مزید خرابی کی گنجائش نہیں

نغمہ حبیب                                                          0

ذرائع ابلاغیات و نشریات ہر زمانے میں کسی نہ کسی صورت میں موجودرہے ہیں، کبھی ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا، کبھی نقارہ بجتا تھا پھر اعلان ہونے لگے ،بادشاہوں کے فرمان جاری ہوتے تھے اور پھیلائے جاتے تھے پھر اخبارات شائع ہونے لگے، ریڈیو آیا، ٹی وی عام ہوا اور آگے بڑھ کر سیٹلائیٹ کا دور آیا اور الیکٹرانک میدیا نے دوریاں سمیٹ کر رابطے آسان کر دیئے۔ پاکستان میں ایک عرصے تک لوگ پی ٹی وی کے خبرنامے اور ڈراموں پر اکتفا کرتے رہے اور اپنی مرضی کا کہنے سننے کے لیے وہ اخبارات پڑھتے تھے۔ جب نجی شعبے کو الیکٹرانک میڈیا میں چینلز کھولنے کی اجازت ملی تو یہ سمجھا گیا کہ اب صرف حکومتی نکتۂ نظر نہیں بلکہ حقیقت سننے کو ملے گی۔ ایسا ہوا تو ، لیکن بہت دفعہ ملکی مفا د پس پشت ڈالا جاتا رہا ، مختلف اینکرز اور مالک اپنے نظریات و خیالات کی ترویج کرتے رہے کئی بار ذاتی مخالفت کی بنا پر دوسروں کی پگڑی اچھالی گئی۔ قومی و مذہبی اقدار کو کوئی اہمیت نہ دی گئی بلکہ اس کی مخالف سمت میں چلا گیا۔ نہ تو ہمارے ڈرامے ہمارے مذہب و ثقافت کے عکاس رہے نہ سیاست میں موجود تھوڑی بہت شائستگی باقی بچی۔ بات شخصیات سے آگے نکل کر اداروں ، قومی نظریات اور قومی سلامتی تک پہنچ کئی اور جیو نیوز نے امن کی آشا کے نام پر پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کو ہی غیر اہم اور لا معنی قرار دینا شروع کردیا ، دوسری طرف ٹائمز آف انڈیا گروپ تھا جو بھارت کا قومی نکتۂ نظر ہی پھیلاتا رہا۔ بھارت نے نہ 14 اگست 1947کو پاکستان کو دل سے تسلیم کیا تھا اور نہ ہی وہ 2014 میں پاکستان کے وجود کومانتا ہے۔ وہ ہمیشہ اسی زور و شور سے پاکستان اور اس کے نظریے کے خلاف بر سر پیکا رہا لیکن پچھلے کچھ سالوں میں اکھنڈ بھارت کے نظریے کو جیو اور اس کے اینکرز نے خوب پھیلانے کی کوشش کی ۔دو قومی نظریے پر حملے کیے گئے ایسے ایسے دانشوروں کو اکٹھا کیا گیا جو کھلم کھلا پاکستان کی مخالفت اپنا فرض سمجھتے ہیں ماروی سرمد جیسے لوگ اپنے خیالات کو پھیلانے کے لیے اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے رہے ۔حکومتیں ، عدالتیں ، عوام، صحافی برادری حتیٰ کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں بھی خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتی رہیں اوراب جیو بڑے دھڑلے سے کہہ رہا ہے کہ امن کی آشا میں حکومت ،فوج اورآئی ایس آئی کی رضامندی بھی شامل تھی تو آئی ایس آئی اس الزام کو رد کر رہی ہے لیکن اس سے پہلے اعتراض سے آگے بڑھ کر کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ۔ کیا صرف اس لیے کہ اظہار رائے کی آزادی کا اعزاز حاصل کیا جائے بلاشبہ کہ اظہار رائے کی آزادی ضروری ہے لیکن اس سے بڑھ کر مذہب، قومی نظریہ ، قومی سلامتی اور اخلاقی اقدار ضروری ہیں جن کو پس پشت ڈالا گیا ۔
جیو ٹی وی پاکستان کا سب سے طاقتور میڈیا گروپ ہے جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ملک کے کونے کونے میں پہنچتا ہے اور یوں دیکھا بھی جاتا ہے، اسے اپنی اس صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا کہ اپنی اقدار اور روایات کو عام کرتا ،اپنے قومی نظریے کی ترویج کرتا لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔ کشمیر کا مسئلہ اس کے پروگراموں میں نظر نہ آیا ہاں کبھی کبھی لوگوں کا منہ بند رکھنے کوسرسری تذکرہ ہوجاتا تھا۔
