سیّد ناصررضا کاظمی
اقوامِ متحدہ کے ادارے ’یونیسکو‘ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر1993 کو ہر سال3 ؍ مئی کو ’یوم آزادی صحافت ‘ کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا دنیا بھر میں عالمی ادارے کے اِس اعلان کی روشنی ہر سال ’یوم آزادی صحافت ‘ کا یہ دن اِس عزم ویقین کے اعادے سے منایا جاتا ہے کہ اظہاررائےِ کی آزادی کا یہ ’عالمی دن‘ دنیا کے ہر فرد کو یہ حق تفویض کرتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے اپنی آواز بلند کرئے ایسا کرتے ہوئے دنیا کے ہر فرد کو یہ بنیادی حق بھی پہنچتا ہے وہ کسی غیر کا یا اپنی ہی قوم کے غاصب ‘ طاقت ور منہ زوروں کا پابند نہ ہو ‘ہر لحاظ سے آزاد ہو اصل میں’ عالمی یومِ آزادی ِٗ صحافت‘ کا براہِ راست تعلق ذرائعِ ابلاغ کے سبھی میڈیم سے ہوتا ہے‘ چونکہ اخبارات ‘ ریڈیو اور ٹی وی چینلز اپنے اپنے ملکوں کے عوام کی ترجمانی کا اہم فریضہ انجام دیتے ہیں، اُنہیں خبروں کے حصول کے لئے بعض اوقات بڑے دشوار مرحلوں سے گزرنا پڑ جاتا ہے، اِن دشوار مرحلوں میں کئی بار ایسے افسوسناک واقعات بھی پیش آجاتے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں بدنظمی ‘ انارکی اور فاشزم پھیلانے والے ‘ قانون کی پاسداری کو گھر کی لونڈی سمجھن والے اپنی بدنامی کی شہرت کو برداشت نہیں کرتے اور صحافیوں کو قتل کرنے جیسے بہیمانہ رویہ تک اختیار کرجاتے ہیں، دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح ایسے کئی افسوسناک واقعات ماضی میں پاکستان میں بھی رونما ہوئے جس کی ہر سطح پر عوام نے بڑی شد ومد کے ساتھ مذمت کی، یقیناًایسے کئی واقعات پر اپنے کو ہمارا ماضی بدنامی سے نہیں بچا پایا یونیسکو کی جنرل اسمبلی نے دسمبر1993 کو جب 3 ؍مئی کو عالمی یوم آزادی صحافت کا دن قرار دیا تو اِس موقع پر جو چارٹر منظور ہوا تھا، اُس کی ابتداء ہی اِس ایک اہم نکات سے شروع کی گئی ہے کہ’ ذرائع ابلاغ کے سبھی ادارے اور سبھی میڈیم ’معیارِ صحافت ‘ کے بنیادی منبع‘ مبداء پر استوار ہونگے‘ جہاں بھی کسی واقعہ کی کوریج یا رپورٹنگ ہوگی آزادی سے ہوگی وہاں اُس رپورٹنگ کی حقیقت صحیح اور انصاف پر مبنی ہونی چاہیئے رپورٹنگ کرنے والے صحافی کو بالکل غیر جانبدار ہوکر شفافیت کے عمل کے ہر پہلو کا پاس ولحاظ رکھنا بہت ضروری ہوگا ،مطلب یہ کہ ’معیارِ صحافت ‘ کی بنیادی پاسداری نمایاں ہو، صحافت اور صنعت کے مابین یہ اُصول طے کیا جائے کہ دوتہائی سے زائدصحافت میں تھوڑی تجارت اگر کرلی جائے تو اِس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یعنی ہم متذکرہ بالا نکات کو یو ں سمجھنے کی کوشش کریں ’صحافت جیسی عظیم اور بے مثال انسانی خدمت پر تجارتی رنگ غالب نہ دکھائی دے، پاکستان میں جب سے الیکٹرونک میڈیا کو سرکاری الیکٹرونک میڈیا کے برابر اپنی خبریں عوام تک پہنچانے کی آزادی ملی تو گزشتہ8-9 سالوں کے دوران کئی بار نجی الیکٹرونک میڈیا کے چند بڑے چینلز نے ’صحافت میں مروجہ معیار ‘ کا بالکل دھیان نہیں دیا یہ چند بڑے چینلز ’یکطرفہ ‘ کھڑے بالکل علیحدہ قومی حساس اداروں کو چیلنج کرتے نظر آئے پاکستان چونکہ نظریاتی ملک ہے، اِس کی اپنی کبھی نہ مٹنے والی سماجی وثقافتی قدریں ہیں جن کے براہِ راست واسطے اور تعلق کی کڑیاں اِس ملکِ خداداد کے 18 کروڑعوام میں کسی نہ کسی حوالے سے اُن کے مذہبِ اسلام کے ساتھ پیوست ہیں ہر ملک کا سماجی ڈھانچہ اور اُس کی ضروریات مختلف ‘ اُن کے رہن سہن کے طور طریقے مختلف ‘فکرو نظر اور سوچنے سمجھنے اور اُن کے اظہار کرنے کے انداز مختلف ہوتے ہیں، پاکستان میں جاری جمہوریت کا سفر ہمیشہ سے مشکل حالات کا شکار رہا پاکستان کے آئین کا دیباچہ اگر بغور پڑھ لیا جائے تو منتخب اراکینِ پارلیمان خود محسوس کریں گے کئی طرح کے سوالات اُن کے ذہنوں میں یقیناًپیدا ہوتے ہونگے پاکستانی آئین کی ایک ایک شق کی پاسداری پاکستانی نجی میڈیا کو اور سرکاری ‘دونوں اطراف کے میڈیا کو کرنی ہے، یہ ہی صحافت ’معیاری صحافت ‘ کہلائے گی ،آئینِ پاکستان کے حدووقیود میں رہے گی تو پھر کسی کو شکایت بھی نہیں رہے گی ‘یہ اُصول کس نے طے کرنے ہیں؟ میڈیا ہاؤسنز نے یا حکومت نے ؟کہ معیاری صحافت کی جانچ پڑتال کیسے ہو کون سے ایسے موثر ضابطہ اخلاق مرتب کیئے جائیں جنہیں کوئی چیلنج نہ کرسکے ظاہر ہے کہ پاکستان کے معروضی تقاضوں کو سب سے پہلے ہمیں مقدم رکھنا ہوگا نجی میڈیا کا ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خبروں کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے میں بہت ’اسمارٹ ‘بننے کی کوشش میں لگا رہتا ہے کبھی اِس بھاگ دوڑ میں اُنہیں یہ خیال ہی نہیں رہتا کہ جس سیاسی قائد کے بارے میں وہ یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے بیانات وہ سب سے پہلے ٹیلی کاسٹ کرئے اُسے اِس جلد بازی میں تمیز کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ سیاسی رہنما یا وہ قائد جس کی عوامی پذیرائی کیا پورے ملک میں ہے یا ایک علاقہ تک محدود؟ بس فیصلہ ہوگیا کہ اِس لیڈر کی تقریر ’لائیو ‘ براہِ راست ٹیلی کاسٹ کرنی ہی ٹھہری تو پھر ’معیار‘ تورہا ایک طرف ملک کے آئینی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بھی وہ لیڈر اپنی تقریر میں اڑا دے پھر جو کچھ ہوگا بعد میں دیکھا جائے گا یہ تو لیڈر نے سوچنا تھا کہ اُسے کیا بولنا ہے اور کیوں بولنا ہے یعنی میڈیا کی اپنی کوئی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہی نہیں ‘ جنابِ والہ! یہاں پتہ چلتا ہے کہ آپ کس شخصیت کو ’براہِ راست‘ نشر یا ٹیلی کاسٹ کررہے ہیں؟ اُس کی فکری ونظری بصیرت کیا ہے کس موقع پر اُس نے کیا بات کرنی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ زمینی حقائق کا تجزیہ کیئے بغیر ‘مستقبل کے پیش آئندخطرات کا اندازہ لگائے بغیر پورے ملک کے سیاسی ‘سماجی و سلامتی کے ڈھانچے کو بے انتہا نقصان پہنچا دے؟ یہ کمال کی پیشہ ورانہ تمیز و تفریق ہی ذرائعِ ابلاغ کی اہمیت وافادیت کو نمایاں خوب تر مقام عطا کرتی ہے، یعنی یہ کہ وقت سے قبل جانچنے کے طور طریقے ہی کو ذرائعِ ابلاغ کی مہارت کہا جاتا ہے اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر طبقاتی آزادیوں پر دن دھاڑے شور شرابے کے ساتھ ڈاکہ ڈالنے کانام پاکستان میں ’صحافت کی آزادی ‘ رکھ دیا گیا جنہیں علم ہے یا نہیں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ رپورٹنگ کا مہارانہ معیار کیسے تکنیکی عوامل پر پورا اترتا ہے، اگر براہِ راست رپورٹنگ کا یہ معیار قابلِ فروخت ہے تو اِس میں کتنی کشش پائی جاتی ہے؟ ایک بار پھر گزارش ہے کہ نجی الیکٹرونک میڈیا موجودہ منظر نامے میں ضابطہ اخلاق کی اہمیت کو سمجھے اور پھر وہ پاکستان کے معروضی تقاضوں کو اپنے پیشِ نظر رکھے، ہمارا خیال ہے میڈیا کے تکنیکی عوامل کے معیارات اگر وقت سے قبل متعین کرلیئے جاتے تو مثلاً یکم ؍ اپریل کی شب کو پاکستانی نجی الیکٹرونک میڈیا کبھی بھی الطاف حسین کی متنازعہ تقریر براہِ راست نشر نہ کرتا ،اِس طرح کی مزید کئی اور بھی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں یقیناًاب جبکہ3 ؍مئی گزر چکا ہے ہمیں بحیثیتِ صحافی از خود اپنے اصول اپنے ملک وقوم کے معروضی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھ کر آج نہیں تو کل ایک نہ ایک دن ضرور متعین