کار لو ٹا گال کے پاکستان پر بے بنیاد الزامات

نغمہ حبیب
carlottagal
پاکستان پچھلی کئی دہائیوں سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکارہے ایک فتنہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا سر اٹھا تا ہے، روس سے جان چھوٹتی ہے تو امریکہ و بال جان بن جاتا ہے، روس افغان جنگ ختم ہو تی ہے تو امریکہ افغان جنگ شروع ہو جاتی ہے ۔ جنگ افغانستان میں اور تباہی پاکستان میں، طالبان، بے شمار قسم کے لشکر کبھی لشکر جھنگوی، کبھی سپاہِ صحابہ، مذہب کے نام پر کبھی بی ایل اے جیسی تنظیمیں علاقائی سیاست کے نام پر، کبھی بھتہ خوروں کے روپ میں کبھی ٹارگٹ کلر کے روپ میں جو بھی ہے پاکستان کے دشمنوں کا ایجنڈا پورا کر رہا ہے۔ پاکستان کے عوام کو مار رہا ہے اس کی املاک کو نقصان پہنچا رہا ہے لیکن حیرت ہے کہ دنیا پھر بھی پاکستان پر الزام دھر ر ہی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو بنا رہا ہے یا اُن کی مدد کر رہا ہے ایسا ہی ایک مضمون کار لوٹا گال نے نیویارک ٹائمز میں لکھا جس میں اُس نے لکھا کہ پاکستان نے اپنے قبائلی علاقوں میں موجود غیر ملکی جنگجوؤں کو شام کی طرف بھیجا اور یوں ابوبکر بغداد ی کی اسلامی ریاست کی مدد کی اُس نے یہ الزام بھی لگایا کہ پاکستان افغانستان میں بدامنی کا ذمہ دار ہے۔ یہ مضمون عین اُسی دن شائع ہوا جس دن اسلام آباد میں طالبان اور امن و امان کے حوالے سے چار ملکی ملاقات ہو رہی تھی اِس میں پاکستان، افغانستان ، امریکہ اور چین کے نمائندے شریک ہوئے جس کا مقصد افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے روڈ میپ تیار کرنا تھا۔ اُس دن ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ دنیا کے امن کی خاطر ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوشش کی جاتی لیکن امریکہ کے ایک بہت بڑے اخبار جو دنیا کے حالات اور فیصلوں پربڑے پُر اثر طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے یعنی نیویارک ٹائمز جو یہودی لابی کا ایک بہت بڑا مہرہ ہے میں کارلوٹا گال کا مضمون شائع ہوا جس میں پاکستان پر جہادی تنظیموں اور دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کا الزام لگایا گیا اور یوں امن کی کوششوں کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کی گئی۔ کہنے کو تو ہر ملک اور ہر تنظیم کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ افغانستان کا امن نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے لیکن ساتھ ہی یہ وہ بدقسمت ملک ہے جہاں بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کی جنگیں لڑتی رہی ہیں اور اب بھی لڑ رہی ہیں اگر سنجیدگی اور خلوص سے یہاں امن بحال کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو یہاں لگی اور لگائی گئی آگ جو یورپ تک پہنچ تو چکی ہے وہاں بھی بھڑک کر پھیل جائے گی۔ ان چار فریقی مذاکرات میں چین بھی شامل تھا جس کے صوبہ سینکیانگ میں شدت پسند سرگرمیوں کے بارے میں اُسے بھی تشویش ہے ۔ امریکہ افغانستان میں اِن قوتوں سے جنگ لڑ رہا ہے وہ کیوں یہاں آیا اوراِس سے پہلے کیسے اُس نے اس خطے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا یہ سب سوالات اپنی جگہ لیکن اگر اب وہ دیگر متاثرین کے ساتھ آکر مذاکرات کی میز پر بیٹھا تو پھر اُس کے اخبارات کو بھی دنیا دکھا وے کے لیے ہی سہی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اور اُس کی حکومت کو بھی۔ پاکستان اور افغانستان تو براہ راست ان دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں اور پاکستان تو وہ ملک ہے جو اس جنگ میں فریق نہ ہونے کے باوجود اس سے سب سے زیادہ متا ثر ہے اور اس کی فوجیں مسلسل اِن دہشت گردوں سے برسرپیکار ہیں جب کہ ان کے نشانے پر مسلسل عام آبادی بھی ہے اور اب تک پچاس ہزار سے زائد پاکستانی ان کاروائیوں میں شہید ہو چکے ہیں اور اتنے ہی خاندان براہ راست اِس جنگ سے متاثر ہو چکے ہیں۔ پاکستان ملکی ترقی پر خرچ ہو نے والا پیسہ سیکیورٹی اقدامات پر خرچ کرنے پر مجبور ہے مختصراََ یہ کہ حکومت ،فوج اور عوام سب دہشت گردی کے خلاف لڑنے پر مجبور ہیں ایسے میں بھی اگر یہ الزام لگادیا جائے کہ پاکستان دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے تو اسے سوائے اس کے خلاف ایک اور سازش اور حربے کے کیا کہا جا سکتا ہے۔ کارلوٹا گال نے اپنے مضمون میں ہر طرح پاکستان کو ہی مور دالزام ٹھہرایا ہے اور اس کے مطابق پاکستان دنیا میں ہونے والی ہر دہشت گردی کا ذمہ دار ہے اُس کے مطابق آئی ایس آئی ایس کی تحریک کو تقویت بھی پاکستان دے رہا ہے اور جب پاکستان کو ایک زبردست آپریشن کے بعد ان شدت پسندوں کی ضرورت نہ رہی تو انہیں اس نے کوئٹہ کے راستے قطر اور وہاں سے شام پہنچا دیا ۔ گال نے اپنے مضمون سے کئی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اس نے اگر ایک طرف دہشت گردی کی عام جنگ کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی ہے تو شیعہ سنی تفریق کے لیے بھی پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھہرایا ہے اور آئی ایس آئی ایس کی حمایت کرنے کی یہی وجہ بتائی ہے کہ سنی خلافت قائم ہو جبکہ تیسری طرف اُس نے پاکستان میں پشتون اور بلوچ اور افغانستان میں پشتون اور دری فتنہ ابھارنے کی بھی کوشش کی ہے اگر چہ اُس نے یہ تمام الزامات پاکستان کے سر ڈا لے ہیں تاہم محسوس یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کا ایجنڈا پورا کررہی ہے تبھی تو پورے خطے میں اُسے دوسرا مجرم نظر نہیں آیا۔ اُس نے امریکہ کو مکمل طور پر بری الذمہ کردیا اور یہ بھول گئی کہ دہشت گردوں کی جن نرسر یوں کا ذکر اُس نے کیا ہے وہ اَ سّی کی دہائی میں امریکہ نے قائم کیں ان میں بنائے جانے والے مجاہدین کی مدد سے روس کو شکست دی اور دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا اعزاز حاصل کیا اُس نے آئی ایس آئی کو دنیا بھر میں جہاد عام کرنے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ اسلام کی نظر میں امریکہ اور دوسری غیر مسلم قوتوں کی مدد سے چلنے والی ان تمام تحریکوں کا جہاد سے کوئی تعلق نہیں ۔جہاد گناہ گار اور حملہ آور کے خلاف ہوتا ہے اور علی الاعلان حکومت کی طرف سے ہوتا ہے جہاد کرنے والی حکومتوں میں اس کے اعلان کا حوصلہ ہوتا ہے اس کو یوں چور چھپے نہیں کیا جاتا۔ اسلام جہاد میں بھی نہتے، بوڑھے، بچے اور عورت کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے منع کرتا ہے لیکن کارلوٹا جیسے لوگوں کی اخلاقی مدد اور میڈیا سپورٹ اور مغرب اور غیر اسلامی دنیا کی مالی مدد کے ساتھ دہشت گردی کرنے والے یہ لوگ ایسے تمام اخلاقیات سے پاک ہیں وہ ان اسلامی اصولوں کو نہ جانتے ہیں اور نہ ان کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ان کے پاس پہنچنے والا پیسہ اُن کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔ مغربی میڈیا کو پاکستان پر الزام لگانے سے پہلے دہشت گردی کی وجوہات ، اثرات اس سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں، ملکوں اور قوتوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے اور یہ تجزیہ بھی ضرور کر لینا چاہیے کہ سب سے زیادہ متا ثرکون ہے۔ پاکستان کے خلاف یہ ہر زہ سرائی کرنے کی وجوہات کچھ اور ہیں جن میں سر فہرست اس کی ایٹمی قوت ہے ۔مغرب اگر اپنے عزائم میں مثبت تبدیلی پیدا کرلے تو دنیا میں امن کی صورت پیدا بھی ہوسکتی ہے اور بہتر بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر وہ ایسا چاہے۔ اب جبکہ یہ آگ یورپ کے دامن تک پہنچ چکی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اُسے بھی کچھ تکلیف ہو اور اب وہ مالی اور تکنیکی معاونت روک لے اور دنیا کو اب بار پھر امن دیکھنا نصیب ہو جائے۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top