استبدادی اور آمرانہ ریاستوں میں انسانی حقوق کی بحالی یا اُن کی پاسداری کے لئے میدانِ عمل میں اتر کر کام کرنا بڑا خطرناک ہوتا ہے ایسی’’ مشتبہ ریاست‘‘ جو اپنے معاملات کو صیغہ ِٗ راز میں رکھتی ہو اور بند دروازوں کے پیچھے اُس ریاست کے معاملات طے ہوتے ہوں وہ اُن افراد کو پسند نہیں کرتی جو ریاست کے اندر کے وقوع پذیر خفیہ مشکوک و مذموم حالات کی اصل تصویر کو جاننے‘ اُسے عام کرنے کی کوششیں کرتے ہیں انسانی حقوق کے من جملہ مراعات وسہولیات دنیا کے ہر آزاد انسان کا بنیادی حق ہیں کوئی بھی اِسے کسی نام کی آڑ میں سلب کرنے کی کوشش کرئے تو ہوسکتا ہے وقتی طور پر وہ ایسا کرلے گا ،لیکن تادیر مستقبل میں وہ اپنے اِن استبدادی وآمرانہ عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ناکامی ونامرادی اُس کا مقدر بنتی ہے بلاآخر محکوم اور انسانی حقوق سے محروم قومیں اپنے بنیادی حق حاصل کرہی لیتی ہیں، انسانی حقوق اور دنیا کے ملکوں میں رائج جمہوریت کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا دنیا کی سب سے بڑی’’ نام نہاد‘‘ عظیم جمہوریت کا جب بھی کہیں تذکرہ ہوتا ہے، تو سبھی کی انگلیاں اور نظریں فوراً بھارت کی جانب اُٹھتی ہیں ذرا کوئی انصاف پسند اور شعوری طور پر بیدار مغز فرد اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ بتانا چاہے گا کہ کیا واقعی بھارت میں رائج جمہوریت کسی کو کہیں سے عظیم اور بڑی دکھائی دیتی ہے کیا بھارت کو دنیا کی کوئی ایک بھی انصاف پسند عالمی تنظیم نسانی حقوق اور عظیم جمہوریت کے تسلسل قائم رکھنے پر کسی اعزاز کا مستحق سمجھتا ہے ؟بھارت میں فرقہ ورانہ جنونی جمہوریت کی آڑ میں قدم قدم پر انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑتی ہوئی نظر آتی ہیں، جگہ جگہ عدم برداشت کے ‘ذات پات کے متعصبانہ بت بھارت کی شناخت بنے اصل اور حقیقی جمہوریت کا منہ چڑاتے کھڑے ہیں،رہی سہی کسر آر ایس ایس کے زیر سرپرست قائم ہونے والی نریندرمودی کی سرکار نے اورنکال دی مقبوضہ کشمیر میں حریّت پسند مزاحمتی تحریک کے کئی رہنماؤں کو حال ہی میں اِس جرم میں گرفتار کیا گیا اُن کی تذلیل کی گئی کہ وہ بھارتی ظلم و استبداد کے آگے جھکنے سے انکار ی ہیں عالمی سطح پر مقبوضہ جموں وکشمیر کی حیثیت 66-67 برس کے بعد آج تک متنازعہ ہے اِس دیرینہ مسئلہ نے ابھی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی پاس کی گئی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا ہے اہلِ کشمیر بھارت کے باقاعدہ شہری نہیں اُن پر بھارت کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوسکتا جموں وکشمیر کے جغرافیائی حدود کے اندر کشمیری جو چاہے کرسکتے ہیں گزشتہ دنوں حریّت پسند مزاحمتی تحریک کے مقبول رہنما جب کشمیر واپس آئے تو اہلِ کشمیر نے اپنے بزرگ قائد کا والہانہ استقبال کیا اِس موقع پر ہزاروں کشمیریوں نے پاکستان زندہ کے فلک شگاف نعرے لگائے اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا کر پاکستان کے ساتھ اپنی والہانہ اور پُرجوش عقیدت کا اظہار کیا کشمیریوں کی خوشی دیدنی تھی جو بھارتی سیکورٹی ادارے بھارتی فوج اور ’را‘ سے دیکھی نہ گئی اندر ہی اندر حسد اور بغض وعداوت سے وہ جلے بھنے جارہے تھے
لہذاء فوراً نئی دہلی سرکار کی ایما پر سرینگر میں بھارتی پولیس نے پاکستانی سبز ہلالی پرچم لہرانے والوں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والوں پر بے دریغ لاٹھی چارج کیا اور سینکڑوں کشمیریوں کو موقع پر حراست میں لے لیا گیا غیر جانبدار عالمی میڈیا کے مطابق بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کو ترال میں ان کی رہائش گاہ پر نظر بند کردیا گیا کشمیر میں نکالی گئی ریلی کے دوران پاکستانی پرچم لہرائے جانے کے واقعے پر پاکستان نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے اِس واضح حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ کشمیر میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانے سے کشمیریوں اور پاکستانیوں کے درمیان گہرے جذباتی تعلق کا پتہ چلتا ہے وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی پریس بریفنگ میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ’بھارت کشمیریوں سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتا کہ وہ اس کے وفادار رہیں کیونکہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، جس کا حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت ابھی تک نہیں نکلا پُر عزم کشمیریوں کی اِس ریلی میں پاکستانی پرچم لہرائے جانے پر بھارتی جنونی حلقوں میں بھی سخت قسم کا رد عمل سامنے آیا مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ’’ بھارتی سرزمین‘‘ پرپاکستان زندہ باد کے نعرے لمحہ بھر کے لئے بھی برداشت نہیں کیے جا سکتے عقل سے بالکل پیدل بھارتی مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو کیا جموں وکشمیر کے ’عالمی اسٹیٹس ‘ کا رتی برابر علم نہیں ہے؟ اِس بچارے کو کسی نے نہیں بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ پاکستان اور بھارت کے مابین وجہ ِٗ تنازعہ ہے، اگر ایسا نہیں تو بھارت نے اپنے زیرانتظام کشمیر کے 86 سالہ رہنما سید علی گیلانی کو اْن 40 ہزار کشمیریوں میں کیوں شامل کردیا جنھیں پاسپورٹ حاصل کرنے میں سرکاری اعتراضات کا سامنا ہے سید علی گیلانی کی بیٹی سعودی عرب میں شدید علیل ہیں اور وہ اُن کی مزاج پرسی کے
لیے وہاں جانا چاہتے ہیں کئی ماہ سے ان کی طرف سے پاسپورٹ کی درخواست متعلقہ حکام کے پاس التوا میں پڑی ہوئی ہے بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی کشمیری شاخ نے محترم گیلانی صاحب کو پاسپورٹ نہ دینے کی پرزور سفارش کی تو نئی دہلی اور سرینگر میں یہ ایک نیا سیاسی مسئلہ نمایاں ہوگیا کیا کہتے ہیں مسٹر راج ناتھ اِس مسئلے کے بارے میں ‘ کوئی نہ کوئی ایسی بڑی بات یقینی ہے کہ بھارتی زیر کنٹرول کشمیر کا کوئی رہنما کشمیر سے باہر نہ جاسکے اِسی طرح سے کشمیر میں انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کے اتحاد کولیشن آف سول سوسا ئیٹز کے سربراہ پرویز امروز بھی گزشتہ 11 سال سے پاسپورٹ کے حصول کے منتظر ہیں، انھیں چند برس قبل فرانس کی ایک معروف انجمن نے انسانی حقوق کی ترجمانی کے لیے خصوصی اعزاز سے نوازا لیکن وہ فرانس نہیں جا پائے پرویز امروز نے بی بی سی کو بتایا کہ’میں سیاستدانوں کی بات نہیں کروں گا اپنی بات بھی نہیں کروں گا، کیونکہ انسانی حقوق کی کوئی بات نئی دہلی حکومت پسند نہیں کرتی، ظاہر ہے مجھے پاسپورٹ نہیں دیا جائے گا، لیکن یہاں پر جموں و کشمیر میں 40 ہزار لوگوں کی فہرست بنائی گئی ہے جنہیں مختلف حیلے بہانوں سے ان کے سفری حق کو ہی معطل کردیا گیا ‘ پرویز امروز کا یہ کہنا بہت قابلِ غور سمجھئے وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں بالکل برعکس حالات ہیں ’وہاں کے کشمیر میں رہنے والوں کو نہ صرف پاسپورٹ کی سہو لیات اور دیگر انسانی حقوق کے تمام تر لوازمات میسر ہیں بلکہ ان کے پاسپورٹ پر ان کی شہریت پاکستانی نہیں بلکہ سابق جموں کشمیر ریاست کے طور درج کی جاتی ہے پرویز امروز نے بتایا ’پاکستانی کشمیر کے پانچ لاکھ شہری یورپ، امریکہ اور مختلف خلیجی ممالک میں تعلیم اور تجارت میں مصروف ہیں جبکہ بھارتی کشمیر کے تاجروں اور طالب علموں کو پولیس تھانوں کے چکر کاٹنا پڑتے ہیں امروز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم عاصمہ جہانگیر ٹائپ کے لوگوں کو پاکستان ہندوستان آنے کی اجازت دیتا ہے جبکہ یہاں آ کر وہ پاکستانی حکومت کے خلاف اپنے دل کے غبار جی بھر کے نکا لتے ہیں حد تو یہ ہے کہ بھارت جمہوری ملک ہونے کے باوجود ڈرتا ہے کہ کہیں کوئی کشمیری بیرون ملک جا کر یہاں کے زمینی صورت حال کو آشکار نہ کر دے معروف معالج اور تبصرہ نگار ڈاکٹر ظفر مہدی نے بتایا کہ ’’میں ایک ڈاکٹر ہوں سات سال پہلے سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوگیا ہوں مجھے پاسپورٹ نہیں دیا جا رہا میرا قصور یہ ہے کہ حکومتی ادارے یا این جی اوز مجھے سیمینار میں بلاتے ہیں میں کہتا ہوں کہ کشمیریوں کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے لیکن آج یہی بات عمرعبداللہ، مفتی سعید اور فاروق عبداللہ بھی کہتے ہیں‘ ‘ ڈاکٹر مہدی نے بتایا کہ’’ یہ متعصبانہ اور جنونی رویہ سراسر بھارتی آئین کی دفعہ12کی خلاف ورزی ہے‘‘ ۔