھارتی فلمیں، جبکہ رہی سہی کسر پاکستانی ایڈورٹائزنگ کمپنیوں نے بھارتی ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کے اشتراک سے بھارت میں بننے والے اشتہارات کو بخوشی قبول کرکے اُنہیں یہاں کے نجی الیکٹرونک میڈیاز پر ٹیلی کاسٹ کرنے کا ’دھندا‘ بھی دھڑلے سے شروع کیا ہوا ہے، بھارتی دوشیزاؤں کے ’ہاف بازو‘ کے کم سے کم لباس والے واہیات اشتہارات دیکھے اور دکھائے جارہے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے ’پیمرا‘ کی آنکھوں میں موتیا اتر آیا ہو، عقل کے بھی اور آنکھوں کے اِ ن اندھوں کو نہ کچھ سوجھائی دیتا ہے نہ دکھائی دیتا ہے اسلامی نظریاتی ملک کی سوسائٹی کی ثقافتی جڑیں تقریباً ہلا دی گی ہیں مجال ہے کسی ذمہ دار ادارے (پیمرا)یا اہم متعلقہ حکومتی ادارے نے مندرجہ بالا واہیات اور شرمناک اخلاق باختہ حرکات کا کوئی نوٹس لیا ہو سوال یہ پیدا ہوتا ہے متذکرہ بالا معاملات میں حکومت کا کیا رول ہے ؟ یاد رہے کہ حکومتِ وقت کا ہی سب سے زیادہ اہم رول بنتا ہے اگر حکومتِ وقت سر عام ‘پبلک مقامات پر کھلے عام سگریٹ پینے والے والوں کی قانوناً حوصلہ شکنی کرسکتی ہے تو حکومت نجی الیکٹرونک میڈیا کو کیوں لگام نہیں دے سکتی ؟ پاکستان کی ٹیلی کام اتھارٹی سوشل میڈیا کی نگرانی کیوں نہیں کرسکتی ‘ نجی اور سرکاری موبائل فونز کی مادرپدر آزادی کا ’مکو‘ کیوں نہیں ٹھپا جاسکتا نیت اگر پُرخلوص ہو اپنی
پیشہ ورانہ ذمہ داری کو ایمانداری سے نبھانے کی اگر جراّت ہو تو کیا نہیں ہوسکتا اور کیوں نہیں ہوسکتا بیہودہ اور شرمناک اخلاق باختہ بھارتی ثقافتی یلغار کو ملک بھر میں پھیلنے سے روکنے کے لئے سیاسی قیادت کو اُسی عسکری عزمِ صمیم سے لیس ہوکر اپنا حکومتی رول ادا کرنا پڑے گا جیسا دلیرانہ رول پاکستانی فوج اور اعلیٰ پاکستانی فوجی قیادت نے ملک بھر میں پھیلتی ہوئی دہشت گردی کا سرکچلنے کے لئے ادا کیا اور اب تک کررہی ہے بیہودہ اخلاق باختہ بھارتی ثقافتی یلغار کی منہ زوریلغارکو توڑنے کے لئے حکومت کو کوئی نئے قانون لاگو کرنے کی ضرورت نہیں ‘ صرف ضرورت ہے ’پیمرا‘ کو متحرک کرنے کی ‘پیمرا اگر اپنا آئینی ‘ محکمانہ اور خالص پیشہ ورانہ کردار اداکرئے اور اپنی رٹ قائم کرئے بلا کسی استثناٰ کے بھارتی ثقافتی یلغارکو ملک میں پھیلانے والے نجی الیکٹرونک میڈیا کو دوٹوک وارننگز اور نوٹسنز جاری کرنا شروع کردئے جائیں تو کسی حد تک ہم اپنا نظریاتی سماجی ومعاشرتی اور قومی وملی اثاثوں کو تباہی وبربادی سے بچا نے کے قابل ہوسکتے ہیں ترقی یافتہ ممالک کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جنہوں نے اپنی قوموں میں بد اخلاقی ‘ بیہودہ ‘واہیات اور قابل نفریں سماجی رسوم وروایات کو اُبھرنے کا موقع نہیں دیا پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top