شرمندہ ماضی پر پچھتاوے کی بجائے ۔ نخوت وتکبر کا یہ ’حال‘

                                                                                                                              power of media44                                                            سیّد ناصررضا کاظمی

’غصہ‘ ایک ایسا جذباتی دشمن جو انسان کو قتل وغارت گری کے پچھتاوے سے دوچار کرنے میں منٹ نہیں لگاتا، بنیادی شرط یہ کہ ’غصہ ور ‘ آدمی کے اندر انسانی احساسات و جذبات کے ’حسّی ‘ مزاج کے عنصر موجود ہوں جبھی وہ ’غصہ‘ کرنے کے بعد پچھتائے گا ضرور، مگر سچ یہ ہے کہ زود رنجی ‘ پچھتاوا‘ رنجیدگی ‘ تاسف ‘ یا آزردگی جیسی ذہنی ونظری اور فکری بیماریاں پالنے والے نفسیاتی عوارض کے شکار افراد ‘ چاہے اِن کا تعلق عوام سے ہویا خواص سے، اپنی کسی بھی معمولی سی لغزش کو پہلے ’لغزش ‘ تسلیم تو کریں‘ اپنی کسی بھی ’غلطی ‘ کا اعتراف تو کریں ’لغزش اور غلطی ‘ کے اعتراف کے بعد کہیں جاکر ایسے افراد اِس نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں کہ واقعی کہیں نہ کہیں اِن سے کوئی نہ کوئی ایسی بڑی ’ لغزش ‘ یا ایسی کوئی ’فاش غلطی ‘ ضرور سردز ہوئی ہے جس کے رونما ہونے کے بعد ہر طرف سے ہماری ہی جانب ’سوالیہ ‘ انگلیاں اُٹھنے لگی ہیں اور اگر بات افراد سے بڑھ کر کسی بھی شعبہ ِٗ ہائے زندگی کے اہم اداروں پر آکر ٹھہر جائے بلکہ کوئی ایسا ’ادارہ‘ جس ایک ادارے کا براہِ راست تعلق عوامی رائےِ عامہ کی سمتوں پر اپنا گہرا تاثر چھوڑے وہ ادارہ اگر اپنے فرائض منصبی کے معروف اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی معاشرتی قومی ذمہ داریوں سے روگردانی کا موجب بن جائے اپنی لغزشوں کو اپنی پیشہ ورانہ غلطیوں کو کسی صائب خاطر مدارات میں نہ لائے کھلم کھلا اترائے ملکی قوانین اور ملکی آئین کا برملا احترام کرنے کی بجائے اپنے حال کی فکر نہ کرئے اور ماضی کے وقت کی دھول اپنے پیشہ ورانہ اصولوں کے چہر وں مل کر انتقام ‘ انتقام کی دہائیاں دینے لگ جائے تو ایسے قلبی ونظر ی ‘ بلکہ فکری تنگ نظری کے نفسیاتی پیشہ وروں کا کسی کے پاس کیا علاج ہے ؟اِسے کوئی بھی ذی شعور انسان ’جیو اور جینے دو‘ کی غیر جانبدارانہ سوچ کے عکس کا نعم البدل نہیں کہہ سکتا انتقام ‘ انتقام کی پیشہ ورانہ خود غرضیوں کی مالا کب تک یونہی جپتے رہیئے گا زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے آپ کب تک پاکستان کی جغرافیائی حقیقتوں سے آنکھیں چرائیں گے پاکستان میں انارکی اور انتشار پھیلا کر اہلِ پاکستان کی ایک بڑی واضح اکثریت کی رائے کو یکسر منفی نہیں کیا جاسکتا پاکستانی فوج کے خلاف پاکستانی عوام کبھی ایکا نہیں کرسکتے ہوگی یہ ’جیو اور جینے دو‘ والوں کی وقتی خوش فہمی ؟