بلوچستان۔۔۔مزید محکومی اور غلامی ہر گز نہیں

نغمہ حبیب

بلوچستان قدرتی معدنی ذخائر سے مالا مال رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ صوبے کا زیادہ تر علاقہ بنجر اور غیر آباد ہے۔ آبادی 2017کی مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ تیس لاکھ چوبیس ہزارچار سوآٹھ افراد پر مشتمل ہے جبکہ چھتیس افراد فی مربع کلومیٹر آباد ہیں۔ بتیس ضلعے اور چھیاسی یونین کونسل ہیں۔ قومی اسمبلی میں اسکی تیس نشستیں ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی میں پینسٹھ ارکان ہیں۔خشک اور بنجر زمینوں اور پہاڑوں کے ساتھ ساتھ زرخیز علاقے بھی موجود ہیں اور پھلوں کی کئی اقسام کی پیداوار بھی اس صوبے کا خاصہ ہیں۔ صوبے میں جہاں پانی موجود ہے وہاں مختلف فصلیں اور باغات وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان قدرتی طور پر دُشوار علاقہ ہے جس نے یہاں آبادی کو بکھیر کر رکھ دیا ہے اور صر ف اُن علاقوں میں آبادی ہے جہاں پانی ہے جو میلوں کے فاصلے پر پایا جاتا ہے اور اسی بکھری ہوئی آبادی کی وجہ سے شہری سہولتیں چند ایک شہروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ قدرت نے اس کو دوسری طرح سے نوازا ہوا ہے جس کا ذکر میں اوپر کر چکی ہوں لیکن اس کے سخت حالات کا فائدہ اٹھا کر یہاں صدیوں سے قائم جاگیر داری اور سرداری سسٹم نے اس صوبے کو کبھی آگے آنے نہیں دیا بلکہ یہاں ترقی کے راستے روکے گئے وہی نواب جو خود ایچی سن، آکسفورڈ،کیمبرج اور ہاورڈ کے پڑھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اپنی ہی علاقے میں تعلیم کے لیے نہ اُن کے پاس کوئی منصوبہ ہوتا ہے نہ عمل اور یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں سوا ئے چند شہروں کے تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے اور یہی ناخوندگی اور تعلیم کی دگرگوں حالت صوبے میں شعور کی کمی کی وجہ بنی ہوئی ہے جو ترقی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ چاہے بلوچستان ہو ضم شدہ قبائلی علاقے ہوں یا پاکستان کے دوسرے پسماندہ علاقے سب کے عوام کو یہاں کے نواب، سردار، جاگیر دار، وڈیرے، خان، ملک یا چوہدری غیرتمندی اور بہادری کے نام پرآگے لگائے رکھتے ہیں اور دنیا سے کاٹ کر بڑی آسانی سے ان کے ہاتھوں میں ہتھیار تھما کر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں اور اپنی سرداری قائم رکھتے ہیں۔ خاص کر بلوچستان کے معدنی ذخائر سے مالا مال صوبے میں ان سردار وں نے اپنے عوام کو صدیوں پیچھے رکھا ہوا ہے اور ان کو یہ باور کروایا ہواہے کہ اُن ساتھ زیادتی کی جارہی ہے اور یہ زیادتی کرنے والے دوسرے صوبوں کے لوگ ہیں اور یہی سیاست ہے جو بلوچستان کے میر اور سردار کر رہے ہیں جبکہ خود ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ان کے علاقوں سے نکلنے والے معدنیات کی رائلٹی انہیں دی جائے لیکن انہوں نے کبھی اسے اپنے لوگوں پر خرچ کرنے کی بات کی نہ اسے اپنے علاقوں کی ترقی پرلگانے کی کوشش کی ہاں اس سے کبھی ایک دوسرے کے خلاف اور کبھی ریاست کے خلاف ہتھیا ر ضرور خریدے گئے اور استعمال کیے گئے ایک عام بلوچ کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جاتا۔ یہ بلوچ سردار جو بے حساب زمینوں اور مال و دولت کے مالک ہیں کبھی اپنے عوام جسے یہ رعایا کہتے ہیں کے لیے نہیں سوچتے ورنہ یہ رائلٹی کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنے عوام کے لیے سکولوں،ہسپتالوں اورسڑکوں کا مطالبہ کرتے کارخانے اور فیکٹریاں لگاتے، نوکریاں دیتے اور دلواتے۔