Posted date: March 31, 2019In: Urdu Section|comment : 0
از عابدہ رحمانی
میں نے فجر کی نماز کے بعد پردہ کسکا کرکھڑکی سے جھانک کر دیکھا ، میری سامنے والی پڑوسن لنڈا اور اسکا شوہر میزیں لگا کر گیراج سیل کا اہتمام کر رہے تھے۔وہ ہر سال گرمیوں میں گیراج سیل ضرور لگاتی ہے ۔اکثر تویہ کہتی ہے کہ میں اپنے گھر کی چیزیں تبدیل کر رہی ہوں، جی بھر جاتا ہے انکو دیکھ دیکھ کے اور استعمال کر کے ۔کبھی یہ کہ میں نے کچھ اشیاء دیگر ممالک سے در آمد کی ہیں اور وہ بیچ رہی ہوں۔ میں نے ایک مرتبہ اس سے اٹلی ساختہ بالکل نئی سینڈل خریدی۔
گرمیوں میں یہاں گلی گلی گیراج سیل لگ جاتےہیں اکثرلوگ اپنی متروک اور غیر ضروری اشیاء سےفراغت پانا چاہتےہیں۔ کچھ نقل مکانی کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہم جیسے لوگ ضرور تا اور شوقیہ پہنچ جاتے ہیں بسا اوقات تو پیک کی ہوئی بالکل نئی اشیاء اونی پونی قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں ۔ عام طور سے یہ گیراج سیل یا گیراج کے باہر سجا بازار ہفتے کے روز صبح سات بجے سے دو پہر ایک بجے تک ہوتا ہے ۔ رہنمائی کرنے کے لئے لوگ ایک روز پہلے ہی سے نشاندہی کرنے والے بورڈ چوراہوں اور سڑک کے کنارے لگا لیتے ہیں جن پر پتہ اور تاریخ درج ہو تا ہے ۔ شائقین اور گاہک انتظار میں ہوتے ہیں اور علی الصبح ہی عمدہ اشیاء کے شکارمیں پہنچ جاتے ہیں۔
یہ تو بالکل گھر کے مقابل تھا آ ٹھ بجے کے بعدمیں نے کچھ کیش ٹٹولا گلے میں بیگ لٹکایا اور پہنچ گئی۔
لنڈا نے کافی اشیا سجا رکھی تھیں ۔ اچھے خاصے برتنوں کے سیٹ ، نادر قسم کی سجاوٹ کی اشیاء، کانچ کی مرصع بڑی بڑی گڑیا ئیں، دیگر بھس بھرے ہوئے بھالو ، بندر اور کھلونے ،باورچی خانے کا بجلی سے چلنے والا سامان ،پتیلیاں، چمچے ،کپڑے ،جوتے ،کڑھائی اور بنائی کا سامان ، چادریں، میز پوش غرضیکہ انواع و اقسام کی اشیاء تھیں ۔
چند گاہک خریداری میں مصروف تھے ۔ انسے فارغ ہوئی تو لنڈا میری طرف متوجہ ہوئی۔
ہیلو ہائے کے بعد میں نے یہاں کی گرمیوں کی تعریف کی جنکا ان یخ بستہ علاقوں کے لوگوں کو شدت سے انتظار ہوتا ہے۔” موسم بہت حسین ہے اسقدر خوبصورت دن ہے“میں نے چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی خنکی آمیز دن کی تعریف کی۔
آج تو تم نے بہت بڑا بازار سجایا ہے ۔ انواع و اقسام کی چیزیں ہیں ۔ کیا سب اشیاء تمہاری ہیں ” میں نے اسکی سیل کوسراہا ۔ ( بسا اوقات دو چارلوگ ملکر بھی لگا لیتے ہیں)
” نہیں یہ سب مام کی چیزیں ہیں ۔ تم تو مام سے مل چکی ہو نا اسنے مجھے یاد دلایا ۔مام بہت شوقین تھیں دنیا جہاں کی چیزیں اکٹھی کیں ، بہت سے ممالک کی سیر کی ہر جگہ سے کچھ سوغات لے آتیں اور اپنی چیزوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔کچھ چیزیں تو ہم تینوں بھائی بہن نے آپس میں تقسیم کر لیں ۔
” ہاں ہاں کیوں نہیں چند برس پہلے جب تم نے لیڈیز پارٹی کی تھی اور مجھے بھی بلایا تھا ۔ اسوقت انکی کولھے کی ہڈی کی سر جری ہوئی تھی اور وہیل چیئر پر تھیں ۔ کافی خوش باش خاتون تھیں ، مجھ سے انہوں نے بہت باتیں کی تھیں کیونکہ اس پارٹی میں میں ہی مختلف تھی۔“
لنڈا چند اور گاہکوں کی طرف متوجہ ہوئی اور ہماری بات بیچ ہی میں رہ گئی ۔ میں ان اشیاء کو دیکھ کر کچھ دل گرفتہ سی ہورہی تھی ۔ خاتون نے کسقدر شوق سے یہ تمام چیزیں اکٹھی کی ہونگی ۔۔۔
