اٹھارہ کروڑ لوگوں کا ملک جدید اسلحے سے لیس ایک ایٹمی قوت
نغمہ حبیب
بھارت کی پاکستان سے دشمنی پہلے بھی نہ کچھ کم تھی نہ ڈھکی چھپی تھی لیکن جب سقہ بین الاقوامی دہشت گرد مودی بھارت کا وزیراعظم بنا تو اس میں کچھ اور اضافہ ہوا اور اب جب پاکستان اور چین کے درمیان موجودہ اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا تو جیسے بھارت کے وزیراعظم سے لے کراس کے ہر وزیر اور مشیر کا منہ پاکستان کے خلاف کھل گیا بلکہ یوں کہیے کہ اس کے ایوانوں میں جیسے آگ بھڑک اٹھی اور ایک طرف براہ راست اس معاہدے کے خلاف زہر اُگلنا شروع کردیا تو دوسری طرف جہاں اور جس بیرونی ملک کے دورے پر اس کے وزیراعظم سے لے کر ایک عام وزیر تک گیانے پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی کو اپنا معمول بنالیا ہے۔ طاقت کے زعم میں مبتلاء بھارت نے اپنے دہشت گرد ہونے کا اعتراف تک کر لیا اور مان لیا کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کرارہا ہے مودی جو شدت پسند اور جنونی تو پہلے بھی تھا لیکن وزیراعظم بننے کے بعد اس میں تیزی یوں آئی کہ چونکہ اس کے ملک میں اب اس کا حکم چلتا ہے تو اس کے خیال میںیہ حکم پڑوسی ممالک کو بھی ماننا چاہیے اور اسی زعم میں اس نے پاکستان کو دھمکیاں دینی شروع کیں اور اعتراف جرم بھی کر لیا۔ بنگلہ دیش میں مجیب کی بیٹی حسینہ واجد نے جب سابق بھارتی وزیراعظم واجپائی کو ایک ملک یعنی پاکستان کو توڑنے پر تمغے سے نوازا تو اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی نے اُگل ہی دیا کہ یہ جرم اُس کے ملک نے کیا ہے اور یہ بھی کہ مکتی باہنی انہی کے لیے کام کرتی رہی۔ کاش عام بنگالی ہی اس سازش کا راز کھلنے پر جاگ جاتا اور کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کو کیا حق تھا کہ وہ دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتاشاید ایسا کسی نے سوچا بھی ہو لیکن وہ دیکھ رہے ہیں کہ چوالیس سال پہلے باغیوں کے مقابلے میں حکومت وقت کا ساتھ دینے کے جرم میں محب وطن لوگوں کو آج تختہء دار پر لٹکایاجارہا ہے لہٰذا وہ خاموش رہے ہوں لیکن آخر کار جب اس جرم کا اعتراف تو کرہی لیاگیاہے تو یہ بات بھی مان لی جائے کہ بنگالیوں کے قتل عام اور عورتوں کی آبروریزی کے جو الزامات پاکستان پرلگائے جارہے تھے وہ بھی دراصل بھارت کا ہی کارنامہ رہا ہوگا جس میں شیخ حسینہ کا باپ شیخ مجیب بھی ملوث رہا ہوگا اقتدار کے لیے تو سب ہی چلتا ہے لہٰذا مجیب اور بھارت نے عورتوں کی آبروریزی اور بنگالی اور غیر بنگالی مسلمانوں کے خون سے اگر ہاتھ رنگ لیے تو اقتدار تو مل گیا۔ بات یہاں جاکر رُکی نہیں بلکہ کئی بنگلہ دیشی حکومتوں کے ساتھ مل کرکئی دہائیوں سے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا ۔ اب جب برما کی حکومت نے انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی برا سلوک کیا کیونکہ وہ مسلمان تھے اور بے شک کہ دنیا میں ایسے مظالم کی مثال نہیں ملتی دنیا اور اقوام متحدہ ان مظالم پر خاموش ہے تو موقع کا فائدہ اٹھا کر بھارت پھر بول پڑا کہ اس نے میانمار کے اندر جاکر حملہ کیا ہے کیوں کہ اس کی فوج نے بھارت کے کچھ فوجیوں کو بھارتی سرحد کے اندر آکر مارا تھا اور ساتھ ہی اس نے پاکستان کو بھی دھمکی دے ڈالی کہ پڑوسی ممالک اور پاکستان یاد رکھے کہ بھارت سرکار ان کے خلاف بھی ایسی کاروائی کر سکتا ہے۔ پاکستان اور ساری دنیا نے تو جان لیا کہ بھارت دہشت گرد کاروائیاں کرتا ہے اور ببانگ دہل کرتا ہے لیکن بھارت یہ بھول گیا کہ پاکستان میانمار نہیں پاکستان ہے ،اٹھارہ کروڑ لوگوں کا ملک جدید اسلحے سے لیس ایک ایٹمی قوت اگر پاکستان اتنا ترنوالہ ہوتا تو اب تک بھارت اسے چبا چکا ہوتا۔ اسے بنگلہ دیش میں اپنی کامیابی پر ناز ہے تو وہ یاد رکھے مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ دور تھا اور بھارت سے تین طرف سے گھراہوا بھی جہاں اس نے نفرت کا بیج بہت پہلے بولیا تھا لہٰذا وہ کامیاب ہوگیا لیکن اب کے اعتراف کے بعد تو اس کا مکروہ چہرہ اور بھی واضح ہو گیا ہے پاکستان پہلے بھی یہ بات کہتا رہا اور باربار کہتا رہا کہ پاکستان میں دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مختلف اسلامی ممالک پر یلغار کرنے والے امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک بھارت کے اعتراف جرم پر بھی خاموش ہیں کیونکہ یہ جنگ دراصل دہشت گردی نہیں بلکہ اسلامی دنیا کے خلاف ہے۔ یہاں گلہ اسلامی ممالک سے بھی ہے جوباہم دست وگریبان ہونے میں فخرمحسوس کرتے ہیں اور افغانستان، بنگلہ دیش اور حتیٰ کہ ایران بھی اکثر اوقات بھارت کی ہی ایما پر پاکستان کے خلاف صف بستہ ہو جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں تو جب تک غدار مجیب کی بیٹی مسند اقتدار پر براجمان ہے کسی بہتری کی اُمید نہیں لیکن باقی اسلامی دنیا کو بھارت کی چالوں کو ضرور سمجھنا چاہیے لیکن یہاں توحال یہ ہے کہ بھار ت کو اب تک اسی کی زبان میں پاکستان سے جواب نہیں ملا، چوہدری نثار نے اسے یاد ضرور دلایا کہ پاکستان اور میانمار میں فرق ہے لیکن اگر کوئی سخت جواب وزیراعظم بھی دیتے تو شاید مودی کو بھی پتہ چلتا کہ پاکستان کا وزیراعظم بھی اپنے ملک کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے والے کو سبق سکھا سکتا ہے ہاں آرمی چیف اور کور کمانڈروں نے بھارت کو بھارت کے لہجے میں جواب ضرور دیا ہے لیکن ایسی باتوں کے جواب میں اعلیٰ سطحی فوجی اور سیاسی قیادت بیک زبان، بیک انداز اور ایک ہی لہجے میں بولے تو قومی یکجہتی کا جو اظہار ہوتا ہے وہ خود بخود دشمن کو پہلے تولنے اور پھر بولنے پر مجبور کرتا ہے۔ اب جبکہ بھارت اعتراف جرم کر چکا ہے پاکستان کو سفارتی سطح پر بھی متحرک ہونے کی ضرورت ہے اور قومی سطح پربھی قومی یکجہتی پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے شواہد اس کے پاس موجود ہیں تو اسے قوم کے سامنے رکھے تاکہ ان دشمنوں سے ہر سطح پر بچاؤ کیا جا سکے اور بھارت سے بھارت کے لہجے میں بات کرنے کی ہمت پیدا کی جائے۔ امن کی خواہش ضرور ہو لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ امن طاقت میں توازن سے ہی قائم رہ سکتا ہے اس لیے بھارت کو یاد کروایا جائے کہ جیسے حملے یعنی پاکستان کے اندر گھس آنے کی دھمکی وہ دے رہا ہے ویسا ہی پاکستان بھی کر سکتا ہے بات ایسے ہی دو چار بار کے حملوں کے بعد کھلی جنگ تک بھی پہنچ سکتی ہے لہٰذا بین الاقوامی برادری بھی یہ بات یاد رکھے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ممالک ہیں لہٰذا وہ بھی مودی اور اس کے درباریوں کو یہ بات یاد دلادے کہ پاکستان اس سے رقبے میں چھوٹا ضرور ہے لیکن اپنا دفاع کرنا جانتا بھی ہے اور اس کا حق محفوظ بھی رکھتا ہے۔