حکومت منظور پشتین کو لگام ڈال دے

نغمہ حبیب

پاکستان

میں دہشتگردی نے عالمی طاقتوں کی باہمی چپقلشوں اور سرد جنگ کے نتیجے میں جٹر پکڑی اور پھر یہ طاقتیں تو سکون اور امن سے اپنے اپنے ملک میں بیٹھ گئی لیکن پاکستان طویل عرصے تک اس شدید ترین مسئلے سے بری طرح متاثر رہا بلکہ اب بھی ہے اگرچہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل اور پاک فوج کی کامیاب حکمتِ عملی،قربانیوں اور کاروائیوں کے نتیجے میں اس عفریت پر کافی حد تک قا بو پایا جا چکا ہے اور الحمدللہ عوام اب معمول کی کاروائیوں کو سکون سے سرانجام دے رہے ہیں لیکن یہی بات دشمن کوگوارا نہیں وہ جب ایک طرف سے امن بحال ہوتے دیکھتا ہے تو دوسرا محاذکھول لیتا ہے۔ افغان طالبان، پاکستانی طالبان، داعش اور بلوچستان ہر طرف سے جب اُسے ناکامی ہوئی تو اُس نے ایک نوجوان کو پکڑ کر اُس پر کام کیا اور اب اسی منظور پشتین کو وہ عالمی سطح پر ہیرو بناکر پیش کر رہا ہے۔ حکومت نے بھی اسے ابھی تک چھٹی دے رکھی ہے اور وہ جگہ جگہ نفرت انگیز تقار یر بھی کر رہا ہے اور جلسے جلسوس بھی اور یہ سب کچھ ملک کے اندر اور ملک سے باہر دونوں ہو رہا ہے اور صوابی میں ایسی ہی نفرت انگیزی پھیلانے پر اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہو چکی ہے۔ منطور پشتین کے جلسے جلوس پاکستان میں بسے ہوئے لاکھوں افغانوں کے دم سے آباد ہوئے ہیں اور باہر کی دنیا میں تو اُسے انسانی حقوق کا ایک علمبردار بنا کرپیش کیا جا رہا ہے اور دشمن ممالک کے ادارے پیسہ پانی کی طرح بہا کر اُس کے جلسے منعقد کروا رہے ہیں۔ بھارت کے خزانوں کے منہ تو پاکستان کے خلاف ہمیشہ کھلے رہتے ہیں لہٰذا اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے لیکن اس لڑکے کے لیے تو اٖفغانستان نے بھی اپنا ہر قسم کا تعاون پیش اور فراہم کیا ہے۔ وزیرستان کا یہ لڑکا جس کو شروع میں دشمن ایجنسیوں کی طرف سے محدودمینڈیٹ دیا گیا اُس نے چند مطالبات پیش کئے اور اسے انسانی حقوق کا ایک نمائندہ بنا کر پیش کیا گیا اُس نے پاکستانی افواج کی اس کے علاقے کے لیے قربانیوں کو یکسرنہ صرف نظر انداز کیا بلکہ انہیں ہی مجرم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ابتداء میں اُس نے اپنے علاقے میں موجود چیک پوسٹوں پر احتجاج کیا اور انہیں ہٹانے کا مطالبہ کیا ، اپنے علاقے سے بارودی سرنگیں صاف کرنے کا بھی مطالبہ کیا ۔ محسود نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد اُس نے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور پختونوں کو علاقائیت اور قومیت کی بنیاد پر اُبھارنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ساتھ اُس نے پاک فوج پر الزامات لگائے۔ خود کو طالبان کا مخالف کہنے والے اس شخص نے وزیرستان اور خیبر پختونخواہ میں دہشتگردی کے لیے افواج پاکستان کو موردِ الزام بلکہ ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے پختونوں کے خلاف کاروائی قرار دیا یعنی اس طرح سے پختونوں کے جذبات کو اُبھارا اور انہیں ریاست کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی۔منظور پشتین جس ماحول اور علاقے میں پیدا ہوا اور پلا بڑا اس کے مطابق وہ خوب جانتا ہے کہ اس کے علاقے میں فساد پھیلانے والے ہاتھ کس کے تھے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اُس پسماندہ علاقے میں ایک فوجی ادارے نے ہی اُسے ایک بہتر تعلیم کی بنیاد فرا ہم کی اے پی ایس بنوں سے میٹرک کر کے آگے بڑھ کر تعلیم حاصل کر نے کے قابل بنایا اُس نے اسی ادارے یعنی فوج کے خلاف زبان دراز کی تو ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے ایک ایسے دشمن کا ہاتھ ہے جو پاکستان میں امن نہیں چاہتا ۔