دہشت گردوں کے قول و فعل میں تضاد

[urdu]

دہشت گردوں کے قول و فعل میں تضاد

taliban_reuters_terrorism in pakistan ایس اکبر

            اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسانیت کو اعتدال پسندی، رواداری، برادشت اور صبر وتحمل کا درس دیتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے برعکس دہشت گردوں نے اپنے ذاتی اور سیاتی مقاصد کے حصول کے لیے اسلام کے نام پر دہشت گردی کی جنگ شروع کر رکھی ہے جس نے امتِ مسلمہ کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص بدنام کر رکھا ہے۔ آگ اور خون کے کھیل نے پچھلے کئی سالوں کے دوران بہت سے بے گناہ اور معصوم انسانوں کو ہم سے جدا کر دیا اور لا تعداد خاندانوں کو دُکھوں سے آشکار کیا۔ دہشت گرد طالبان نے اسلام کے بنیادی فریضے جہاد کو غلط رنگ دے کر بہت سے لوگوں کو اپنے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ ان اسلام دشمن عناصر نے ہمیشہ اسلام کی غلط تعلیمات کا پرچار کیا اور قبائلی علاقوں میں اپنے قدم جما لیے۔

            انتہا پسند دہشت گرد ہمیشہ یہ پرچار کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کے سچے پیروکار ہیں جبکہ اسکے برعکس اگر ان کی کاروائیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو تی ہے کہ ان کے قوم و فعل میں واضح تضاد ہے۔ مسلح فسادانگیزی، انسانی قتل و غارت، خودکش حملے، مساجد و مزارات پر حملے، تعلیمی اداروں کی تباہی، دفاعی تربیت کے مراکز پر حملے، نعشوں کی بے حرمتی اور عورتوں کا استحصال وہ تمام کاروائیاں ہیں جو ان دہشت گردوں کی حقیقت عیاں کرنے کی لیے کافی ہیں۔ یہ دہشت گرد ان تمام کاروائیوں پر عمل پیرا ہیں جس سے نہ صرف مسلمانوں کی بدنامی ہو رہی ہے بلکہ اسلام دہشت گرد ی کو فروغ دینے والا مذہب سمجھا جاتا ہے۔ اسلام میں خودکش حملے حرام ہیں اور خودکش حملہ کرنے والے حرام موت مرتے ہیں۔ اسلام کبھی معصوم لوگوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا جبکہ عسکریت پسند دہشت گرد آئے روز خودکش حملے کر کے کئی معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اور انسانیت کی تذلیل کر رہے ہیں کیونکہ انسانیت کی قدرومنزلت کی جو حقیقت اسلام نے بیان کی ہے اس کا ثبوت شاید ہی کسی اور مذہب میں ملے۔ اس لیے خودکش حملے غیر اسلامی ہیں۔

            ایک اور بہت بڑی غیر اسلامی سرگرمی مسجدوں پر حملے ہیں۔ نمازیوں پر حملہ کرنے والے اللہ کے سخت عذاب و قہر کے مستحق ہیں۔ مسجدوں پر حملے اور بے گناہ معصوم انسانوں کو شہید کرنا اسلام کی روح سے گناہ کبیرہ ہے اور ان کاروائیوں پر عمل پیرا لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔دہشت گردمساجد کو شہید کرنے، نمازیوں کے خون سے مساجد کے در ودیوار رنگنے، مزارات کی بے حرمتی کرنے اور انہیں شرک کے اڈے قرار دے کر مسمار کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے باعث سرکاری اسکولوں کو غیر اسلامی تعلیم کے مراکز قرار دے کرانہیں گرانے اور اساتذہ کو قتل کرنے میں لگے ہیں۔ اس وحشت و بربریت پر ہر محب وطن شہری کا دل فگار اور آنکھیں اشک بار ہیں۔ تعلیم کی اہمیت سے کوئی ذی ہوش انکار نہیں کر سکتا۔ طالبان نے اسلامی تعلیمات کے برعکس حصول ِ تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے اور تمام طالب علموں کو پابند سلاسل کر دیا۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے سکولوں کو تباہ وبرباد کر دیا۔ جس سے سینکڑوں طالب علم اپنے بنیادی حق سے محروم ہو گئے ہیں۔معصوم طالبعلموں پر قاتلانہ حملے بھی ان دہشت گردوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔سرکاری عمارات اور پبلک مقامات پر خودکش حملوں کے نتیجے میں ہزارہا سرکاری اہلکار اور بے گنا ہ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان تمام کاروائیوں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دہشت گردوں کی تمام کاروائیاں اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔ یہ ظالم اپنےذاتی مقاصد اور چند روپوں کی خاطر اسلام کو بدنام کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کے قول وفعل میں واضح تضاد ہے جو اپنے آپ کو اسلامی احکامات ماننے والے سچے مسلمان گردانتے ہیں لیکن ان کاہر عمل اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جس کی روح سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ وہ مسلمان تو دور کی بات انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں ہیں۔ ان کی انسانیت سوز کاروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں اور پیسے کے لالچ میں اس ملک کو غیر مستحکم کرنے میں کوشاں ہیں۔

