سیّد ناصررضا کاظمی
دوسروں کو اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار ٹھہرانے سے اور کچھ نہیں ہوتا مگر اپنے ہی اردگردمایوسی اور نفرت کا ماحول خود بخود پیدا ہوجاتا ہے اگر اپنے آپ کو اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار مان لیا جائے تو پھر کامیابی وکامرانی کی جانب سفر سمجھئے یوں عملاً بات پتھر پر لکھی ہوئی تحریر ثابت ہوجاتی ہے کہ آپ نے اپنی مصیبتوں کے ازالہ کا راز پالیا ہے اگر ہم اِس بیانیہ صورتحال میں کل کے افغانستان کو دیکھیں جب وہاں حامد کرزئی کی شکل میں غالباًسات آٹھ سال تک ایک ایسی حکومت رہی جو سر تاپا کرپشن میں لتھڑی رہی مگر اُس سابقہ کرزئی حکومت نے اپنی آستینیوں میں چھپے ہوئے سانپوں کا سرکچلنے کی بجائے اُن کی خوب حوصلہ افزائی کی جنہوں نے نہ صرف افغانستان کے اندر بلکہ افغان سرحدوں کے پار پڑوسی ملکوں میں بھی دہشت گردی کے بیج بوئے بلکہ خوب دل کھول کر انسانیت کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی سابقہ کرزئی حکومت اور اُن کے حالی موالیوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے امریکی ڈالرز سمیٹنے شروع کردئیے نجانے کیوں امریکا نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے اپنی آنکھیں موند رکھی تھیں اب افغانستان میں صدر اشرف غنی کی صورت میں افغانستان اور افغان عوام کے لئے کچھ کرگزرنے کا عزم لیکر نئی عوام دوست حکومت برسر اقتدار ہے گز شتہ دنوں صدر اشرف غنی نے صدارت کا عہد سنبھالنے کے بعد پہلی بار بھارت کا دورہ کیا صدر غنی نے کمال سفارت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پیش رو حامد کرزئی کی دوغلی سفارت کاری کی راہ نہیں اپنائی افغانستان کا صدر بنتے ہی اُنہوں نے پہلے اپنے پڑوسی ملکوں پاکستان ‘ ایران اور چین کا دورہ کرنا ضروری سمجھا اپنے براہِ راست پڑوسی ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو اعتماد بخشنے اور اُنہیں کسی قسم کی بدگمانیوں کی نظروں سے بچانے کے لئے خصوصی توجہ دی گزشتہ دنوں جب وہ بھارت گئے تو اِس سے قبل ہی صدر اشرف غنی اپنے تینوں پڑوسی ملکوں کا دورہ کرچکے تھے اُنہیں اپنے اعتماد میں لے چکے تھے یہ ہی نہیں بلکہ ایران ‘ پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کو یہ یقین دلا چکے تھے کہ افغانستان کی سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی یعنی دوسرے لفظوں میں یہ سمجھ لیا جائے کہ سابقہ کرزئی ادوار میں خصوصاً افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف جو دہشت گرد عناصر برآمد ہوتے ہیں اب حکومتِ افغانستان اُن کے گرد اپنا گھیر ا تنگ کرئے گی عالمی سفارتی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ نئی افغان حکومت کے سربراہ نے نئی دہلی جانے سے قبل اسلام آباد اور بیجنگ کا دورہ کرکے اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی کی سمت واضح کردی ہے جبکہ یہ اہم نکتہ حامد کرزئی کی سمجھ نہیں سمایا جو لگ بھگ ہر سال بھارت ’یاتراُ ضرور کیا کرتے تھے، ادھر افغانستان میں نئی حکومت قائم ہوئی ،ادھر بھارت میں اقتدار کی باگ ڈور نریندرمودی جیسے شخص کے ہاتھوں میں آگئی ،مودی سوچ رہا ہو گا ’ہائے کرزئی میں آیا تو تو چلا گیا ،کیا کیا ارمان دل کے دلوں میں رہ گئے ‘ واقعی مودی بالکل صحیح سوچ رہا ہے، ہمارے ایک طرف مغربی سرحدوں کے پار کرزئی ہوتا اِدھر مشرقی سرحدوں کے پار مودی کے ہاتھوں میں بندر کی رسی اور ڈگڈگی ہوتی جنوبی ایشیا کا امن وامان اب تک داؤ پر لگ چکا ہوتا یہ خدا کے کرشمے ہیں جو اپنی بہترین تخلیق ’انسان ‘ کے تحفظ کے لئے مسلسل انجام دیتا رہتا ہے بھارت نے مسلسل