Posted date: April 07, 2015In: Articles|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
7 ؍ اپریل ایک ایسا ’یوم سانحہ پاکستانیوں کی یاد داشت اگر کمزور نہیں اور وہ اپنے محب و جانثار تحفظ ونگہداری کے آئینی فرض سے ہمہ وقت آشنا بہادر و جراّت مند شناروں کے فرائضِ منصبی کے دوران اُن پر کوئی آسمانی مصیبت وابتلا ء کی خوفناک آفت اچانک آگرے تو قوم اُن دنوں اور اُن لمحات کو کیسے فراموش کر سکتی ہے اور کچھ نہیں تو قوم اُن شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے سے کیسے کیونکر پس وپیش کر سکتی ہے پاکستانی قوم سے کوئی بھی یہ توقع نہیں کرسکتا ایسی ہی اقوام کے محب وجانثار تحفظ ونگہداری کے آئینی شناور وں کے سینے فخرو انبساط سے اُس وقت اور زیادہ پھیل جاتے ہیں اور زیادہ تن جاتے ہیں اُن کی کشادہ پیشانیاں حبِ الوطنی کے جذبات سے اور زیادہ روشن و تابناک ہوجاتی ہیں اُن کا یقین اور پختہ اور مستحکم ہوجاتا ہے کہ اُن کی بیدار قوم اُنہیں کبھی بھولے گی نہیں ہر دم ہر آن کے اُن کے دوش بدوش رہے گی، آج سے 3 برس قبل 7 ؍ اپریل 2012 کی اُس درمیانی شب کے اُن لمحات کو پاکستانی قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی یقیناًوہ کیسی قیامت خیز اور ا لمناک شب تھی جس قیامت خیز شب کی طلوع ہونے والی صبح قوم نے دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ سیاچن کے گیاری سیکٹر کے برف پوش پہاڑی ٹیلے کے دامن میں قائم 6این ایل آئی پلاٹون ہیڈ کوارٹر پر آسمانی آفت آگرنے کی دلدوز خبرسنی اندوہناک مصیبت و ابتلا ء کی یہ ایک ایسی غم زدہ رنجیدہ و اعصاب شکن خبر تھی جس نے ملکی افواج کے ساتھ ساتھ قوم کے ہر ذی شعور محبِ وطن کو یکدم بے حد سوگوار کردیا تھا آج سے تین سال قبل 6 اور7 اپریل کو سیاچن کے گیاری سیکٹر میں 6 این ایل آئی پلاٹون کا ہیڈ کوارٹر رات کے تقر یباً 2 بجے خوفناک طوفانی برف کے بادوباراں کے نتیجے میں پہاڑ نما ایک گلیشئیر کے گرنے کا شکار ہوگیا100 سے 150 فٹ گلیشئرکا برفانی تودہ اچانک ہیڈ کوارٹر پر آن گرا ،پوری پلاٹوں کے جوان اور افسر اِس برفانی گلیشئر کے نیچے د ب گئے تھے پوری قوم انتہائی مغموم اور فکرمند سوچتی رہی انتہائی دِل گرفتہ اور تحیر واستعجاب میں مبتلا رہی، مختلف سوالات ‘ مختلف نکتہ ِٗ نظر ‘مختلف زاویوں سے اپنے تجزیاتی تبصروں کے ساتھ کل بھی اُٹھے اور آج تک اُٹھ رہے ہیں آخر 1984 سے آج تک گزشتہ31برسوں سے سیاچن جیسے دنیا کے بلند ترین گلیشئرز والے دشوار گزار علاقہ میں پاکستانی فوج کیوں موجود ہے دوسری جانب پاکستانی فوجی جوانوں اور افسروں سے کئی گناہ زیادہ ‘ موسم کی خوفناک ‘ ہولناکیوں اور ہیبت ناک شدتوں کے حامل اِس علاقے میں جہاں عام حالات میں سانس تک لینا ناممکن ہے، وہاں تقریباً تین دہائیوں سے بھارت فوج نے نگرانی کی فوجی چوکیاں آخر کیو ں قائم کی ہوئی ہیں 7 ؍ اپریل 2012 کے اس انتہائی افسوسناک واقعہ نے دنیا کے ساتھ قوم کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ آج تک میڈیا خاص طور پر ’ملکی‘ میڈیانے سیاچن کے تنازعہ کی شدت کو محسوس کیوں نہیں کیا؟ بھارت کوسیاچن پر پاکستانی چوکیوں پر قبضہ کرنے کی اِتنی بڑی اور اہم غلطی کا احساس دلانا میں ہر دور کی جمہوری یا فوجی حکومتوں نے کیا رول ادا کیا؟ عالمی سطح پر سیاچن کے ایشو پر ’عالمی لابیز ‘ میں کتنی کوششیں بروئےِ کار لائی گئیں ،ہاں ! بھارت کو ’فیورٹ نیشن ‘ کا درجہ دیا جائے ‘ بھارت کے ساتھ تجارتی وثقافتی روابطے میں بے لگام تیزی لانے بڑی باتیں اور توجیہات ہیں اِن کے پاس ‘ اگر بات نہیں کی جارہی تو وہ کشمیر سمیت پاکستانی دریاؤں کے پانی کو روکنے سرکریک اور سیاچن کے سرحدی تنازعوں کے اہم اور حساس معاملے پر بات کرنے سے جان بوجھ کر پہلوتہی کی جارہی ہے، کون قوم کو بتائے گا کہ 6 این ایل آئی ہیڈ کوارٹر کے تمام کے تمام اہلکار جن میں فوجی جوانوں اور ہائی رینک افسروں کے علاوہ سویلین ٹھیکیدار سب کے سب شہید ہوگئے تھے برفانی طوفان کے اِس تبا ہ کن گلیشئیر کی تیز رفتار پھسلن میں 6 این ایل آئی کا پورا ہیڈ کوارٹر سینکڑوں گز نجانے کہاں کہاں تک برفانی تہوں میں گم ہو چکا تھا پاکستانی قوم اورِ پاکستانی فوج کے لئے یہ گھڑی قیامت کی گھڑی ثابت ہوئی سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پر ویز کیانی سمیت عسکری قیادت پلک جھپکتے ہی سیاچن میں جائے وقوعہ پر پہنچ گئی دنیا بھر کے انصاف پسند میڈیا چیخ پڑے غیر جانبدار انسانی حقوق کے عالمی ار اکین یکدم یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آسمانی آفات کا اچانک رونما ہونا جانا اپنی جگہ ! مگر جہاں کوئی پرندہ پَر نہیں مارسکتا ‘ کوئی جانور نہیں پہنچ سکتا تاحد نگاہ جہاں آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی برف پوش چوٹیوں کی وادیوں کی ایک نہ ختم ہونے والی دنیا ہے دنیا بھر کا سکوت جہاں ہمہ وقت چھایا ہوا رہتا ہے اگر وہاں آوازیں ہیں تو صرف برفانی ہواؤں کی تند وتیز تھپیڑوں کی ہولناک آوازوں کے علاوہ اور کوئی آواز نہیں وہاں پاکستان اور بھارت کے مابین ایسی کونسی چپقلش ہے کہ وہاں گز شتہ1984 سے اب تک دونوں ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے گنیں تانے موجود ہیں، ملکی اور عالمی میڈیا آخر کیوں اِس انسانی مسئلہ پر اپنی موثر آواز نہیں اُٹھا تا، آج 7 اپریل ہے پاکستانی فوج نے اِس آسمانی آفت کا جس دلیرانہ مردانگی سے مقابلہ کیا وہ انسانی عقل کو حیران و ششدر کردینے والی حیرت انگیز تاریخ کا ایسا عنوان ہے جس کی نظیر ماضی کی عسکری تاریخ تاحال کہیں نہیں ملتی اُن لمحات میں سابق آرمی چیف نے بعینہٰ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف جیسا طرزِ عمل اختیار کیا جیسا آجکل ہماری افواج کے سربراہ اور جوانوں نے ملک بھر میں پھیلتی ہوئی دہشت گردی کے عفریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اپنا یا ہوا ہے کہ آخری دہشت گرد کو جہنم رسید کیئے بغیر پاکستان کے اندر سر حدوں تک پھیلی ہوئی یہ جنگ ختم نہیں ہوگئی اُس وقت بھی سابق آرمی چیف نے ایسا ہی کچھ کہا تھا کہ ہنگامی اور فوری طور پر شروع کی جانے کی امدادی کارروائیاں آخری فوجی اور سویلین ٹھیکیداروں کی تلاش تک پہلے دن کی طرح سے زور شور سے جاری رہیں گی پاکستانی فوج نے یہ عظیم المثال تاریخی کارنامہ من وعن پورا کر دکھایا سانحہ گیاری سیکٹر کے شہداء کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اہلِ وطن پُر امیّد ہیں کہ افواجِ پاکستان کے بہادر ‘ بے خوف اور دِلیرجوانوں نے جیسے کل ثابت کیا تھا کہ وہ میدانوں ‘ صحراؤں ‘ سمندروں اور فضاؤں میں ہمیشہ تازہ دم ‘ اپنے مقصد کی لگن میں مگن بے مثال جراّت کا مظاہرہ کرنے کی اپنی دِیرینہ عسکری روایا ت پر کاربند تھے ‘ اتحاد‘یقین اور تنظیم ‘ کے سنہری اُصولوں پر کار بند اُن کے سامنے سیاچن کے گیاری سیکٹر میں آنے والی تباہ کن آفات کامقابلہ ہو یا دشمنوں کے جارحانہ عزائم ‘ اندرونی دہشت گردوں کی بیخ کنی کی کوئی حتمی کارروائی ہو پاکستانی فوج کے جوانوں اور افسروں نے دنیا کو بتا دیا کہ ہماری سرزمین کی جانب اُٹھنے والے ہر ناپاک قدم کا نصیب پسپائی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا دنیا بھر کے ذرائعِ ابلاغ نے یہ مناظر گیاری سیکٹر میں جاری امدادی کارروائیاں دیکھی ہیں افواجِ پاکستان کے جوانوں اور افسرون کے دِ لیرانہ جذبوں کو وہ خراجِ تحسین پیش کیئے بغیر نہ رہ سکے کون نہیں جانتا کہ پاک فوج کے جوانوں نے ہمیشہ اور ہر عہد میں نئی تاریخ رقم کی ہے۔