آئین کی مخالفت پر تلا ’میڈیا ‘ ۔ عوامی احتساب کے شکنجے میں
Posted date: May 08, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
پاکستان میں بیباکی‘ بے خوفی اور آزادی سے ’ابلاغیات اور تحقیق ‘ کے جیسے اہم مسائل پر کھلی گفتگو کا مطلب ہوا کہ آج ہمارا پاکستان سیاسی‘ سماجی ‘معاشرتی اورثقافتی اعتبار سے مستحکم جمہوریت کی راہ پر گامز ن ہوتا ہوا نظر آرہا ہے پاکستان کا دشمن ‘ چاہے امریکا میں بیٹھا ہو یا افریقہ میں ‘ بھارت میں ہو یا اسرائیل یا کسی اور ملک یا دنیا کے کسی بھی خطہ میں بفضلِ الہیٰ پاکستان اب جدید سائنسی اور جوہری کی ترقی سے اپنے آپ کو ہم آھنگ کرچکا ہے ایک عام پاکستانی اپنے ملک میں الیکٹرونک میڈیا کی آزادی کے ثمرات سے خود کو بھرپور مستفید ہوتا ہوا نہ صرف محسوس کررہا ہے، بلکہ ’ابلاغیات اور تحقیق ‘ جیسے اہم اور حساس سماجی مسئلہ پر اپنی ذاتی آراء اور تجاویز کا اظہار کر بھی رہا ہے ’صحافتی حلقے ‘اِن کا تعلق چاہے صحافت کے کسی بھی شعبے سے ہو اُنہیں موجودہ ’الجھے لمحات‘ میں اُن کے ذاتی صحافتی کردار کی ’چھپی اور ظاہر ‘ پَرتوں سے واقفیت حاصل کرنے کا بھی ہر ایک پاکستانی کو خوب مواقع میسر آرہے ہیں کراچی میں جیو نیوز گروپ کے کئی چینلز میں سے ’جیو نیوز ‘ کے اینکر پرسن صحافی حامد میر پر جو قاتلانہ حملہ ہو ا تھا اِس مبینہ حملے کی ’جیو ‘ نے جس طرح کی سوچی سمجھی ’یکطرفہ ‘ کوریج کی اِس پر کسی بھی پاکستانی کو اعتراض نہیں‘ یہ اُن کا حق تھا واقعی! جس کسی نے حامد میر کو قتل کرنے کی نیت سے یہ بہیمانہ اقدام کیا اُس کی مذمت کی جانی چاہیئے ،وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے جیو گروپ کے صحافی حامد میر پر ہونے والے اِس مبینہ حملے کے’’ اصل ملزمان‘‘ تک پہنچنے کے لئے عدالتی تحقیقاتی کمیشن قائم کرکے ایک اہم قدم اُٹھایا اِس واقعہ کی یقیناًقرار واقعی تحقیقات ہونی چاہئیں، جس دن یہ بہیمانہ واقعہ رونما ہوا ،
اُس روز سے آج تک اِس بارے میں بہت کچھ کہا سنا ا ور کچھ لکھا جارہا ہے، کراچی میں گزشتہ ایک دہائی سے کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب وہاں ایک نہیں ‘ درجنوں بے گناہ پاکستانیوں کو ٹارگٹ کرکے قتل نہ کیا جاتا ہو یا شدید زخمی نہ کیا جاتا ہو، شکرہے اللہ تعالیٰ کا ‘ حامد میر نامعلوم قاتل کی گولیوں سے شدید زخمی ضرور ہوئے، انشاء اللہ وہ صحت یاب بھی جلد ہوجائیں گے، دیگر ٹارگیٹڈ حملوں میں اور اس حملہ میں فرق کیا ہے ؟اِسے اتنا زیر بحث کیوں لایا جارہا ہے؟ اور کیوں حامد میر یا اُن کے بھائی نے اُن پر ہونے والے اِس حملہ میں پاکستانی حساس سیکورٹی ادارے آئی ایس آئی کو اِس قومی ادارے سمیت اِس کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کو ملوث قرار دیا اِس کے پسِ پشت خفیہ مقاصد کے کیا عزائم ہوں گے مسٹر میر نے بالا آخر یہ انتہائی قدم کیوں اُٹھایا اِس کے مضمرات سے کیا واقف نہیں تھے کیا ملکی سپریم انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی اتنی گئی گزری ہے کہ وہ اب اپنے ہی ملک کے صحافیوں تک ’محدود ‘ ہوکر رہ گئی ہے یہ ایک اہم نکتہ یہاں ہم زیر بحث رکھیں گے پڑوسی ملک بھارت کے اہم تجارتی ساحلی شہر ممبئی میں کئی بم دھماکے ہوئے خبریں بنیں ماضی کا حصہ بن گئیں لیکن نومبر 2012 میں جب ’را‘ کی سرپرستی میں ممبئی شہر کے اہم علاقے میں بم دھماکوں کے حملے کرؤائے گئے تو اُس واقعہ کو بھی
اِسی ’حامد میر حملہ ‘ کی طرح بڑی سرعت سے شہرت ملی تھی حامد میر پر ہونے والے مبینہ ٹارگٹ حملے اور ممبئی حملوں میں یہ ہی وجہ ِٗ مماثلت شہرت کا باعث بنی یعنی، یہ کہ پاکستانی افواج او ر آئی ایس آئی کو دنیا بھر میں بدنام کر کے یہ ثابت کرنا کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے اہم ادار ے ملکی سیکورٹی کے حساس مسائل پر نظر رکھنے کی بجائے
اپنے ملک میں کہیں صحافیوں کو قتل کرر ہے ہیں تو کہیں اہم سیاسی شخصیات یا سیاسی کارکنوں کو اغواء کیا جارہاہے یہ سب واقعات جن کی کلی یا جزوی تحقیقات کسی نے نہیں کی مگر ’جیو نیوز والوں ‘ نے اِ ن سنی سنائی باتوں پر مبنی واقعات کا ذمہ دار ہمیشہ افواجِ پاکستان کو قرار دیا بلکہ ایسے ہی حامد میر کا ہسپتال سے جاری ہونے والے ایک بیان کو عوام ماننے سے انکار کردیا ہے حامد میر صحافی ہے شمالی وزیر ستان یا فاٹا کے مسلح عسکریت پسند‘ آئین شکن باغی گروہوں کا کوئی سرغنہ نہیں ہے بدقسمتی سے جس میڈیا گروپ سے اِس کا تعلق ہے یہ مخصوص’ میڈیا ہاؤس‘ بلکہ اب تو اِس میڈیا ہاؤس کانام عدالتی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے ہے کیا اِس میڈیا ہاؤس کی نکیل کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے حامد میر میں ایسے کون سے جراثیم یا عناصر پائے گئے یا محسوس کیئے گئے کہ یہ سمجھ لیا جائے آئی ایس آئی اِس لئے اُن سے ناراض تھی یا ہے کیونکہ اُ س نے ’ماما قدیر ‘ نامی ایک سیاسی کارکن نے ’لاپتہ ‘ ہونے والے افراد کی حمایت میں جو ’پیدل مارچ ‘ کیا تھا اُس کی کوریج کی تھی ‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر موصوف صحافی نے اِس واقعہ کی کوریج کی تو اِس کوریج سے آئی ایس آئی جیسی دنیا کی تسلیم شدہ اپنی پیشہ ورانہ مہارت میں طاق انٹیلی جنس ایجنسی کو جیو نیوز کی اِس کوریج کیا نقصان پہنچا ؟ موصوف میر نے کیا ’ابلاغی تحقیق ‘ کی مادر پدر آزادی کے زعم میں اِتنی بڑی قوت حاصل کرلی کہ وہ جب چاہئیں جیسے چاہئیں آئی ایس آئی جیسی دنیا کی نمبر ون انٹیلی جنس ایجنسی کے اُس کی اپنی سرزمین میں گڑے مضبوط قدموں کے نیچے سے قالین کھینچنے میں وہ فتح مند ہو گئے؟ اُنہوں نے اپنے ٹاک شو کے ذریعے سے آئی ایس آئی اور افواجِ پاکستان کو ’دیوار ‘ سے لگادیا؟ جو ملکی سیکورٹی اداروں کو اتنا ناگوار گذرا کہ یہ’فیصلہ ‘کرلیا گیا ’حامد میر رہے گا یا افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی ؟‘ کیا پِدی اور کیا پِدی کا شوربہ؟‘ ہمیں ایسا لگتا ہے حامد میر اور اُن کے بھائی نے اِس ’مشکوک ‘ اَن دیکھے قتل کی تمام تر ذمہ داری براہ راست‘بغیر کسی سوچ بچار کے غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی ’بی ٹیم ‘ کا روپ دھار کر اپنے ’جیو نیوز ‘ پر یہ بریکنگ نیوز چلو ا ئی ، ذرا اب اُس وقت کے جیو نیوز کے ’ٹرانسمیشن آفیسر‘ کے ذمہ داروں کے غیر ذمہ دارانہ فیصلوں کا ’پوسٹ مارٹم ‘ کیجئے، جنہوں نے یہ سوچنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی کہ ’نہیں ابھی یہ خبر نہیں چلانی چونکہ اِس خبر میں بحیثیتِ ادارہ آئی ایس آئی کو مذموم طرح سے ملوث کیا جارہا ہے جیسے بھارتی ‘ اسرائیلی ‘ افغانی اور امریکی خفیہ ا دارے پسِ پشت رہ کر پاکستانی سیکورٹی فورسنز کو بدنام کرنے میں اپنی بُری شہرت رکھتے ہیں !حد نہیں ہوگئی تقریباً 8 گھنٹے تک جیو نیوز میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کی تصویر کو ’میوزیکل بریکنگ نیوز ‘ کے ساتھ تماشا بناکر دکھایا جاتا رہا؟ساری دنیا نے یہ ’بے ہودہ تماشا ‘ جیسے 2012 نومبر میں جب بھارتی شہر ممبئی میں دھماکے ہوئے تو اچانک دنیا بھر میں آگ کی طرح یہ خبر پھیلی تھی ’پاکستان سے بھیجے گئے ’ در اندازوں ‘ نے ممبئی میں بم دھماکے کرکے بھارت کو طیش دلادیا ‘ سونے پہ سہاگہ ’ بھارتی وزیر اعظم نے اپنے نشری خطاب میں ’را‘ اور بھارتی عسکر ی اعلیٰ قیادت کے دباؤ میں آکر اِن دھماکوں کا ملبہ آئی ایس آئی پر ڈال دیا تھا اُس وقت یہ جیو نیوز ہی تھا جس نے ’بریکنگ نیوز ‘ چلا ئی تھی کہ ’ آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا کو فی الفور بھارت بھیجا جارہا ہے؟‘ یہ سازشی ’ٹکر ‘ جیونیوز کے بعد چند اور نجی ٹی وی چینلز نے بھی چلائے مگر وقت نیوز کے علاوہ یہ بہیمانہ جسارت تقریباً سبھی نجی نیوز چینلز کی تھی، چند منٹوں بعد خبر آگئی کہ ’آئی ایس آئی چیف بھارت نہیں جارہے ‘ پہلی خبر کا ذریعہ کیا تھا؟ تردیدی خبر کا ذریعہ کیا ؟ قوم اب تک مخمصہ کا شکا ر ہے، ذرائعِ ابلاغ کی تسلیم شدہ قابلِ تقلید فنی مہارت کو نہ بھلایا جائے ذرائعِ ابلاغ کے سبھی اہم شعبے خالصتاً اپنی پیشہ ورانہ روش اپنائیں اپنے قارئین‘ ناظرین اور سامعین کی قومی امنگوں کی ترجمانی کے فرائض ادا کریں، عوامی امنگوں کے خلاف ذرائعِ ابلاغ کا کوئی شعبہ چاہے وہ کتنا ہی بڑا تجارتی ادارہ کیوں نہ ہو وہ بھی ملکی عوام کے لئے قابلِ احترام قومی سلامتی کے اداروں کو متواتر ‘ بے جا اور بلاوجہ بے توقیر کرنے پر اگر کمر بستہ رہے گا اُسے بے وقار کرتا رہے گا تو عوامی غیض وغضب کا اُسے سامنا کر نا پڑے گا لہذاء پاکستانی فوج مخالفت پر کمر بستہ اور سرکش میڈیا کو آئین کی اتھارٹی کے تابعِ فرماں کرنے میں حکومت جلد ازجلد اپنا ’کنفیوژن ‘ دورکرلے۔