مغرب کا ایک پسندیدہ موضوع ۔۔۔پاکستانی عورت

نغمہ حبیب
Sahrmeen
ٓ شرمین عبید چنائے کو دو سال کے اندر اندر دوسرا�آسکر ایوارڈ مل گیا۔ شرمین یقیناًایک با صلاحیت خاتون ہوں گی لیکن انہوں نے اپنی ان صلاحیتوں کو اگر پاکستان اور پاکستانی معاشرے کے کچھ مثبت پہلو اجاگر کرنے پر لگایا ہوتا تو پاکستان کے لیے ایک مثبت تاثر پیدا کر سکتی تھیں لیکن ہوا یہ کہ انہوں نے ہر بار ایک منفی پہلو کو لیا اور پاکستان کے بارے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ یہاں سب بُرا ہے سب غلط ہے۔ پاکستان امریکہ ،برطانیہ ،بھارت ہر جگہ ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار ہے ۔مغرب کا ایک اور پسندیدہ مو ضوع پاکستان کی عورت ہے جس کے متعلق معاملات کو جو بھی اچھا لے وہ مغرب کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے۔ شرمین عبید اس کی پہلی مثال نہیں ،مختاراں مائی کا معاملہ جس کو یوں اچھالا گیا جیسے خدانخواستہ پاکستان کی گلی گلی میں یہی کچھ ہو رہا ہو۔ سوات میں عورت کو کوڑے مارے جانے کی جعلی ویڈیو کو بھی وہ پذیرائی ملی جو شاید کسی بہت بڑی مقبول فلم کو حاصل نہ ہوئی ہو۔ پھر سوات کی ملالہ یو سفزئی کو یوں بنا کر پیش کیا گیا جیسے وہ سوات کی واحد اور پہلی لڑکی ہو جو سکول پہنچی ہو نہ کبھی کسی نے پڑھا ہو نہ پڑھایا ہو حالانکہ یہ وہی سوات ہے جس میں والئی سوات کے زمانے میں بھی لڑکیاں ڈاکٹر بننے لاہور اور پشاور جاتی تھیں لیکن اکیسویں صدی کے سوات میں ملالہ کو اکیلی پڑھی لکھی لڑکی سمجھا گیا کیونکہ اُس نے مغرب کی مرضی کا کردار ادا کیا اور نو بل انعام کی حقدار ٹھری دوسری ایسی شخصیت جس کو چنا گیا وہ شرمین عبید چنائے ہے۔ فلم تو پاکستان میں کئی اور لوگ بھی بناتے ہیں اور خوب بناتے ہیں لیکن مغرب کے پسندیدہ مو ضوعات کو انہوں نے بڑی خوبی سے چنا ۔مجھے اعتراض شرمین کے آسکر ایوارڈ پر نہیں مجھے اعتراض اُن موضوعات پر ہے جو انہوں نے چُنے اور انہوں نے اس چیز کا بھر پور فائدہ اٹھایا جب انہیں پہلی بار اس قسم کی فلم بنانے پر سر آنکھوں پر بٹھایا گیا۔’’ سیونگ دی فیس‘‘ میں موضوع عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینکنے جیسا گھناونا فعل تھا اس عمل کے گھناونے پن سے کسی کو اختلاف نہیں اور ان مردوں سے کسی کو بھی ہمدردی نہیں بلکہ معاشرے میں بحیثیت مجموعی نفرت پائی جاتی ہے وہ مرد قابل سزا نہیں بلکہ سخت ترین سزاوءں کے قابل ہیں لیکن یہ لوگ پورے معاشرے کے نمائندہ نہیں جیسا کہ فلم سے اندازہ ہوتا ہے اور جس وجہ سے مغرب نے اسے خاص الخاص پذیرائی دی۔اس فلم کے ساتھ اگر اُس ردعمل کو بھی شامل کیا گیا ہوتا جو بحیثیت مجموعی معاشرے میں اس کے خلاف پایا جاتا ہے تو اسے پاکستان کے مثبت امیج کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پھر فلم اور فلم ساز کی وہ قدر و قیمت نہ بنتی جو اب بنی ہے۔اسی فلم ساز نے پاکستان کے ایک پوری نسل کو طالبان نسل قرار دیا اور اس موضوع پر فلم بنا کر دنیا میں جگہ جگہ ہونے والی دہشت گردی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی۔اس بار پھر انہوں نے جو موضوع چنا وہ غیرت کے نام پر قتل تھا جس میں پھر پاکستان کا ایک ایسامنفی تاثر اُبھارا گیا کہ جیسے یہاں یہ سب کچھ ہر جگہ ہو رہا ہے۔