            مزید برآں یہ دہشت گرد اپنے سرغنہ لیڈر کو ناحق سراہتے ہیں اور جو سرغنہ اپنی زندگی میں جتنا ظالم تھا اور جس نے زیادہ معصوم لوگوں کا خون بہایا وہ ان ظالموں کے نزدیک اتنا ہی عظیم ہے۔طالبان کی قتل و غارت گری کو نہ تو جنگ کا نام دیا جا سکتا ہے اور نہ جہاد کا کیونکہ نہ صرف اسلام نے بلکہ آج کی دنیا نے بھی جنگ کے کچھ اصول وضع کر رکھے ہیں جن میں سفاکی، بربریت اور پُر امن شہریوں پر اندھی بمباری کی قطعاً گنجائش نہیں۔ جبکہ اسلام نے تو جہاد کے ایسے زریں اصولوں سے دنیا کو روشناس کروایا ہے جن کی نظیر پوری تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔ یہ کیسے انسان ہیں جن کے دل انسانیت سے یکسر خالی ہو چکے ہیں اور انہیں کسی بین الاقوامی اصول اور قانون کی پروا نہیں رہی؟ یہ کیسے مسلمان ہیں جو نہ صرف اسلامی جہاد کی شرائط اور ضابطوں بلکہ اسلام کی تعلیمات کو پامال کرتے اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بے دریغ بہاتے جا رہے ہیں لیکن خود کو “مسلمان مجاہد” کہلوانے پربضد ہیں۔

            اسلامی پیروکار ہونے کا پرچار کرتے ہوئے ان ظالموں نے بہت سے معصوم لوگوں کے مذہبی لگاو کا استحصال کیا ہے۔انھیں نفرت اور بدلے کی آگ میں جلا کر ان ظالموں نے نجانے اپنے کتنے ذاتی اور سیاسی مقاصد پورے کیے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ظالموں کے پیٹ کی آگ کسی طور ٹھنڈی ہوتی نہیں دکھائی دیتی ۔ یہ ظالم دہشت گردی کی کاروائیاں اتنے سفاک دیدہ دلیری سے کرتے ہیں کہ انسانیت بھی شرمندہ ہو جاتی ہے۔ لیکن شاید یہ خوابِ غفلت میں ہیں کہ اب بھی یہ لوگوں کے مذہبی لگاو اور اسلام کے نام سے کھیل سکے گے۔اب ہر ذی شعور انسان پر ان کی حقیقت عیاں ہو گئی ہے کہ یہ ظالم صرف اور صرف ‘باغی’ اور خوارج ہیں۔اس لیے ان کا قلع قمع کرنے کے لیے ہم سب کو متحد ہونا پڑے گا۔ انشااللہ وہ وقت دور نہیں جب ہم ان ظالموں کو جہنم وارد کر کے سکھ اور چین کا سانس لیں گے۔

[/urdu]

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top