بھارت نوازی کے انعام کے لئے کرزئی حکومت کو صرف 2؍ارب ڈالر دئیے تھے جن میں سے وہاں پر کچھ رقم سڑکوں کی تعمیر پر لگی ہوئی اور چندایک پل بنے ہونگے اور باقی رقم حامد کرزئی کا بھائی احمد کرزئی لے کر فرار ہوچکا ہوگا ہماری اِس تمام بحث کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہی کیا بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں بھارت سے افغان فوج کو ہتھیار اور جنگی تربیت دینے کی بار بار درخواستوں پر بھارت کی سست پیش رفت نے افغان حکومت اب نئی دہلی سے بالکل مایوس ہوچکی ہے اب وہ عملاً حقیقتاً مد د کے لیے اپنے پڑوسی ملکوں خصوصاً پاکستان کی طرف پوری یکسوئی کے ساتھ نظریں جما ئے ہوئے ہے باوثوق عالمی ذرائعِ ابلاغ نے چند ہفتے قبل یہ رپورٹ دی ہے کہ صدر غنی کے دورے سے ایک ہفتے قبل بھارت نے کابل کو وہ تین فوجی ہیلی کاپٹر دے دیے ہیں جو گزشتہ سال فراہم کیے جانے تھے لیکن بھارتی حکومت نے افغان حکومت کی جانب سے دی جانے والی ٹینکوں اور دیگر بھارتی اسلحے کی فہرست تاحال منظور نہیں کی ہے جو افغانستان بھارت سے لینا چاہتا ہے معتبر اطلاعات یہ ہیں کہ صدر اشرف غنی کی حکومت نے بھارت کی جانب سے کوئی واضح جواب نہ ملنے کے باعث اب ہتھیاروں کی فراہمی کی ا پنی درخواست پر اصرار ترک کردیا ہے ایسی انتہائی بدگمانی اور بے اعتمادی کے باوجود نریندر مودی کی ہٹ دھرمی کا انداز تو لگائیے جسے آجکل گودر پورٹ تک چین کی رسائی نے شدید بخار میں مبتلا کردیا ہے گوادر پورٹ کی ترقی اب بھارت سے ہضم کرنا بہت مشکل ہوگئی ہے، پاکستان چین اقتصادی راہداری کی راہ میں عملاً روڑے اٹکانے کے لئے حکمران جماعت بی جے پی اپنی گائیڈ لانر آر ایس ایس کے اشارے پر پاکستان سے دشمنی کرنے کے پھر سے سرگرم اور پر جوش دکھائی دیتی ہے اِس کا ثبوت دیتے ہوئے بھارت نے افغانستان کو گوادر کی بجائے ایرانی بندر گاہ’ چاہ بہار ‘کا راستہ دکھادیا ہے، چاہ بہار پورٹ کو گوادر کے مقابلے میں گہرے پانیوں کی بندر گاہ بنانے کے لئے اب بھارت نے افغانستان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے تمام مالی وسائل خرچ کرنے کا باضابطہ پابند رہے گا28 ؍ اپریل گزشتہ منگل کو افغانستان کے صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کی ملاقات ہوئی جس میں افغان صدر نے کہا کچھ جس کا جواب مودی نے نہیں دیا افغان صدر نے کہا تھا کہ انتہا پسندوں کو شکست دینے کے لئے افغانستان کو علاقائی تعاؤن ناگزیر ضرورت ہے ہم افغانستان کو دہشت گردوں کا قبرستا ن بنانا چاہتے ہیں اِ س سلسلے میں ہمیں پاکستان ‘ بھارت اور دیگر ہمسایہ ممالک کی ضرورت ہے اُنہوں نے کہا کہ دہشت گرد بُرے یا اچھے نہیں ہوتے بلکہ سب دہشت گرد بُرے ہوتے ہیں اِن میں تمیز نہیں کی جاسکتی ہمیں دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے اب ایک متفقہ علاقائی سوچ اپنانی ہوگی افغان صدر نے کہا افغانستان جغرافیائی لحاظ سے ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے جہاں جنوبی ایشیا ،وسط ایشیا اور مغربی ایشیا آکر ملتے ہیں ہم اِن تینوں خطوں کے لئے مستحکم مرکزی راہداری بن سکتے ہیں جس سے ہماری معیشت مستحکم ہوگئی ہم چاہتے ہیں وسطی اور جنوبی ایشیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اِن خطوں کو پائپ لائنوں کے ذریعے جوڑدیا جائے جو کابل سے ہوکر گزرے ہم فضائی رابطوں میں بھی اضافہ چاہتے ہیں مطلب یہ کہ افغان صدر نے بھارتیوں پر واضح کردیا کہ اُنہیں خطہ میں حقیقی امن چاہیئے تاکہ کوئی بیرونی ملک اپنی ’جاگیر ‘ نہ سمجھے یعنی اب بھارت کا مشاورتی رول افغانستان میں نہیں رہے گا یہ بہت بڑی کامیابی ہے افغانستان اور افغانی عوام کی ۔