Posted date: October 29, 2013In: Urdu Section|comment : 0
افتخار حسین جاذب
اللہ تعالیٰ سورت المائدہ کی آیت نمبر 82 میں فرما تے ہیں “مسلمانوں کے ساتھ دشمنی میں سخت یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی میں قریب وہ ہیں جو کہتے ہیں ہم نصارہ ہیں۔ کیونکہ ان میں راہب بھی ہیں اور عالم بھی ہیں اور وہ غرور نہیں کرتے”۔ قرآن کریم کی یہ آیت ہمیں عیسائیوں کے ساتھ نہ صرف امن کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتی ہے بلکہ ان سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ تنہا یہی آیت تحریکِ طالبان کی گمراہ کن سوچ کی نفی کرنے کے لیے کافی ہے۔ پشاور کے چرچ پر حملہ خواہ تحریکِ طالبان نے نہیں کیا تا ہم اس حملے کی حمایت کرنا اور شرعی طور پر اِسے ایک درست فعل قرار دینا صریحاً غلط ہے۔ اس حملے میں بے گناہ بچوں اور عورتوں کے قاتل قرآن اور نبی کریم ﷺ کی سخت نافرمانی کے مرتکب بھی ہوئے۔
ملک بھر کے سبھی مسالک کے علماء نےتحریکِ طالبان کے اس موقف کو رد کیا ہے کہ عیسائیوں اور ان کے گرجا گھر پر حملے کرنا شریعت کے مطابق ہے۔ سنی اتحاد کونسل، جمیعتِ علماء ِ اسلام (ف)، جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی اور دینی جماعتوں اور اداروں کے رہنماؤں نے پشاور کے گرجا گھر پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ان حملوں کو غیر اسلامی قرار دیا۔ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام اقلیتوں کو بالعموم اور اہلِ کتاب کو بالخصوص امن کی ضمانت دیتا ہے اور ان کی جانوں اور عبادت گاہوں کے تحفظ کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ان علماء کا یہ متحدہ فتویٰ ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردوں نے پشاور کے گرجا گھر پر حملے کر کے ایک غیر اسلامی اور غیر انسانی جرم کا ارتکاب کیا۔
سورۃ الحج کی آیت نمبر 40 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ” اگر ہم ایک کو دوسرے کے ذریعے سے نہ روکے رکھتے تو خانکاہیں، گرجا گھر، یہودی معابد اور مسجدیں جہاں اللہ کا نام لیا جاتا ہے کب کےگرائے جا چکے ہوتے” قرآن کی یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ اللہ کو ہر گز مقصود نہیں کہ مسلمان دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچائیں یا ان پر قبضہ کر لیں۔ بلکہ اللہ انسانوں کو ایسا کرنے سے اپنی قدرت اور رحمت کے ذریعے روکے ہوئے ہیں۔ لہذا اسلام کا اصل درس سبھی مذاہب کی عبادت گاہوں کا تقدس اور تحفظ ہے اور شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ انہیں حملوں کا نشانہ بنایا جائے۔ پشاور کے گرجا گھر پر حملہ اور معصوم بچوں اور عورتوں کی ہلاکت کو جائز قرار دینے والے دہشت گرد اسلام، قرآن اور نبی کریمﷺ کے احکامات کی یا تو خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے یا پھر ان سے آگاہی ہی نہیں رکھتے۔
نبی کریمﷺ نے عیسائیوں سے دوستی، تعاون اور امن کا رویہ برتا۔ درحقیقت مسلمانوں کی پہلی پناہ گاہ ایک عیسائی حکمران ہی بنا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں نے نبی کریمﷺ کی ہدایات پر پہلی ہجرت حبشہ کی طرف کی ۔ وہاں کے عیسائی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو کفارِ مکہ کے مظالم سے مکمل تخفظ فراہم کیا ۔ جب نجران کے عیسائی نبی کریمﷺ سے دین کے معاملات پر بحث کرنے کے لیے مدینہ آئے تو آپ ﷺنے انھیں اپنی مسجد میں تین دن ٹھہرایا۔ آپ ﷺ نے انھیں مسجدِ نبویﷺ میں اپنی عبادت کرنے کے لیے جگہ بھی مہیا کی۔ ان عیسائیوں کی درخواست پر نبی کریمﷺ نے انھیں امن کے معاہدے کے ساتھ مدینے سے رخصت کیا۔ نبی کریمﷺ کا یہ طرزِ عمل ہم سب کے لیے رہنما ہے اور اسلام میں عیسائیوں کے مقام کو اُجاگر کرتا ہے۔ یہ حقائق بھی تحریکِ طالبان کے ظلم پر مبنی خیالات اور اعمال کو رد کرتے ہیں۔
دہشت گرد ملک بھر میں خودکش حملوں سے مسجدوں کو تباہ کر رہے ہیں اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ پشاور کے گرجا گھر پر حملہ انہیں مظالم کا شاخسانہ ہے۔ مسلمان اور غیر مسلم مساوی طور پر ان کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل علماء اور عام مسلمانوں کے لیے بھی کبھی قابلِ قبول نہیں رہا۔ تا ہم جہاں عام مسلمان آئے روز دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں وہیں اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں۔ عیسائیوں اور ان کی عبادت گاہوں کا جو تقدس اسلام میں ہے وہ بیت المقدس کی فتح کے وقت حضرت عمرؓ کے طرز عمل سے صاف عیاں ہوتا ہے ۔ وہاں کے عیسائیوں نے آپ کو دعوت دی کہ آپ ان کے گرجا گھر میں نماز ادا کر لیں مگر آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرے اس عمل کو حجت بنا کر مسلمان اس گرجے کو زبردستی مسجد نہ بنا لیں ۔ تحریکِ طالبان کے رہنما ہوش کے ناخن لیں اور اس گمراہی سے باہر نکلیں جس میں وہ بھٹک رہے ہیں۔
حکومت نے دہشت گردوں کو امن کے مذاکرات کی پیش کش کر رکھی ہے اور حال ہی میں دیوبندی مسلک کے اکابرین نے بھی اللہ اور رسولﷺ کےنام پر دہشت گردی کو ترک کر نے اور امن کی کوششوں کو کامیاب کرنے کی اپیل کی ہے۔ بہتر یہی ہو گا کہ دہشت گرد ہیلابازیوں اور ناقابلِ قبول شرائط عائد کرنے کی بجائے خلوص کے ساتھ اس عمل کا حصہ بنیں اور امن کے قیام کے اس موقع کو نہ گنوائیں۔ دیوبندی علماء کو بھی چاہیے کہ وہ قبائلی علاقے کے لوگوں کو قائل کریں کہ پاکستان میں علماء اور مدارس کو کوئی خطرہ نہیں۔ جہاں تک بات شریعت کے نفاذ کی ہے تو پاکستانی آئین اس کی مخالفت نہیں کرتا اور اس ضمن میں پُر امن بات چیت کے ذریعے فیصلہ ہو سکتا ہے۔ ہم اللہ اور رسولﷺ کے نام پر علماء سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سامنے آ کر اپنا مثبت کردار ادا کرے تا کہ مسلمان آپس کے قتل خون سے محفوظ ہو سکے۔