عدل اور انصاف کے بغیر امن؟

تحریر: محمد غالب برمنگھم
اگر کسی گھر میں انصاف نہ ہو تو اس گھر کا امن بربا دہوجاتاہے اسی طرح جس معاشرے اور ملک میں بے انصافیاں ہوں تو پھر امن قائم نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ہر زمانے میں پیغمبر اور کتابیں نازل کی ہیں اور عدل اور انصاف کا نظام قائم کرنے کے انسانوں کے لیے ہدائت اور رہنمائی عطا کی ہے اس وقت دنیا میں اگر امن نہیں ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں مسلم ممالک سب سے زیادہ بدآمنی کا شکار ہیں مسلمانوں کے اندر ایسی کوئی لیڈر شپ نہیں ہے مسلمانوں کو آپس میں تقسیم رکھنے کے لیے ایسے حکمران مسلط ہیں جو عالمی استعمار کا آلہ کار بن کے اپنے ہی عوام کا استحصال رہے ہیں مسلمان ملکوں پر بادشاہ اور فوجی ڈکٹیٹر وں نے قبضہ کر رکھا ہے سیاسی اور معاشی دہشت گردی ہو رہی ہے وسائل پر چند خاندان قابض ہیں زبان،رنگ ونسل، فرقہ پرستی اور برادریوں کے ہتھکنڈوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک نظام دیا تھا جس پر کسی بھی ملک میں کوئی عمل درآمد نہیں ہے مغرب نیاس کی ریسرچ کی اور یورپین ممالک میں اس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں جس کے نتیجے میں غیر مسلم ممالک میں قدرے امن ہے جمہورت عدل اور انصاف ہے اقتدار میں عوامی مینڈیٹ شامل ہے مسلم ممالک میں حکمرانوں کی کوئی جوابدہی نہیں ہے کرپشن کا شکار ہیں ملکی دولت کو لوٹ کر بیرون ملک منتقل کر کے پھر اس کے تحفظ کے لیے دشمن کے اجنٹ بن جاتے ہیں پھر وہی لوگ دولت کے بل بوتے پر اگر کہیں جمہوری راستہ بھی اختیار کرنا پڑے تو کرپشن کا پیسہ خرچ کر کے اقتدار میں آجاتے ہیں مسلم ممالک کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے مگر قیادت کرپٹ ہونے کی وجہ سے آئی، ایم، ایف کے رحم و کرم پر ہیں ملک پر اتنا قرضہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی پالیسی اور بجٹ تک نہیں بنا سکتے اس وقت مڈل ایسٹ کے تمام ممالک تباہ ہوچکے ہیں کسی بھی ملک میں امن نہیں ہے یورپین ممالک میں مسلمانوں کے خلاف بھی مہم شروع ہے مسلمانوں کے خلاف لابنگ سرگرم ہیں مسلمانوں کی نئی نسل خاص طور پر نشانے پر ہے مسلم کمیونٹی یہاں بھی فرقوں میں بٹی ہوئی ہے ایک سازش کے تحت یہ زہر نئی نسل کے اندر بھی پھیلایا جا رہا ہے نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے کوئی ادارہ اور تنظیم نہیں ہے برطانیہ اور یورپ میں پیدا اور پروان چڑنے والا نوجوان سیاسی طور پر کہیں نظر نہیں آتا جہاں پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور فیصلے ہوتے ہیں وہاں کوئی باعمل مسلمان نہیں ہے مساجد اور تنظیمیں تقسیم ہیں ایک دوسرے کے خلاف فتووں میں مصروف ہیں مختلف گروپس آپس میں دست و گریبان ہیں مرعات حاصل کرنے کے لیے وفاداری کے چکروں میں مصروف ہیں استعمار نے ہر دور میں مسلمانوں کے اندر اپنے آلہکار پیدا کیے ہیں جو صوفی اور سیاسی مسلمانوں کی تقسیم میں سرگرم ہیں برطانیہ میں مسلم کونسل آف برٹین (ایم،سی، بی )کا قیام جب عمل میں لایا گیا تھا تو تمام مساجد اور تنظیموں کی حمائت حاصل تھی مگر بعض لوگ اسے بھی برداشت نہیں کرسکے اور مسلک اور فرقوں کی بنیاد پر اسے بھی تقسیم کیا گیا مسلمانوں کی اجتماعی اور مشترکہ کوششوں کو نقصان پہنچایا گیاآخر کا ر وہ بھی کامیاب نہ ہوسکے اس وقت مسلمانوں کی نئی نسل کی نمائیندگی کرنے کے لیے کوئی منظم تنظیم کی ضرورت ہے اور یہ ایک ایسا خلا ہے جس کے بارے میں مثبت اور سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے یورپ میں جہاں کہیں کوئی دہشت گردی کی کاروائی ہوتی ہے وہ مسلمانوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے مسلمان معاشی اور سیاسی طور پر اس قدر کمزور ہے کہ وہ بار بار دنیا پر واضع کرنے کی یہ کوشش کر رہا ہے کہ اسلام بڑا پُر امن دین ہے مگر کوئی سننے کے لیے تیار نہیں مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے مسلمانوں کی صفوں میں ایسے مفاد پرست عناصر بھی موجود ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اس مہم کا حصہ بن جاتے ہیں اور مسلمان دشمن قوتوں کا آلہ کار بن کر مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں مسلمانوں کی تیسری اور چوتھی نسل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے انہیں فرقوں میں تقسیم کرنے بجائے مسلمان رکھنے کے لیے موجودہ نسل کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا مسلکی اختلافات سے دور رکھنا ہوگا ان کی ایسی تربیت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ یورپین مسلم بن کر معاشرے میں اپنا کوئی رول ادا کر سکیں غیر مسلموں کو اپنے قول و فعل سے متاثر کر سکیں ان کے اندر ابو طالب پیداکریں تاکہ مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار لابنگ کے منفی پراپگنڈے کا توڑ کیا جاسکے۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top