افغان جنرل کا دورہ پاکستان اور جلال آباد د ھماکے
نغمہ حبیب
پاکستان ملٹری اکیڈمی کی 132ویں پاسنگ آؤٹ پریڈکی خاص بات یہ تھی کہ اس کے مہمان خصوصی افغان چیف آف جنرل سٹاف شیر محمد کریمی تھے۔ پاکستان اور افغانستان دو ایسے ہمسایہ ممالک ہیں جو مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں دونوں ملکوں کی تاریخ ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور یہ تاریخی سلسلے آپس میں ایسے باہم پیوست ہیں کہ ان کو جدا کرناممکن ہی نہیں ۔ محمد غوری، محمود غزنوی، بابر اور بے شمار ایسے نام جو پاکستان اور افغانستان کا مشترکہ اثاثہ ہیں۔ لہٰذا افغان آرمی چیف کا پی ایم اے پاسنگ آؤٹ میں مہمان خصوصی ہونا یوں کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن وقت ، حالات اور دشمنوں کی سازشوں نے ان دونوں قوموں میں جو خلیج پیدا کی تھی اس کو پاٹنے کی طرف پہلا قدم ضرور تھا جو دونوں قوموں کے بہترین مفاد میں ہے لیکن دشمن کے مفاد کے با لکل خلاف ہے اور یہی وجہ ہے کہ عین اسی دن افغانستان کے شہر جلال آباد میں ایک بینک کے باہر خودکش دھماکہ کیا گیا جہاں سرکاری اہلکار اپنی تنخواہ وصول کرتے تھے جہاں33افراد ہلاک جبکہ سو سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ دشمن جو بھی ہے یقیناًمشترکہ ہے جو نہیں چاہتا کہ یہ دونوں ممالک نزدیک آسکیں اور افغانستان کے لیے اس کی اہمیت کم ہو اور محسوس یہی ہوتا ہے کہ اسی ضرورت کے پیش نظر بھارت اور ’’را‘‘ ایک دفعہ پھر مصروف عمل ہو گئے ہیں کیو نکہ کچھ عرصے سے یقیناًاسے اپنی اہمیت کی کمی کا احساس ہو رہا ہے کیونکہ طویل عرصے تک بھارت نواز کرزئی حکومت کے بعد جب صدر اشرف غنی کی حکومت آئی تو افغانستان نے پاکستان کے بارے میں مثبت طور پر سوچنا شروع کر دیا پھر سانحہ پشاور آرمی پبلک سکول نے پاکستان کے ساتھ افغان مسلمانوں کے دل بھی ہلا کر رکھ دیے اور دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف تعاون کا فیصلہ کیا گیا۔اس سال فروری میں چھ افغان کیڈٹ پاکستان کی ملٹری اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے پہنچے جو دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی بحالی کی ایک بڑی نشانی تھی جسے خود سابق افغان وزیر دفاع شاہنوازتنئی نے ایک خوش آئند فیصلہ کہا۔ اس سے پہلے 2003سے بھارت افغان فوجیوں کو تربیت فراہم کررہا تھا اور اب تک 1400 افغان کیڈٹس کی تربیت کر چکا ہے جب کہ تین سو اب بھی وہاں زیر تربیت ہیں اور یہ معاہدے بھارت کے تعلیم یافتہ اور بھارت نواز کرزئی کے دور حکومت میں ہوئے تھے۔ افغانستان اور بھارت کو اپنے معاملات میں یقیناًآزادی حاصل ہے لیکن ان کا مقصد صرف تربیت نہیں بلکہ ان زیر تربیت فوجی افسران کی پاکستان کے خلاف برین واشنگ بھی ہے ان کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف وہ نفرت بھردی جاتی ہے جسے وہ اپنی پیشہ ورانہ تکمیل کا ایک ضروری جزو سمجھتے ہیں۔ بھارت پاکستان کے خلاف صرف سرحد پر بر سر پیکار نہیں بلکہ وہ اپنے داؤ ہر طرف سے چل رہا ہے اور افغانستان میں اسے حامد کرزئی کی صورت میں ایک ایسا مہرہ مل گیا تھا جسے وہ بساط پر جس طرف چاہتا تھا چلا دیتا تھا۔2014 میں کرزئی نے اپنا طے شدہ دورۂ پاکستان منسوخ کردیا تھا اور اس کے لیے بہانہ بنایا گیا کہ پاکستان افغانستان کے شہر کنڑ میں افغان فوجی چوکی پر حملے میں ملوث ہے اس حملے میں اکیس افغان فوجی مارے گئے تھے اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی تھی لیکن کرزئی نے اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے دورہ پاکستان منسوخ کر دیا ۔ چال اب بھی وہی چلنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دونوں ملک اگر صلح صفائی اور برادرانہ تعلقات کی بحالی کے لیے کسی کوشش کا آغاز کررہے ہیں تو اسے ابتداء میں ہی سبوتاژ کردیا جائے اور افغانستان کو بھارت کا دست نگر ہی رکھا جائے۔ امریکہ کے افغانستان سے واپسی کے بعد افغان فوج کو خود ہی ہر قسم کے حالات اور دشمنوں کا سامنا کرنا ہے اور اس کے لیے اسے اپنی فوج کو پیشہ ورانہ طور پر تیار کرنا ہے اور شاید اسی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ افغان کیڈٹس کو پاکستان بھیجا گیا ہے اور خیر سگالی کے جذبات کے تحت ہی افغان چیف آف جنرل سٹاف کو پی ایم اے کی پاسنگ آوٹ پریڈ میں بطور مہمان خصوصی بلا یا گیا۔ امید اب بھی یہی کی جارہی ہے کہ یہ تعلقات آگے بڑھیں گے اور افغانستان اس ضرورت کو محسوس کرے گا کہ وہاں بھارت کی موجودگی کو کم سے کم سطح پر لایا جائے اور یہ کہ دوست دشمن کی پہچان کی جائے اوردونوں ملک اپنے مشترکہ دشمنوں کے خلاف باہمی اتفاق رائے اور اتفاق عمل سے کاروائی کریں گے۔ جلا ل آباد کے یکے بعد دیگرے دو دھماکوں سے طالبان نے جس طرح براء ت کا اظہار کیا ہے بلکہ اسے ظالمانہ قرار دیا ہے وہ کسی اور دشمن کی موجودگی کا پتہ دے رہا ہے ورنہ طالبان تو ان جرائم کو بھی قبول کر لیتے ہیں جن کا ان سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا تو پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے یہ جرم کیا ہے اگر چہ بظاہر ان دھماکوں کی ذمہ داری آئی ایس آئی ایس نے قبول کر لی ہے لیکن در پردہ انہیں جو تعاون حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں کیونکہ ان د ھماکوں کی آڑ میں پاک افغان تعلقات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور اسی لیے پاکستان کے ہر سفارتی مشن کو ہر سطح پر ان مسائل کو دنیا کے سامنے رکھنا ہوگا اور افغانستان کو بھی سارے مسائل کا حل پاکستان کے ساتھ مل کر نکالنا ہوگا نہ صرف خود کو دشمن سے بچانا ہوگا بلکہ دوست اور دشمن کی پہچان کرکے اسے کیفرکردار تک پہنچانا ہوگا تاکہ ا پنی آنے والی نسلوں کو بھی محفوظ بنایا جا سکے۔