جغرافیائی اور نظریاتی سرحدیں کرکٹ اور فن سے زیادہ مقدس
Posted date: October 29, 2015In: Articles|comment : 0
نغمہ حبیب
آخر بھارت کرکٹ بورڈ نے فیصلہ سنا دیا ’’ پاکستان اور بھارت میں کرکٹ سیریز کا امکان نہیں ہے‘‘ چاہیے تو یہ تھا کہ اعلان پاکستان کی طرف سے کیا جاتا لیکن معلوم نہیں کیوں پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھارت کے سامنے انتہائی فدویانہ رویہ اختیار کیا، بلکہ پورے ملک اور قوم کی عزت کی دھجیاں بھارت میں بکھیر آیا۔ بھارت کے ساتھ دوستی کے خواہاں اور مسلسل امن کی آشا کاراگ الا پنے والے پاکستانی اس رویے کی کوئی توجیہہ تلاش کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں لیکن حیرت ہے شہر یار خان کے اوپر کہ بھارت میں کرکٹ بورڈ کے ہاتھوں بے عزت ہونے کے باوجود بھارت کے ساتھ کرکٹ سیریز کے امکانات محسوس کر رہے تھے اور آج ان کی امیدوں پر بھارت نے پانی پھیر دیا۔ چاہے بھارتی بورڈ کے دل کی خواہش یہ خود ہو لیکن اُس نے سہارا لیا شیوسینا کا۔ شیوسینا پر ہی کیا موقوف بھارت سرکار تو خود بھی مودی کی سرکردگی میں ایک شدت پسند تنظیم محسوس ہوتی ہے۔ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ملک کہلانے والا بھارت یوں تو اقلیتوں کے لیے کبھی بھی ایک محفوظ اور ساز گار ملک نہیں رہا لیکن مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد تو یہ ان کے لیے ایک جہنم بن چکا ہے اور تقریباََ ایک ماہ سے تو جیسے پوری ریاستی مشنری اس مہم پر لگا دی گئی ہے کہ کسی طرح پاکستان تو خیر پاکستان خود بھارت کے اندر کے مسلمان اتنا زچ ہو جائیں کہ یا تو بھارت چھوڑ جائیں اور یا پاکستان ہمت حوصلہ کھودے اور بھارت کی جارحیت کا اُسی کی زبان میں بات کرکے جواب دے یوں حالات خراب ہوں اور پھر بھارت سب کچھ حسب معمول پاکستان کے حصے میں ڈال دے جیسے کہ وہ سرحدی خلاف ورزیوں اور دہشت گردی کے واقعات کے سلسلے میں کرتا ہے۔ بھارت نے کبھی نیک نیتی سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ پاکستان کی ایسی کوششوں کو سبوتا ژ کر دیتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے کھیلوں کی معراج بھارت سے کھیلنے میں ہی کیوں سمجھ رکھی ہے اور خاص کر کرکٹ کو زندہ رکھنے کے بہانے بھارت کی خوشامد کیوں کی جا رہی ہے کیا اس میں ذاتی مفادات بھی شامل ہیں یا شہرت حاصل کرنے کا ایک طریقہ کہ دنیا بھارت جیسے دشمن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر ہمارے بورڈ کو نوبل کا امن انعام دے گی ۔ امن کی خواہش اپنی جگہ درست ہے اور اچھی بھی ہے لیکن قومی حمیت بھی آخر کوئی چیز ہے یا نہیں اگر ہمارے محترم نجم سیٹھی اور شہریار خان اپنی ذاتی حیثیت میں بھارت جاتے تو بات اور ہوتی لیکن ایسا نہیں تھا جب کہ ان محترمین کافر مانا یہ تھا کہ انہیں بلایا گیا تھا اگر ایسا کیا گیا تھا تو کیا پھر شیوسینا کو پہلے سے تیار کر کے رکھا گیا تھا کہ وہ کرکٹ بورڈ پر حملہ کر کے حالات کو خراب کرے اور پاکستان سے بلائے گئے مہمانوں کی بے عزتی کرے۔ ایسا شیو سینا نے پہلی بار نہیں کیا اس تنظیم نے دسمبر 2003 میں آگرہ سپورٹس سٹیڈیم کی پچ کو صرف اس لیے خراب کیا کہ پاک بھارت میچ نہ ہو سکے پھر اس کے طلباء ونگ نے 2005 میں نئی دہلی میں ایک روزہ میچ کے موقع پر بھی احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ بھارت کو پاکستان سے کرکٹ نہیں کھیلنی چاہیے۔ یہ سب کچھ بھارت میں ہوتا رہا اور اب بھی ہو رہا ہے لیکن حیرت ہے کہ اس کے باوجود اسے کرکٹ کے لیے غیر محفوظ قرار نہیں دیا جا رہا یعنی پاکستان کے خلاف جو بھی کیا جائے وہ درست ہے چاہے وہ حکومتی سطح پر ہو یا سیاسی اور عوامی سطح پر بلکہ بھارت کی حکومت ایسے موقع پر اپنے شدت پسندوں کی مذمت بھی نہیں کرتی، اگر چہ یہ بھارت کا مستقل وطیرہ ہے تا ہم مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد ان لوگوں کو مزید شہہ ملی ہے اور اب یہ بلا کسی خوف اپنی تمام کاروائیاں کرتے ہیں بلکہ لگتا ہے اس کے بدلے سرکار سے داد و انعام حاصل کرتے ہیں ۔ ایک طرف بھارت یہ سب کرتا ہے اور دوسری طرف پاکستان میں موجود ایک مخصوص طبقہ مسلسل بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کھیل کو سیاست کا حصہ نہیں بنانا چاہیے لیکن کیا یہ رویہ مناسب ہے کہ قومی عزت کو داؤ پر لگا دیا جائے یعنی ایک طرف سے کوئی کوشش نہ ہو نہ صرف یہ کہ سرد مہری ہو بلکہ حوصلہ شکنی ہو لیکن دوسری طرف سے بے تابی۔سوال تو یہ ہے کہ بھارت کرکٹ بورڈ آخر کیسے شیوسینا کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے اور اپنے فیصلے اُس کی مرضی سے کرتا ہے۔ دوسری طرف ہمیں اپنے رویوں کا بھی محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہمارے کھلاڑی اس قدر شوق سے کیسے بھارتی سُپر لیگ کے لیے بِک جاتے ہیں کیا صرف پیسہ ہی سب کچھ ہے یا عزت بھی مقدم ہے۔ اسی طرح ہمارے اداکاروں کو بھی بھارت سے اداکاری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کی بے تابی رہتی ہے اور کبھی راحت علی خان اور کبھی امانت علی خان اپنے بھارتی دوستوں کے ہاتھوں بے عزتی کا اعزاز حاصل کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہر بار دہلی اور بمبئی میں اپنے فن کے مظاہرے کا فخر حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور بے تُکی تو جیہہ یہ کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اس بار تو حد ہوگئی جب سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی میزبانی کرنے والوں کے منہ پر سیا ہی پھینکی گئی۔ دراصل بھارت کو اپنی خصلت کے مطابق دوسروں کی عزت نہ کرکے سکون ملتا ہے اور پاکستان کے معاملے میں تو وہ اسے کار ثواب سمجھ کر کرتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اب اگر بھارت اس سیریز کی پیشکش بھی کرے تو اسے کھیلنے سے احتراز کرنا چاہیے اور بھارت کو مجبور کرنا چاہیے کہ جو سلوک پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ ان کی سرکاری حیثیت میں کیا گیا اُس پر پاکستان سے باضابطہ معذرت کی جائے بلکہ اس رویے کے لیے اُسے جرمانہ بھی ادا کرنے کو کہا جائے اور اُسے بھی بین الاقوامی طور پر کرکٹ کے لیے خطرناک قرار دیا جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی بورڈ سے حکومت سخت پوچھ گچھ کرے کہ آخر اس نے یہ کیوں سمجھ لیا ہے کہ اگر وہ بھارت کے ساتھ نہ کھیلے گا تو پاکستان سے کرکٹ کا وجود ختم ہو جائے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ جتنی محنت وہ بھارت پر کر تا ہے اگر دوسرے ممالک پر کرتا تو یقیناًکچھ نہ کچھ حاصل کر لیتا۔ بہر حال حکومت کو پی سی بی کی حرکات کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔ پڑوسی سے دوستی کی خواہش کو قومی وقار پر ہر گز حاوی نہ ہونے دیا جائے ورنہ قوم اس کھیل اور اس سے وابستہ چند خود غرض ناموں کو جب عزت دینا چھوڑ دے گی تو یقیناًیہ اس کھیل کے لیے بڑا نہیں نا قابل تلافی نقصان ہوگا۔