پاک بھارت پانی کے مسئلے سے زیادہ اہم ،واشنگ مشین سے لیکر ایک اچھے موبائل تک کی مالکن کی ’’غربت‘‘ کے مارے خود کشی کو سمجھا گیا۔ اگر چہ اس جرم میں دوسرے بھی اس کے شریک رہے تاہم وہ قومی مفادات پر یوں کھلم کھلا ضرب نہیں لگارہے تھے جو امن کی آشا کے نام پر یہاں لگا یا جا رہا ہے اور دوسری طرف ٹائمز آ ف انڈیا پاک بھارت سر حدیں مٹانے کی مذموم کوشش اپنا قومی مفاد حاصل کرنے کے لیے کر رہا ہے۔
بلوچستان کے حالات کا ادارک سب کو ہے ،یہاں کی محرومیاں بھی سب جانتے ہیں اور یہاں بھارت کا گھنا ؤنا کردار بھی کچھ ڈھکا چھپانہیں لیکن یہ گروپ اس کی تمام تر ذمہ داری بھی فوج اور آئی ایس آئی کے سر ڈالتا رہا اور پڑوسی ملک کی خدمت کے عوض معلوم نہیں کیا کچھ وصول کرتا رہا۔پڑوسی ملک کو خوش کرنے کے لیے سیفما جیسے اداروں اور یہاں تک کہ کچھ سیاستدانوں کا تعاون اسے حاصل رہا، شریف برادران بھی امن کی پتنگ اڑانے کی کوشش کرتے رہے جس کی ڈور ہر بار بھارت کی طرف سے کاٹی جاتی رہی۔
یہ میڈیا گروپ بے نقاب ہوا ہے تو جو ثبوت اس کے خلاف اب لائے جارہے ہیں اگر جرم پھلنے پھولنے سے پہلے ہی جڑ کاٹی جاتی تو خرابی بسیار کی نوبت ہی نہ آ تی۔ قومی سلامتی ، قومی ثقافت ، اقدار، روایات ، لباس سب کچھ کو اپنی مرضی اور پڑوسی کی منشاء کے مطابق تبدیل کردیا گیا ہے اور یہ تبدیلی نہ صرف اندھی چال چلنے والے پورے میڈیا پر نظر آرہی ہے بلکہ پورے معاشرے میں دکھائی دے رہی ہے۔ اُس وقت حکومت ، عدالتیں ،میڈیا، عوام، خفیہ ادارے سب سوتے رہے اوراب جب ایک بڑے جھٹکے کے نتیجے میں جاگے ہیں تو سب کا ایک مطالبہ ہے کہ اس ذہنیت کے لوگوں کو لگام دیا جائے اگر چہ حکومت اب بھی تذبذب کا شکا ر ہے اور یہ گروپ بھی اپنی پالیسیوں پر قائم ہے۔ حال ہی میں اوور سمارٹ اینکر شائستہ واحدی نے اپنے مارننگ شو میں جو حرکات کیں عوام اس پر بھی مشتعل ہے اور علماء بھی اس اینکر اور چینل کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عملی طور پر ایسی گستاخیاں پہلے نہیں کی گئیں جب اپنے مذہب اور روایات کے عین خلاف ڈرامے اور شوز چلائے جاتے رہے تاہم اب بھی اگر قوم جاگ ہی گئی ہے اور میڈیا ہوش میں آگیا ہے تو حکومت کو میڈیا کے لیے کچھ عملی قوانین بنا لینے چاہیے اور جو ہیں ان پر عمل درآمد یقینی بنانا چاہیے۔
اظہار رائے کی آزادی کے نام پر قوم اور ملک کو جتنا نقصان پہنچایا گیا اورجتنی ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے اب ہنگامی بنیادوں پر اس کی مرمت ضروری ہے اور جیو کو توقانون کے مطابق سزا دی ہی جائے لیکن باقی کے میڈیا کو بھی اپنی اقدار و روایات کی یاد دلادینی چاہیے اور جس طرح سے قوم اور میڈیا اظہار رائے کی بیہودہ آزادی کے خلاف اکٹھے ہوئے ہیں اسے برقراررہنا چاہیے اور ایسی حدود متعین کر لینی چاہیے جو مذہب اور قومی مفادات کے عین مطابق ہوں اور کسی ایک نہیں بلکہ سب کے لیے ہوں کیونکہ اب مزید خرابی کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ آگے تباہی کا اندھا گڑھا ہے جس سے واپسی کسی طور بھی ممکن نہیں۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top