Posted date: August 07, 2020In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
کشمیرسلگ رہا ہے اور دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے ایسا کچھ اب سے نہیں اس خطے نے جانے کب آزادی کا سورج دیکھا تھا۔ آج سے تقریباًکچھ کم صدی پہلے علامہ اقبال نے افسوس کرتے ہوئے کہا تھا۔
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
اس خطے کو کسی نے جنت نظیر کہا کسی نے ایران صغیر کہا کچھ نے فردوس بریں کہا لیکن اس کے قدرتی حسن کی تعریف مکمل نہ ہوئی۔ آج یہی کشمیر ظلم کی چکی میں پس رہا ہے اور کوئی اس کی فکر نہیں کر رہا۔ وہاں سے مسلسل آزادی دو کے نعرے بلند ہورہے ہیں لیکن دنیا کان بند کر کے بیٹھی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ مسلمان ممالک بھی یہ نعرے سننے سے انکاری ہیں آخر کیوں اور کب تک۔ آخر کیوں کشمیر کی آزادی دنیا کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں وہ دنیا جو جانوروں کے حقوق کی بات کرتی ہے وہ یہاں انسانوں کے حقوق سے کیوں لاپرواہ اور بے خبر ہو جاتی ہے اور یہ کچھ آج سے نہیں ہو رہا بلکہ دہائیوں سے ہو رہا ہے۔ بر صغیر تقسیم ہوا تو کشمیریوں کی بھی امید بندھی بلکہ انہیں یقین تھا کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے وہ پاکستان میں ہی شامل ہونگے لیکن ایسا نہ ہوا اور مزید جرم یہ ہواکہ اس کے ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کر لیا ظاہر ہے کہ یہ الحاق نہ کشمیریوں کو قبول تھا نہ پاکستان کو۔ یہی مسئلہ کشمیر ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام مسائل کی جڑ ہے جب تک بھارت کشمیر کو آزاد نہیں کرتا تب تک خطے میں امن کے قیام کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔ کشمیر کو پاکستان اور بھارت دونوں نے کے متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں اطراف میں ریاست کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہے دونوں اپنے علحدہ پرچم رکھتے ہیں اور دونوں کو مخصوص حیثیت حاصل ہے۔ بھارت نے 1954میں اپنے آئین کے آرٹیکل 370اور35A کے تحت اس حیثیت کو تسلیم کیا تھا۔ اسی آرٹیکل کے تحت وہاں کی قانون ساز اسمبلی اپنی ریاست کا آئین بناتی تھی اور اسی کے تحت کسی غیر کشمیری کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ کشمیر میں کسی قسم کی جائیداد بنا سکے اور یہی وجہ ہے کہ ریاست نے ابھی تک مسلم ہندو آبادی کا تناسب بر قرار رکھا ہوا تھا۔ جموں میں بھارت وقتاً فوقتاً حیلے بہانے سے ہندو لاکر بساتارہتا تھا تاہم کشمیر میں صورت حال قابو میں رہی لیکن 5اگست 2019کو بھارت نے اپنے ہی آئین کی یہ شق معطل کی اور کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔ ایسا کرنے سے کئی دن پہلے ریاست میں ٹیلی فون اور انٹر نیٹ سروس بند کردی گئی تھی، اجتماعات پر بھی پابندی لگائی گئی تھی یوں حالات کا اندازہ کرتے ہوئے اسے پہلے سے ہی قابو کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن ظاہر ہے یہ ایک بہت بڑا قدم تھا جو اُٹھایا گیا تھا اور اس پر کشمیریوں کا غم و غصہ با لکل قدرتی تھا لہذا شدید ہنگامے پھوٹ پڑے نہ صرف کشمیر بلکہ پوری دنیا میں کشمیر یوں نے احتجاج کیا لیکن بھارت نے تاحال اپنے کیے پر نظر ثانی نہیں کی ہے بلکہ ریاست میں طویل لاک ڈاؤن کیانیا قانون لاگو کرنے سے پہلے ہی بے تحاشا فوج تعینات کی گئی اور پورے اختیارات کے ساتھ کی گئی۔ جس نے ابھی تک پورے کشمیر کو محاصرے میں لیا ہوا ہے کشمیر کو ایک بڑی جیل بنادیا گیا وہاں کے باشندوں کو بنیادی انسان حقوق سے بھی محروم کردیا گیا لیکن حیرت ہے کہ عالمی ضمیر سوتا رہا اور اب بھی سو رہا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے اقوام متحدہ میں پرزور تقریر کے ذریعے بین الاقومی قوتوں کو جگانے کی کوشش کی۔ چند ایک ممالک بولے کچھ تھوڑی سی لے دے ہوئی اور پھر دنیا بھول گئی کہ دنیا کے ایک خطے میں ایک پوری قوم محصور ہے اور نہ صرف گھروں میں بند ہے بلکہ ان کے اوپر ایک بہت بڑی فوج مسلط ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس بے انصافی کے چند ہی مہینے بعد پوری دنیا ایک قدرتی وبا کے ہاتھوں گھروں میں محصور ہو گئی اور انہیں پتہ چلا کہ لاک ڈاؤن کیا ہوتا ہے لیکن کشمیریوں کے مسائل میں کمی نہیں آئی وہ ابھی تک بھارتی فوج کے ہاتھوں مظالم برداشت کر رہے ہیں۔یہ تو ایک جملہ معتر ضہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت جس منصوبے پر کام کر رہا ہے یعنی کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنا اس منصوبے کے تحت جموں کشمیر جو ایک اکائی ہے کو تین علحدہ علحدہ یونٹوں میں تقسیم کرنا ہے یعنی کشمیر، جموں اور لداخ۔لداخ جو تبت سے قریب ہے اور اس میں بدھ مت کے ماننے والے کافی تعداد میں موجود ہیں لیکن پھر بھی آبادی میں سب سے زیادہ تناسب مسلمانوں کا ہے اس کے بعد بدھ اور پھر ہندو ہیں رہا جموں تو جموں صرف ایک ضلع ہے کوئی الگ اکائی نہیں لیکن یہاں بھی بھارت سرکارنے لالا کر ہندو بسائے تا کہ جموں کشمیر میں مسلمان کی اکثریت کو کسی طرح اقلیت میں تبدیل کیا جائے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا۔ بھارت بجائے اس بات کو تسلیم کرنے کے کہ کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہے اور بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے وہ یہاں بھی ان کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کر رہا ہے تاکہ مسلمانوں کا مذہب کی بنیاد پر مطالبہء آزادی کو ختم کیا جاسکے۔ بھارت میں مسلمانوں کا استحصال ہو رہا ہے لیکن اب اُسے اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی کیونکہ کشمیر ی آزادی سے کم کسی حل کو قبول کرنے پر تیار نہیں اور نہ ہی پاکستان کو اس کے علاوہ کوئی حل قبول ہے کیونکہ خطے میں امن صرف اُسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے اور بھارت کو جلد یا بہ دیر ایساکرنا ہوگا کیونکہ آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور کشمیری اس حق کو حاصل کر کے رہیں گے لہٰذا بھارت کو حقائق کا ادراک کرنا ہوگا اور کشمیر کو آزادی دنیا ہی ہوگی۔