سامان سو برس کا ، پل کی خبر نہیں ۔
مجھے ایک دو چیزیں اچھی لگ رہی تھیں،اسپر قیمت درج نہیں تھا ۔ لنڈا سے قیمت پوچھنے گئی ” تمہاری والدہ کیسی ہیں اور کہاں ہیں ؟“
” بس زندہ ہے ۔پچھلے چند ماہ سے نرسنگ ہوم میں ہیں ۔ ترانوے برس کی ہوگئی ہیں اور الزائمر کی مریضہ ہیں ۔ نہ زندوں میں نہ مردوں مچیں ، کسی کو پہچانتی ہی نہیں ۔ مجھے دیکھتی ہیں تو مجھے اپنی ماں سمجھتی ہیں ۔ انکی باتیں سنکر میں سخت ہیجان میں آجاتی ہوں ۔وہ میرے سامنے چھوٹی سی بچی بن جاتی ہیں ۔ جب میں انکو بتاتی ہوں کہ میں آپکی بڑی بیٹی لنڈا ہوں ۔ تو انہیں کچھ یاد نہیں آتا اور ناراض ہوجاتی ہیں۔ اسقدر دکھ اور صدمہ ہوتا ہے ۔انسان کسقدر بے بس اور مجبور ہے ۔ کوئی انکی کچھ مدد نہیں کر سکتا نہ ڈاکٹر نہ دوا نہ ہی کوئی علاج ہے۔
یہ سب بہت مشکل ہے ۔بے حد مشکل ہے ۔ کاش ، اے کاش کہ مام کو اب موت آجائے ۔ مام کو اب مر جانا چاہئے ۔ ” لنڈا نے پتھرائی ہوئی آنکھو ں سے مجھے دیکھا ۔
میں اسقدر دل برداشتہ ہوئی ،اسے ادائیگی کی اور رخصت ہوئی ۔ اور پھر بعد میں پچھتاوا ہوا کہ کیوں خریداری کی ۔۔
شام کو راشد بھائی کی طرف کافی عرصے کے بعدجانا ہوا، انکی بہو نے کھانے پر مدعو کیا تھا ۔رضیہ بھابھی کو جب سے سٹروک ہوا تھا وہ بالکل بستر سے لگ گئی تھیں کیا زندہ دل اورمحفلوں کی شوقین خاتون تھیں ۔انکو دیکھ کر تو دل کٹ کر رہ گیا ۔ بولنے کی کوشش میں عجیب عجیب خوفناک آوازیں نکال رہی تھیں ، چہرے کے آثار بتا رہے تھے جیسے پہچانتی ہوں ۔ ایک ہاتھ قدرے حرکت کر رہا تھا ۔ اجلے بستر پر صاف لبا س میں ملبوس تھیں ،روزانہ دو نرسیں دیکھ بھال کیلئے مقرر تھیں جو انکو صاف کرتیں اور کھانا وغیرہ کھلاتیں ایک صبح اور دوسری شام کو آتی۔ راشد بھائی نے اپنا بستر قریب ہی لگا یا تھا ۔
” بس انکی پٹی سے لگا بیٹھا رہتا ہوں انکو نظر انداز کرنا میرے نزدیک گناہ کبیرہ ہے ۔نرسوں کے ساتھ ساتھ لگا رہتا ہوں یا انکی نگرانی کرتا ہوں ۔نمازبھی
یہیں ادا کرتا ہوں ۔ صرف جمعہ پڑھنے مسجد جاتا ہوں ۔ انہوں نے میرے لئے اور میرے خاندان کے لئے بے حد قربانیاں دی ہیں ۔ سات بچوں کو پال پوس کر پڑھا یا لکھا یا ، میں تو بس کمانے میں ہی لگا رہا ۔میں نے فیصلہ کیا ہےکہ جب تک میں زندہ ہوں یہ گھر پر ہی رہینگی اور گھر پر ہی انکی دیکھ بھال کی جائیگی “ وہ بھابھی کی تعریف میں رطب اللسان تھے ۔دونوں پچاسی چھیا سی عبور کر چکے تھے ۔
”آپ کو اللہ تعالی نے انکی دیکھ بھال کیلئے صحت مند رکھا ہوا ہے “میں جذبات سے مغلوب بس اتنا ہی بول پائی ۔۔
ایک ہی روزمیں ، دو مختلف ثقافت سے تعلق رکھنے والی دو معمر خواتین کی معذوری اور مجبوری سے پر زندگی کی یہ افسوسناک صورتحال میرے دل کو لرزا رہی تھی ۔ لیکن ہم بے بس انسان محض اللہ تعالی سے دعا ہی کر سکتے ہیں ۔
یا اللہ یا رب العالمین یا ارحم الراحمین ہمیں ہر طرح کی ذہنی اور جسمانی معذوری سے محفوظ رکھ ،اے اللہ میں تیری پناہ مانگتی ہوں عاجزی اور سستی سے ، بزدلی اور ارزل العمر سے ( بڑھاپے کی ذلیل حدود میں پہنچ جانے سے)زندگی اور موت کے فتنوں اور عذاب قبر سے میں تیری پناہ مانگتی ہوں۔ یا اللہ چلتے پھرتے بغیر کسی مجبوری اور محتاجی کے ایمان پر خاتمہ بالخیر کردے ۔ آمین ثم آمین۔