منظور پشتین ’’را ‘‘کا ایجنٹ ہونے کا انکار کرتا ہے لیکن اُس کے تمام اقدامات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اُسے دیا جا رہا ہے اور بہت کچھ دیا جا رہا ہے۔ اُس کے خاندانی پس منظر میں دیکھا جائے تو اُس کے پاس اتنے وسائل اور ذرائع کہاں سے آئے کہ وہ یوں پوری دنیاگھومے بات یہی ہے کہ اُس کے ابتدائی اقدامات کو دیکھ کر دشمن نے اُسے چن لیا اور اسے ایک مقامی طور کام کرنے والے شخص سے بین الاقوامی طور پر پہنچانا جانے والا ہیرو بنانے کی کوشش کی۔ پشتین کو ملک کے اندر سے بھی اُن لوگوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف خوب پذیرائی اور مدد ملی جو خود کو پختونوں کا نمائندہ کہلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کبھی اُس مقام تک نہیں پہنچے جہاں پر وہ خود کو ایسا کہلا سکیں۔ خیبر پختونخواہ میں اُسے عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے پورا تعاون فراہم کیا دوسری طرف بلوچستان سے ملی عوامی پارٹی کے خودہی جماعت خود ہی رہنما محمود خان اچکزئی نے بھی اُس کو نہ صرف ہیرو بنانے کی کوشش کی بلکہ اپنے پوتوں کی عمر کے اس لڑتے کے ساتھ فخر سے فوٹو سیشن بھی کرائے یوں مختلف علاقائی جماعتوں کے جذباتی نوجوان اُس کے ارد گرد جمع کر دیے گئے۔ منظور پشتین نہ کوئی بڑا نام ہے نہ بڑا دماغ جس کو اداروں میں بلا کر اُس سے تقریریں کروائی جائیں لیکن ہمارے کچھ تعلیمی اداروں نے بھی اُسے اپنے ہاں بطور مہمان مقرر کے مدعو کیا ہے تعلیمی ادارے جو خود اعلیٰ دماغوں سے بھر پور ہیں اس کو بُلا کر اپنے طلباء کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ فوج مخالف پچھلی حکومت کے دور میں تو اُسے خوب موقع دیا گیا کہ وہ فوج کے خلاف بولے اور نفرت پھیلائے لیکن اب اُسے لگام ڈا لنی پڑے گی اور اب جبکہ اُس کے اور نو دیگر ساتھیوں جس میں اُس کا معاونِ خاص محسن داوڑ بھی شامل ہے کے خلاف صوابی تھانے میں نفرت انگیزی پھیلانے کے الزام میں ایف آئی آر بھی کٹ چکی ہے اُس کے خلاف کاروائی ضروری ہے۔مجھے چند ایسے نو عمر نوجوانوں سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا جو بغیر کسی تحقیق اور جانکاری کے اُس کے پیروی پر آمادہ ہیں اور پوچھنے پر وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں بتا سکے کہ وہ پختونوں کے حقوق کے لیے کام کر رہا ہے اور یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر ایک خود کو حقوق سے محروم سمجھتا ہے اور فرائض سے مبراء اسی چیز کو دشمن خوب خوب استعمال کرتا ہے اور میں ہر بار کی طرح اب کی بار بھی یہی کہوں گی کہ وہ ایسا کرے گا کیونکہ وہ دشمن ہے اور وہ دشمنی کے تمام حربے آزمائے گا لیکن کچھ فرائض ہم نے بھی ادا کرنے ہیں۔ ان علاقوں کو خیبر پختونخواہ میں ضم تو کر دیا گیا ہے اور فوج نے بھی قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے بھر پور کام کیا ہے لیکن اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ان علاقوں میں ہنگامی بنیادوں پر ترقیاتی کام کیے جائیں اور خاص کر روزگار کی فراہمی پر توجہ دی جائے تاکہ فارغ نوجوان اس قسم کے لوگوں کے جھانسے میں آکر ملک دشمن کاروائیوں میں ملوث ہی نہ ہوں اور حکومت اس طرف بھی توجہ دے کہ تمام سہولیات کو بڑے شہروں میں سمیٹ کر محدود کر دینے کی پالیسی ترک کر لے اور اس کا دائرہ ضرورت کے مطابق پورے ملک میں پھیلائے پھر کوئی دشمن کوئی منظور پشتین یوں آسانی سے تلاش نہیں کر سکے گا جو ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف زہر پھیلائے اور عام لوگوں کو گمراہ کر سکے۔ 2

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top