گجرات کا قصاب نریندر مودی یقیناًآج بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہوگیا کل فرید کوٹ کا ’اجمل‘ قصاب آپ کی اسکرین کا ہیرو تھا جبکہ پاکستانی سپریم انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی آپ کے اسکرین پر تھی بحیثیت ’ولن ؟‘ نریندر مودی ہو مسٹرکیمرون یا پھر امریکی کونصلیٹ والے اِس قدر اور اتنے دنوں تک عوامی غیض کا نشانہ بننے کے باوجود اب بھی پاکستانی فوج اور پاکستانی خفیہ اداروں سے ناراضگی کے مسائل جوں کے توں کیوں ہیں ؟حقیقتِ حال سے ناواقفیت ماضی کے زخموں کو مندمل کرسکتی ہے نہ آپ کے حال کے انتقام کی دہکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں ممد و معاون ہوسکتی ہے وہ ہی پرانے کہنہ اور فرسودہ رپورٹروں ‘ کالم نگاروں‘ اپنے ٹی وی ٹا ک شو کے اینکر پرسنز کے منفی جذبات اور اُن کی ذہنی پسماندگیوں اتھاہ گہرائیوں میں لتھڑے ہوؤں پر ’جیو اور جینے دو‘ کا گھسا پٹا بھروسہ کب تک کیا جائے گا بجائے اِس کے کہ اپنے چند ماہ پیشتر کے شرمندہ ماضی پر پچھتایا جاتا اپنے حال کو پاکستانی قوم کی فکری ونظر ی امنگوں کا ترجمان بنایا جاتا بڑی ذہنی کوفت اور بدقسمتی کا مقام ہے گز شتہ چند ماہ سے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر امریکی \’ برطانونی \’اسرائیلی اور بھارتی دولت کے بے دریغ بہاؤنے ملکی ذرائعِ ابلاغ کے ا یک نجی ادارے کو اپنے زیر اثر بناکر ہماری قومی سلامتی سے وابستہ ہر ایک اہم ادارے کو کئی نوع کے کثیر الجہتی قسم کے متنازعہ بحث ومباحثے میں الجھائے رکھنے کی باگیں چند پاکستان دشمن غیر ملکی عناصر نے اپنے منحوس ہاتھوں میں تھا م رکھی ہیں ایک طرف ملک میں’جمہوریت بچاو ‘ جمہوری پارلیمانی تحریک ‘مشترکہ پارلیمانی اجلاس کی شکل میں جاری وساری ہیں دوسری طرف پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے باہر دومختلف سیاسی جماعتوں کے دھرنوں کو غالبا اب دوسرا مہینہ شروع ہو نے لگا ہے لے دیکے اوپر سے مون سون کی قبل از وقت موسلادھار بارشوں کے طوفان خیزنتیجے میں پنجاب بھرکے ہزاروں گاوں ‘دیہات بلکہ کئی شہر اب تک زیرآب آگئے ہیں ہزاروں خاندان بے گھر ہوگئے ، سینکڑوں ملکی اپنی قیمتی جانوں کی بازی ہار گئے 1992 سے2010 تک کے اِسی نوع کے خطرناک سماوی آفات نے حکمراانوں کے لئے کئی سبق آموز اسباق چھوڑے مگر مجال ہے جو کسی نے اْن خطرناک سانحات سے اور ا لمیوں سے کوئی سبق سیکھا ؟ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ملکی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ ہر کسی حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کے حصوں میں \’بقدرِ جسہ \’ ضرور آیا جس کا ریکارڈ قومی خزانے کے ذمہ داروں کے پاس یقیناًہو گا ڈیمز بنانے تو دور کی بات \’ بڑے دریاں اور بڑے سیلابی نالوں کے گرد پختہ حفاظتی بند اور حصار بنانے والوں سے نجانے کون کب حساب کتاب کرئے گا؟ ہر سال یونہی بارشیں ہونگی‘ بھارت ہر سال دریائے جہلم اور چناب میں بغیر اطلاع دئیے پانی چھوڑتا رہے گا جو ہمارے اپو زیشن اور حکمران جماعتوں سے وابستہ اراکین کے لئے مالی عذر اور مالی بہانے پیش کرنے کی توجیحات کے جوابی اسباب مہیا کرنے میں اْن کے لئے اور آسانیاں فراہم کرنے کا موجب بنتے رہیں گے، یہ ہی ہے ملک کا وہ نجی’ میڈیا ایمپائر‘ جس کے کئی روزنا مے اور جرائد شائع ہوتے ہیں اِس کے کئی ٹی وی چینلز ملک میں دکھائے جارہے ہیں یہ وہی ہیں جنہوں نے تقسیمِ ہند کے مخالف‘تقسیمِ ہند کے کٹر دشمن بھارتی انگریزی روزنامہ’ٹائمز آف انڈیا ‘ کے ساتھ کئی قسم کے کاروباری معاہدے کررکھے ہیں اِن ہی مذکورہ متعلقہ کاروباری معاہدوں میں کئی ٹاپ کے نامی گرامی پاکستانی سیاست دانوں کے کاروباری مفادات بھی وابستہ ہیں جغرافیائی حدود واربع کے اعتبار سے چونکہ پاکستان ایک چھوٹا ملک ٹھہرا مگر ٹائمز آف انڈیا اور اِس مخصوص پاکستانی نجی میڈیا کے تجارتی مفادات کے منافع کے ذرائع زیادہ دیر تک اتنے محدوو نہیں رکھے جاسکتے اِن کے لیئے بے پناہ وسیع تجارتی مفادات کے منافعوں کی قدر کو اصل زر کے ساتھ وصو لیانے کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ پاکستانی حکومت فی الفور بھارت کو علاقہ میں’پسندیدہ تجارتی ملک ‘ کی حیثیت دینے کی جانب فوری اقدامات بروئےِ کار لائے تاکہ بھارت پاکستان کی راہداری کو بغیر کسی رکاوٹ کے’ بلا کسی استثناٰ کے‘ اور بلا روک ٹوک اپنے استعمال میں لانے کا حقدار بن جائے ماضی میں کبھی کہا جاتا تھا بغیر’ ٹرائیکا‘ کی باہمی مشاورتی رضامندی کے کوئی حساس جغرافیائی فیصلہ با آسانی خطے پر لاگو نہیں کیا جاسکتا گز شتہ چھ سات برسوں میں یہ’ٹرائیکا‘ بھی کب کی ختم ہوچکی جب سے افواجِ پاکستان نے خود یہ فیصلہ کرلیا کہ ملکی سیاست سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہوگا گزشتہ چھ سات برسوں میں عملاً فوج نے یہ ثابت بھی کردیا اپنے آپ کو ملکی سیاست سے بالکل اور قطعی الگ کرکے دنیا کو دکھا بھی د یا ہے پاکستانی فوج ملکی آئین\’ عدلیہ اور سیاسی مقننہ کی آئینی پابند ہوکر ملکی سیکورٹی کے ادارے کے طور پر اب اپنے آئینی فرائض ادا کرنے میں ہمہ تن مصروفَ عمل ہے فوج نے حکو متِ وقت کے ساتھ کیئے گئے آئینی فیصلوں کی پابندی کرتے ہوئے خود کو ملکی سرحدوں کے تحفظ کے لئے و قف کررکھا ہے آجکل فوج افغانستان سے ملی ہوئی مغربی سرحدوں کے اندر واقع فاٹا کے شمالی علاقوں میں اپنی تاریخ کی سب سے اہم اور ایک بہت بڑی جنگ لڑرہی ہے، مغربی سرحدوں کے پار افغانستان سے درآمد ہونے والی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے’ہشت گردی کے شیطانی عفریت کے فتنہ کو اُس کی جڑ بیخ سمیت اْکھاڑ پھیکنے کی یہ جنگ بہت خطرناک بھی ہے شدید بھی اور طویل بھی ‘۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top