ہر معاشرے کی کچھ روایات ہوتی ہیں اور مسلمان معاشروں میں توعورت اور مرد کی حدود اور رشتوں کے احترام اورنبھا کا ایک بہت موئثر اور عملی نظام موجود ہے اور یہی ہمارے معاشرے کی خوبصورتی ہے لیکن ایسے موضوعات مغرب کے لیے قابل قبول نہیں۔شرمین عبید نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میرے اوپر اعتراض یہ ہے کہ میں معاشرے کے منفی پہلو کیوں لیتی ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں پاکستان میں رہتی ہوں اور یہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے ۔ ان محترمہ کے لیے مشورہ ہے اسی معاشرے میں جہاں وہ رہتی ہیں بہت ساری اچھی روایات، بہت سارے مثبت رویے بھی ہیں ان کو موضوع بنا کر اپنی مہارت استعمال کرتیں تو وہ اپنے گھر، اپنے ملک میں بھی عزت پاتیں۔عالمی سطح پر پاکستان کا جو امیج اُبھارا جا رہا ہے اس میں شرمین جیسے موقع پرست خود اپنے ملک سے شامل ہو جائیں تو کیا انہیں ملک کا مجرم نہ تصور کیا جائے کُجا کہ ہمارے عقلِ کُل قسم کے اینکر اور ہمارا انتہا سے زیادہ ترقی پسند اور آزاد بلکہ ہرپابندی سے آزاد میڈیا اسے مزید تقویت دیتے ہوئے ان مسائل کو ہوا دے۔خرابیوں اور برائیوں کی نشاندہی اور درستگی ضروری ہے لیکن اسے اپنی ذاتی شہرت اور مفاد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ان لوگوں کو پاکستان کا ہیرو بنا کر پیش کیا جائے۔ان لوگوں سے یہ بھی پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا مغرب میں کوئی برائی نہیں یا وہ ہمارے’’ آزاد خیال‘‘ لوگوں کے معیار کے مطابق ہے اس لیے وہاں سب اچھا ہے۔پاکستان میں عورتوں سے زیادتی اور دوسری معاشرتی برائیوں سے کسی کو انکار نہیں اور اس کو ختم کرنے کے لیے کام بھی کرنا ہو گا لیکن یو ں مغرب ہی کی مرتب کردہ رپورٹوں کو بنیاد بنا کر اسے اپنے معاشرے کی پہچان بناکر پیش کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔یہ ’’انتہائی باصلاحیت لوگ‘‘ اگر مغربی معاشروں کی برائیاں ڈھونڈ نکال کر سینکڑوں فلمیں بھی بنالیں تو بھی ایسے ایوارڈ حاصل نہیں کر سکتے۔اس با رشرمین کو یہ کوشش بھی کر لینی چاہیے اور یا اپنے معاشرے کی کسی بہت خوبصورت روایت کو ہی موضوع بنا کر بھی دیکھ لیں اوراُس پر ایسی فلم بنا لیں جس کے بارے میں وہ خود بھی دعویٰ کر سکیں کہ ان کا یہ کام پچھلے تمام کام سے بہتر ہے لیکن پھر بھی انہیں آسکر ایوارڈ نہیں ملا تو انہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ پچھلے دو ایوارڈ انہیں کس وجہ سے دیے گئے ان کے کام کی وجہ سے یا موضوعات کی وجہ سے۔اگر کام پر یہ ایوارڈ دیے جاتے تو پاکستان کے عبدالستار ایدھی صاحب کے نام اب تک بے شمار عالمی ایوارڈ ہو چکے ہوتے، پاکستان کے بہت سارے مصور ،ادیب،شاعر ،ڈاکٹراور سوشل ورکرز عالمی سطح پر گمنام نہ ہوتے ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ وہ پکے پاکستانی تھے اپنی زمین اور اپنی روایات سے جڑے ہوئے اور یہی ان کے محروم رہنے کی وجہ تھی لیکن وہ پھر بھی زیادہ محترم تھے کیونکہ ان کو یہ عزت اپنے گھر اور اپنے لوگوں سے ملی تھی اور اپنے لوگوں،گھراور مٹی سے جو عزت ملے اس کی پائیداری ہر شک و شبہ سے بالا تر ہوتی ہے اور کسی ایوارڈ کی محتاج نہیں ہوتی۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top