مودی کا دورہ یورپی یونین ۔۔۔کامیابی کے محدود امکانات

modi1نغمہ حبیب

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اس سال برسلز کا دورہ کریں گے یہ دورہ مارچ کے آخر تک متوقع ہے اس دورے کا اعلان پہلی بار نہیں ہوا پچھلے سال بھی ایسا ہی اعلان ہوا تھا لیکن یورپی یونین کی طرف سے کوئی تاریخ اور جواب نہیں آیا اور یوں اسے ملتوی کرنا پڑا۔ بھارت اس وقت اپنے لیے دنیا بھر میں تجارتی منڈیاں تلاش کر رہا ہے جس کے لیے مودی ہر جگہ کا دورہ کرنے کو تیار ہیں چاہے وہاں سے حوصلہ افزاء جواب آئے یا نہ آئے ایسا ہی یورپی یونین کی طرف سے ہے جس سے تجارتی روابط بڑھانے کے لیے پچھلے آٹھ سال سے کوشش ہو رہی ہے اگر چہ اس وقت بھی دونوں کے درمیان تجارتی معاہدے موجود ہیں اور 2003 میں اس کا حجم 28.6 بلین یورو تھا جو 2014 میں بڑھ کر 72.5 بلین یورو ہو چکا ہے تا ہم یورپی یونین کو بھارت کے بھاری ٹیکسوں کے اوپر اعتراض ہے اور اس کا مطالبہ انہیں کم کرنے کا ہے جبکہ بھارت اسے ماننے پر تیار نہیں تا ہم ایک بار پھر مودی یورپ کا دورہ کر رہے ہیں تا کہ یورپی یونین سے اپنی بات منواسکیں لیکن خود اس کے ملک میں بھی اُسے اس بارے میں کئی لوگوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ اُس کی دوا ساز کمپنیاں سمجھتی ہیں کہ ایف ٹی اے یعنی فری ٹریڈایگریمنٹ کے ذریعے جب یورپ سے دوائیں آئیں گی تو بھارت کی اپنی دوا ساز کمپنیاں محدود ہو کر خسارے میں چلی جائیں گی۔ سول سو سائٹی کو یہ اعتراض ہے کہ بھارتی مصنوعات کو یورپی اسلحے کے بدلے فروخت کیا جائے گا بلکہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ہماری زندگیوں کو نہ بیچا جائے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بھارتی حکومت اسلحے کے ڈھیر لگانے میں مصروف رہتی ہیں اور مودی کی حکومت تو سب سے آگے بڑھ کر اس کام میں مصروف ہے۔ اُسے اپنے ملک میں ہندو کے علاوہ کوئی قبول نہیں نہ پڑوس میں کوئی دوسرا ملک اُس کو قبول ہے پاکستان کے مخالفت تو اس کی تمام تر جنگی منصوبہ بندی کی بنیاد ہے جس کے لیے وہ ہر قسم کے دفاعی معاہدے کرتا ہے۔ چین کے بارے میں بھی اُس کے خیالات کچھ زیادہ نیک نہیں، نیپال اور سری لنکا بھی اُس کے شر سے محفوظ نہیں۔ ایسے میں عالمی قوتوں کو اُس سے معاہدے کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ مقصد صرف اپنے اسلحے کی فروخت اور زرمبادلہ کا حصول نہ ہو بلکہ عالمی امن کی اہمیت کو بھی مدنظر رکھنا چا ہیے ۔ شاید خطے کے امن کو تو اتنا ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا لیکن مودی کے بارے میں عالمی سطح پر شدت پسندی کا جو تاثر موجود تھا اس کو ابھی تک ختم نہیں جا سکا ہے اس لیے اُسے اپنے اس دورے کے دوران یقیناًمشکلات کا سامنا رہے گا اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ بھارت بحیثیت ایک ملک بھی جس رویے کا مظاہرہ کر رہا ہے اس پر اس کی شنوائی ضروری ہے۔ بھارت کے اندر بھی وہ اپنے مسلمان شہریوں کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے وہ بھی انتہائی قابل اعتراض ہے اگر وہ دوسرے ممالک سے معاہدے کرنے کی بجائے اپنے شہریوں اور اپنے ملک کے مسائل حل کر دے تو یہ اس کے ملک اور پڑوس کے ممالک کے مسائل کم کردے گا۔ ایف ٹی اے میں دو ممالک ایک دوسرے کے لیے شرائط و ضوابط کم کر دیتے ہیں، برآمدات کا کوٹا بھی بڑھا دیا جاتا ہے ساتھ ہی ایک دوسرے کی ماہرانہ خدمات بھی لی اور دی جاتی ہیں اور بھارت کو اپنی بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے پوری دنیا میں نوکریوں کی بھی تلاش رہتی ہے اور وہ خود بھی اسی آبادی اور اس کی ضروریات کی وجہ سے دوسرے ممالک کی ایک بڑی منڈی تصور ہوتی ہے اور اسی لیے مودی سرکار ہر قیمت پر ایسے معاہدے کرنے کے لیے تیار رہتی ہے لیکن اس سب کچھ سے اخلاقیات کے ترازو میں اس کا پلڑا بہت ہلکا ہو جاتا ہے اُس کے ہر اقدام کے پیچھے اپنی ترقی نہیں بلکہ دوسروں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ زیادہ اُمید اور آثار یہی ہیں کہ اُس کا یہ دورہ بھی اس کے دورہ برطانیہ جیسے ہی انجام کی نظر ہوگا بلکہ اس بار تو اسے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا چاہیے کیونکہ بھارت میں شدت پسندی میں جس شدت سے اضافہ ہوا ہے وہ بذات خود دنیا کے لیے باعث تشویش ہے جس طرح مسلمانوں، کم ذات والے ہندؤں اور دوسری اقلیتوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے اُس پر تو اُس سے معاہدے کرنے کی بجائے دنیا کو اُس کا بائیکاٹ کرنا ہوگااور ساتھ ہی اُسے پڑوسیوں کو جینے کا حق بھی دینا ہوگا ورنہ شاید وقتی کامیابی تو ہو جائے لیکن دورس نتائج ہر گز حاصل نہیں ہو سکیں گے۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top