بھتہ وصولی: دہشت گرد تنظیموں کے لیے حصول رقم کا ذریعہ

Terrorism and extortionایم خان چشتی

گزشتہ دنوں میڈیا پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردوں نے بھتہ وصولی کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسلام آباد، راولپنڈی اور کراچی کے تاجران اور بااثر اشخاص کے نام تحریکِ طالبان نے دھمکی آمیز خطوط ارسال کیے اور فون کالز بھی کیں جن میں ان افراد سے بھاری رقوم کا تقاضہ کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق تحریکِ طالبان جرائم پیشہ عناصر کی مدد سے ان شہروں سے رقم اکھٹی کر رہی ہے۔ تا ہم اس صورتحال میں سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ تاجران دھمکی ملنے کے بعد متعلقہ اداروں کو اس لیے رپورٹ نہیں کرتے کہ کہیں تحریکِ طالبان اس کے ردِعمل میں ان کو اور ان کے اہلِ خانہ کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ اس بات پر جب انسپکٹر جنرل پولیس بنیامین خان سے گفتگو کی گئی تو انھیں نے کہا کہ متاثرین کو دھمکی موصول ہوتے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کرنا چاہیے تا کہ مجرموں کے خلاف جلد کاروائی کی جا  سکے۔ جن تاجران، سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد نے پولیس کو ان کاروائیوں سے آگاہ کیا ان کی اطلاع پر پولیس نے بروقت کاروائی کی ۔ان کو موصول ہونے والی ان فون کالز کی تکنیکی تفتیش سے مزید معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد بھتے اور تاوان کی وصولی کے لیے  جنوبی وزیرستان سےبڑے شہروں میں آتے ہیں۔ شواہد ملنے کے بعد پولیس نے اس نیٹ ورک  کے خلاف کاروائی میں بہت سے مجرموں کو گرفتار بھی کیا۔

تا ہم اس صورتحال کے پیشِ نظر عوام میں آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ دہشت گرد کبھی اسلام کا کے نام پر چندہ اکٹھا کرتے ہیں تو کبھی زبردستی بھتہ وصول کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کو اپنی کاروائیاں فعال بنانے کے لیے کثیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ دہشت گردتنظیموں کی مضبوطی اور منظم رہنے کا انحصار بھی روپے پیسے پر ہوتا ہے۔ ان گروہوں کی کاروائیوں، بھرتیاں، اسلحہ، تربیت اور نظریے کی تشہیر کو ایک منظم طریقے سے چلانے کے لیے بھاری رقم درکار ہوتی ہے۔ اس ضرورت کو یقینی  بنانے کے لیے دہشت گرد مختلف  غیر شرعی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقے اختیار کرتے ہیں جن میں غیر ملکی ایجنسیوں کی طرف سے مالی معاونت، منشیات کی سمگلنگ، ڈکیتی، گاڑیوں کی چوری، بھتہ وصولی، اغواء برائے تاوان اور غریبوں کے نام پر زکوٰۃ اور عطیات اکٹھا کرنا شامل ہیں۔ تا ہم حالیہ دنوں دہشت گردوں کے حصولِ رقم کے ذرائع صرف تاوان، ڈکیتی اور بھتہ وصولی تک محدود  ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ پاکستانی  قوم کی دہشت گردی کے خلاف محاذ بندی ہے جس کی بدولت ان گروہوں کو پیسے کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی حکام نے کالعدم تحریکِ طالبان کے ساتھ ساتھ دیگر اور   دہشت گرد انتہا پسند تنظیموں کے بینک اکاؤنٹ بھی ضبط کر لیے  ہیں ۔جس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کے دہشت گرد نیٹ ورک سے پیسے اکھٹے کرنے  کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور چار و نچار یہ دہشت گرد واضح طور پر غیر قانونی اور مجرمانہ اطوار اختیار کر رہے ہیں۔

ماہرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق دہشت گرد گروہ ان کاروائیوں کے ذریعے اب تک کئی لاکھ ڈالر اکھٹے کر چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک اغواء کے لیے 50 کروڑ سے لے کر 1.5 ارب ڈالرتک کے تاوان کا تقاضہ کیا جاتا ہے جبکہ بھتے کی قیمت بھی کروڑوں ڈالر لگائی جاتی ہے۔ بعد ازیں  یہ رقم  دہشت گردانہ کاروائیوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ دہشت گرد اس مجرمانہ فعل کو جہادی کاروائی کا نام دیتے ہیں اور اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لیے کی جانے والی چوریوں اور ڈکتیوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائز قرار دیتے ہیں۔ دہشت گردوں کی ان کاروائیوں کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے دیگر جرائم پیشہ گروہوں نے بھی دہشت گردوں کے نام پر لوگوں سے بھتہ وصول کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسلام آباد، کراچی  اور لاہور میں جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے کی گئی اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نتیجے میں بہت سی انتہا پسند تنظیمیں بے نقاب ہوئی ہیں جو  پہلے تواسلام کے نام پر چندہ اکٹھا کرتی تھیں۔لیکن اب بھتہ وصولی جیسی کاروائیو ں تک محدود ہو کر رہ گئی  ہیں ۔ عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ممکن طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں تا کہ  ان کے خلاف فوری کا روائی کی جائے اور دہشت گردوں کے مقاصد کو ناکام بنایا      جاسکے کیونکہ عوام کی مدد سے ہی ان دہشت گرد عناصر کو جلد کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ حکام اعلیٰ کی بھی یہ    ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردوں کے ارادوں کو ناکام کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں تا کہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ پاکستان کے امن پسند اور اسلام دوست لوگوں کا تعاون ہی اس ملک کو دہشت گردی سے نجات دلوا سکتا ہے۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top