Posted date: March 01, 2015In: Articles|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی پہلی بار بطور افغان قائد کے دنیا کے سامنے آئے تو بہت سے لوگوں نے یہ سوال اْٹھایا کہ \’یہ شخصیت ماضی میں کبھی بحیثیت سیاسی طور پر افغان جپاد کے حوالے سے اپنی کوئی شناخت نہیں رکھتی جہاں تک عالمی اقتصادیات کے میدان میں اِن کی پیشہ ورانہ نمایاں خدمات کاتعلق ہے اْس سے واقعی انکار بھی نہیں کیا جاسکتا مگربطور ایک سیاسی قائد‘ ایک ایسے طویل عرصہ تک جنگ زدہ ماحول میں الجھے ہوئے پیچیدہ ملک کے صدر کے لئے اِن کا میدان میں اترنا، اِن کے لئے ایک امتحان ضرور ہوگا یہ اِن کی اپنی کوئی خواہش تھی؟ یا اِنہیں امریکا نے افغانستان کی قیادت کے لئے آمادہ کیا ہے کہ وہ طویل عرصہ تک کی انتہائی پیچیدہ اندرونی و بیرونی جنگی کشمکش میں مبتلا ملک کی قیادت کرنے کا خطرناک ’ٹاسک‘ مول لیں جس میں ہوسکتا ہے کہ وہ کامیاب ہوجائیں یقیناًاِس بات پر ڈاکٹر اشرف غنی نے بہت ہی زیادہ غور وخوض کیا ہوگا ؟اس کے علاوہ ممکن ہے اْنہیں کچھ ایسی موثرسیاسی مددو اعانت کی پیشکشیں بھی ضرور کی گئی ہونگی جن کے تحفظات کا اْنہوں نے اظہار کیا ہو؟جہاں تک ڈاکٹر اشرف غنی کی ذاتی بے داغ اور صاف وشفاف زندگی کے ساتھ کی اُن کی قابلیتوں اور ذہانتوں پر مبنی شخصیت کاتعلق ہے تو اِس حوالے سے کوئی اْن کی طرف بددیانتی یا بد نیتی کی آلودہ انگلی تاحال نہیں اْٹھا سکا اگر جناب اشرف غنی نے طے کرلیا ہے کہ وہ اپنے مادرِ وطن کو تباہی وبربادی کی دلدل میں گرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے‘ اپنے آباواجداد کی قابلِ فخر سرزمین بلکہ قابلِ ستائش شانداراور افتخار آفریں تاریخ کے وطن کو وہ ’رولنگ اسٹون‘ ایک بیکار پتھر کی مانند نہیں دیکھ سکتے اْن کے ذہن میں یقیناًکوئی نہ کوئی تعمیری خاکہ ضرور ہو گا یہی سوچ کر اُنہوں نے فیصلہ کیا ہوگا کہ بس اب بہت ہوگیا ؟9/11 سے2015 تک مسلسل جنگ کی تباہی و بربادی سے گزرتے ہوئے آج افغانستان کو14 برس ہوچکے ہیں امریکیوں نے افغانستان پر صرف ایک شخص ’بن لادن‘ کو طلب کرنے کے نام پر لادی گئی اِس بے جواز جنگ میں کئی لاکھ خاندان، جن کے ہزاروں مرد وخواتین او ر معصوم بچوں کوہلاک کیا گیا کئی لاکھ زخمی ہوئے امریکا نے9/11 سے قبل دنیا بھر سے افغانستان میں جمع ہونے والے مفرور اور خطرناک جرائم میں ملو ث جنگجو ڈاکوؤں کو ’ہیرو ؤں‘ کے القابات سے نوازا تھا جنہوں نے اپنے سے کمزوروں پر اپنی طاقت و ہیبت کے زور پر اپنی وحشت وبربریت کے ذریعے سے اپنی خطرناک Criminology پر مائل طبیعتوں کے اندرونی شیطان کے اظہار کو بروئےِ کار لانے کے لئے افغانستان سے روسی فوج کے نکل جانے کے بعد یہ سمجھا افغانستان کی سرزمین ہی وہ بہترین مقام ہے جس کی اُنہیں تلاش تھی؟ یوں اُنہوں نے افغانستان کو زمین پر ’دوزخ‘ بنا د یا، آج روس کی طرح امریکا بھی ہار گیا، کل برطانیہ نے بھی یہاں اپنی ہار تسلیم کی تھی آج ہاتھ جھاڑ کر بے مراد امریکا واپس جا رہا ہے پوری طرح سے اگر نہیں گیا تو کل چلا جائے گا؟ بات ہورہی تھی امریکیوں کے
افغانستان سے جانے کے بعد وہاں کیا بحیثیتِ افغان حاکم ڈاکٹر اشرف غنی غیر ملکی مداخلت کاروں کے لئے ’سہولت کار ‘ بنیں گے یا بلا استثناٰ غیر ملکی مسلح جنگجوؤں کو جتھوں کو کچرے کے تھلیوں کی مانند اُٹھاکر اپنی سرحد کے پار پھینک پھنکیں گے افغانستان اور پاکستان کی مغربی سرحدیں بڑی طویل آپس میں ملی جلی ہیں، لہذاء ضروری ہے کہ ماضی کی طرح پاکستان اور افغانستان چونکہ ایک جیسی ملی وثقافتی تہذیب رکھتے ہیں دونوں ملکوں کی سرحدیں بھائیوں کے گھروں کی طرح آپس میں ایک دوسرے سے گڈ مڈ ہیں پاکستان اور افغانستان کی باہمی دوستی کی تاریخ میں ہمیشہ زہر گھولنے والے باہر سے ہی نمودار ہوئے، ورنہ پاک افغان برادری سسٹم صدیوں پر محیط چلاآرہا ہے فوجیں چاہے روس کی ہوں یا امریکا اور نیٹو کی وہ ایک طرف ہوچکیں، اب وہ مفرور ‘ خطرناک جرائم میں ملوث اپنے سے کمزوروں پر، اپنی ہیبت اور وحشت وبربریت کے ذریعے سے اپنی خطرناک Criminology پر ڈھلی ہوئی طبیعتوں کے اندرونی شیطانی خصلت کے اظہار کو شیطانی انداز سے بروئےِ کار لانے کی بہیمانہ عادتوں پر بضد عسکریت پسندیقیناًجو نہ افغانستان کو منظور نہ پاکستان کو ‘ وہ جب چاہتے ہیں افغانستان کے کسی شہر میں بم پھاڑ دیتے ہیں، وہاں انسانی خون کی لہولی کھیلنے سے جب