مجھے ذاتی طور پر اندرون بلوچستان کے طلباء کو پڑھانے کا موقع ملا ہے یہ ذہین بچے کسی سے پیچھے یا کم نہ تھے لیکن وسائل اور سہولیات کی کمی نے انہیں ضرور پیچھے رکھا ہوا تھا اور ان کی قابلیت تھوڑی سی آبیاری کے بعد نکھر کر سامنے آجاتی تھی۔ بلوچستان کے وسائل کا رونا رونے والے وہاں کے نواب، جاگیر دارسردار خود ہی اس صوبے کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہیں۔یہ سرداری نظام سوائے قبائلی دشمنیوں کے اور کچھ نہیں کر رہاتاکہ انگریز سے ملی ہوئی یہ سرداری باپ سے بیٹے اور پوتے اورمزید آگے اسی خاندان میں منتقل ہوتی رہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کوئی ان سردار وں پر نہ تو ہاتھ ڈالنے کی ہمت رکھتا ہے نہ کرتاہے ہماراسیاسی نظام مسلسل انہیں استعمال کر رہاہے انہیں ممبر اور ووٹ چاہیے ہوتا ہے اور قبائلی نظام میں جکڑے ہوئے یہ لوگ اپنے نوابوں اور سرداروں کو مزید اور مزید طاقتور بنائے چلے جاتے ہیں۔ آپ پورا بلوچستان گھومیں اور ترقی کو تلاش کریں تو آپ کو نہیں ملے گی۔ کیا اب بہت نہیں ہوگیا،کیا اس نظام کوبہت آزمانہیں لیا گیا بلکہ جمہوریت میں بھی اس سرداری نظام کے کارندوں کو خوب آزما لیا گیاہے تو کیا اب تبدیلی نہیں لانی چاہیے۔ بہت کم آپ کو ایسے پڑھے لکھے اراکین اسمبلی نظر آئیں گے جو عام گھرانوں میں سے منتخب ہو کر آئے ہوں۔یہی حال بلوچستان کی حکومت کا ہے کہ حکومت کی کرسی پر بیٹھے ہوئے اعلیٰ حکام کسی نہ کسی نواب یا جا گیردار خاندان کے ہی افراد ہوں گے اس بات سے نہ کوئی اختلاف ہے نہ پابندی ہونی چاہیے لیکن اس کو جس طرح غیر سرکاری طور پرلازمی قرار دیا گیا ہے اس کا ایماندارانہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا اس طرح عام آدمی کی قابلیت کا قتل نہیں کیا جا رہا آخر یہ ملک اور یہ صوبہ اُس کا بھی اتناہی ہے جتنا ان ”بڑے لوگوں“ کا۔ ان خاندانوں کو بھی عام آدمی کے آگے بڑھنے پر بند نہیں باندھنا چاہیے کیونکہ اگر ایک عام آدمی سیاست میں نہیں آئے گا تو وہ عام لوگوں کے مسائل کا اندازہ نہیں لگا پائے گا۔حاکم ابن حاکم ابن حاکم ابن۔۔۔۔۔۔ کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام تر قابلیت صرف انہی خاندانوں کو ودیعت نہیں کی بلکہ سب کو برابر تقسیم کی ہوئی ہے۔ خیر یہ سلطان ابن سلطان کا سلسلہ تو پورے ملک میں جاری ہے لیکن بلوچستان میں اس کو جس طرح حکومت کے لیے اصول بنا لیا گیا ہے اسی نے عام آدمی کے دل سے آگے بڑھنے کو خواہش ہی ختم کردی ہے اور خاص کر اس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ حکومت کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوا لیکن اس روایت اور رویے دونوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صوبہ آگے بڑھ سکے اور اس کی عوام اپنے حق کے لیے آواز اُٹھائیں نہ کہ اپنے سرداروں کی سرداری قائم رکھنے کے لیے ہتھیار۔ ان میں یہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ انہیں اپنی زندگی اپنے لیے جینا ہے وہ اپنے مالک خود ہیں اور یہ کہ اُن کے نواب اور سردار ان کے مالک نہیں انہوں نے آگے بڑھ کر ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے خود بھی حکومتی ایوانوں تک پہنچنا ہے تاکہ اپنے مسائل حل کر سکیں اور اپنے صوبے کو بھی پاکستان کے ترقی یافتہ حصوں کے برابر لانا ہے اور یہ یقین پیدا کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی اتنا ہی دماغ اور شعور دیا ہے جتنا ان کے سرداروں کو لہٰذ اب مزید محکومی اور غلامی ہر گز نہیں۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top