اُن کی شیطانی طبیعت بھر جاتی ہے تو وہ مغربی سرحد کراس کرکے پاکستان میں گھس آتے ہیں، یہاں پشاور سے کراچی تک جہاں اُن کا جی چاہتا ہے وہ ہنستے کھیلتے انسانوں کے چیتھڑے اُڑا دیتے ہیں افغانستان او ر پاکستان دونوں برادر ملک شیطانیCriminology پر مائل بضد اِن دہشت گردوں سے اپنے اپنے ملکوں کو بچانے اور اپنی اپنی قوم اور اُن کی نسلوں کے تحفظ کے لئے حال ہی میں نئے سرے سے اب ایک عہد کرچکے ہیں ‘ افغانستان میں حکمران تبدیل ہوئے یہاں پاکستان میں بھی بڑی اعلیٰ سطحی تبدلیاں واقع ہوچکی ہیں ‘افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد جنرل راحیل شریف کاا فغانستان کا دورہ ایسے وقت میں ہو ا جب امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی طرف سے کانگریس کے لیے ہر چھ ماہ بعد جاری کی جانے والی ایک مبینہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ’پاکستان پراکسی فورسز یا بالواسطہ لڑنے والی طاقتوں کا استعمال افغانستان میں اپنے گھٹتے ہوئے اثر رسوخ کی وجہ سے اور بھارت کی’ برتر‘ فوجی طاقت کے خلاف حکمتِ عملی کے طور پر کر رہا ہے؟ ‘ یہ یاد دلا نا بھی بے حد ضروری ہے کہ انتہائی لغو اور بے بنیاد رپورٹ پینٹگان نے حال میں مزید جاری کی جس میں پاکستان پر ایک بار پھر جھوٹا و لغو الزام عائد کیا گیا کہ سرحد کے اندر چھپے طالبان اب بھی افغانستان پر حملے کر رہے ہیں اِس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا نہیں چاہتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی بداعتمادیاں ختم ہوں، شروع دن سے اُس کی ایسی ہی مشکوک سرگرمیاں رہیں سابق افغان حکمران کرزئی اُن کا کٹھ پتلی بنا رہا یوں یہ علاقہ اب تک انسانیت کی تذلیل کے لئے دنیا بھر میں بدنام ہوا ’’ آپریش ضرب عضب‘‘ نے دنیا کو یہ باور کرادیا ہے کہ ’اچھے یا بُرے طالبان ‘ کی کوئی اصطلاح پاکستان کو منظور نہیں ہے ‘ جو پاکستانی آئین کا سرکش ہے وہ پاکستانی فوج کے نزدیک قابلِ گردن زنی سمجھا جائے گا آپریش ضرب عضب شروع ہونے کے بعد جنرل راحیل شریف نے دو مرتبہ افغانستان کا دورہ کیا اِس دوران اُنہوں نے انٹیلی جینس رابطے اور باہمی تعاون پر کابل کے صدارتی محل میں صدر اشرف غنی کے ساتھ ہونے والی اہم ملاقات اُنہیں سرحدی صورتحال بتائی جنرل راحیل شریف کے ساتھ آئی ایس آئی چیف جنرل راضوان اختر بھی افغانسان گئے اُنہوں نے بھی افغان صدر اور اعلیٰ ا فغان حکام کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ کابل حکومت پاکستانی فوج کی طرف سے شروع کیئے گئے آ پریشن ضربِ عضب میں اُس کی کوئی عملاً مدد نہیں کر ر ہی ، جبکہ افغان حکومت پر ایک طاقتور غیر ملکی ’ موثر لابی‘ پاکستا ن کو مطلوب افراد کو پیشگی اطلا ع دیئے بغیر آئے روز اُنہیں نئے مقامات پر منتقل کر تی رہتی ہے، آجکل غیر ملکی موثر لابی نے خوست کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے مرکز بنا یا ہواہے جہا ں ملا فضل اللہ سمیت اُس کے ڈیڑھ سو کے قریب مسلح مفرور ملزمان کو قیام و وطعام کے علاوہ مکمل مالی مدد فراہم کی جارہی ہے اِس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین کھلے عام استعمال ہورہی ہے سوال یہ ہے کہ افغانستان میں یہ طاقتور موثر عناصر کون ہیں؟ جب تک ملا فضل اللہ سمیت اُس کے ڈیڑ ھ سو ہتھیار بند دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچا دیا جاتا اُس وقت تک پاک افغان سرحد پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