اظہار ِ رائے کی آزادی کے نام پر۔۔ ملکی وقار کی دھجیاں؟
Posted date: January 15, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
پاکستانی سماج کی طاقت‘ بلکہ شتر بے مہار طاقت کا ایک اور ستون ’پاکستان کا آزاد میڈیا‘ملکی آزاد ذرائع ِ ابلاغ کے سبھی میڈیم‘ خصوصاً الیکٹرونک میڈیم نے اپنی اختیار کردہ ’آزاد‘ پالیسی کے کوئی تنظیمی یا ادارہ جاتی اُصول و ضوابط اور نظریات بنائے یا یونہی اخلاقی اُصول وضوابط وضع کیئے بغیر دھواں دھار آزاد ی کا اپنایہ سفر جاری رکھا ہوا ہے؟ایسا صرف ہم اکیلے ہی نہیں سوچ رہے پوری قوم سوچ رہی ہے، صحافتی آزادی کے نام پر قائم جتنی بھی مرکزی یا علاقائی تنظیمیں اپنا وجود رکھتی ہیں اِن صحافتی تنظیموں نے پاکستان جیسے نظریاتی ملک کے ذرائع ِ ابلاغ میں چاہے اُن کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکٹرونک میڈیا سے‘ملکی ذرائع ِ ابلاغ کے اِن اہم اور بڑی حد تک ’حساس‘ شعبوں کے لئے اپنی ماہرانہ خدمات پیش کرنے والوں کی نگرانی کے لئے یا اِن کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو پر کھنے اور جانچنے کے لئے اب تک کوئی ایسا موثر، غیر جانبدار اور با صلاحیت کنڑولنگ سسٹم کیوں نہیں بنایا؟ اگر کہیں ایسا کوئی موثر نگرانی کا یا پوچھ گوچھ کا کوئی سسٹم موجود ہے یا ہوگا تو پھر کیا وجہ ہے لوگ باہم ایسی گفتگو کرتے کیوں پائے جاتے ہیں کہ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا کی آزادی نے ملکی سماج کی نظریاتی و معاشرتی قدروں کو بُری طرح اتھل پتھل کرکے رکھ دیا ہے خاص کر مڈل کلاس سوسائٹی کے گھرانوں کی سماجی تقریبا ت کے رنگ ڈھنگ کے طور طریقے اور ثقافتی روایات میں ’ہندوانہ‘ انداز رچنے بسنے لگے ہیں، صاف محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستانی سماج کے قلب ونظر کو نشانے پر رکھ کر گھائل پر گھائل کیا جارہا ہے،
یہاں ہمیں پاکستانی میڈیا کی اُس مقتدر طاقت کا مظاہرہ کیوں دکھائی نہیں دیتا جو بے باکی کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر غیر ملکی سماجی و ثقافتی پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب د ے سکے ہمارا نجی میڈیا صرف اِس ایک کام کے لئے باقی رہ گیا ہے کہ وہ پاکستانی نظریاتی سماج اور پاکستانی سلامتی کے اداروں کے خلاف پھیلائے گئے مغربی پروپیگنڈوں کے ’فالواَپ‘ کو اپنے زہریلے اور ذو معنی فقروں میں ملفوف کرکے‘ پاکستانی قوم کی سوچوں میں انتشار اور تفکرات کے سا یوں کو راسخ کرئے کہتے ہیں کہ بندشوں سے آزاد پریس کا مطلب یہ ہے کہ کھل کر بولنے کا حق جمہوری معاشروں کی پہچان ہوتا ہے مانتے ہیں کہ یہ سچ ہے یقینا اِس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیئے، مگر یہ حقائق کون مانے گا؟ کہ ذرائع ِ ابلاغ کی آزادی کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ قومی ثقافتی اور ملکی سلامتی کی اہم ذمہ داریاں پوری نہ کی جائیں، یادرہے پاکستان ترقی پذیر ملک ہے اپنے قیام سے آج تک پاکستانی ملک اور قوم کو ہمہ وقت ا پنی جغرافیائی و نظریاتی سلامتی کے تحفظ کا سنگین چیلنج در پیش رہا ہے ایک طرف مغربی ممالک سمیت امریکا بہادر اور برطانیہ نے اپنی خود غرضانہ ضرور یات کی تکمیل کے لئے کبھی پاکستان کی طرف دوستی کے ہاتھ بڑھائے کبھی کھل کر پاکستان کی مخالفت کا معاندانہ سفارتی سلسلہ بھی جاری رکھا، دوسری طرف بھی یہ ہی وہ طاقتور عالمی قوتیں تھیں، جن کی پشت پناہی حاصل کر کے تقسیم ِ ہند کے مخالف ملک بھارت نے اِس خطے کے ’پولیس مین‘ کا رول ادا کرنے کے لئے ہر ا یسے جتن کیئے جو ہمارے لئے مستقلاً ہمارے لئے درد ِ سر بنے ر ہے آج تک ایسی ہی تشویش ناک صورتحال ہماری دونوں جوانب کی سرحدوں پر منڈلا رہی ہے 9/11سے قبل ہمیں اپنی مشرقی سرحدوں پر خطرہ تھا آج ماشاء اللہ! امریکا کی بڑھتی ہوئی بھارت نوازیوں کی وجہ سے ہماری مغربی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو چکی ہیں ملک کے قبائلی علاقوں سے ملحق پاک افغان سرحدوں سے متصل بھارتی آشیر باد اور عسکری تربیت یافتہ ملافضل اللہ گروپ کے مسلح دہشت گردوں نے پاکستان کی قیمت پر اپنی انتہا کی دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا ہے، ملکی تحفظ داؤ پر لگا ہوا ہے، جبکہ ہمارا میڈیا دہشت گردوں کے خلاف عوامی رائے ِ عامہ کی رہنمائی کرنے کی بجائے ملکی سیکورٹی اداروں کے خلاف ہمیں یکسو اور متحد نظر آتا ہے؟ پاکستانی میڈیا کو ’آزادی‘ کا جو عظیم رتبہ ملا ہوا ہے نجانے کیوں اور بلاوجہ یہ ملکی نجی میڈیا اپنے آپ کو ہمہ وقت خوفزدہ سمجھتا ہے،اپنی آزادی کے حقوق وفرائض کی بجاآوری کا خیال رکھنے کی بجائے اِن حقائق کو ماننے کے لئے خود کو تیار نہیں کرتا کہ حکمرانوں کی طرح وہ خود بھی انسان ہیں حکمران اگر غلطیاں کرتے ہیں تو اُن سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ایک درجن سے زائد نجی الیکٹرونک میڈیا کے ملکی وغیر ملکی پالیسی سازوں کو سمجھنا چاہیئے کہ ’آزادی ٗ ِ اظہار کے اصول کی ہمہ گیر قوت کا اندازہ وہ خود کب کریں گے دنیا کے ہر ملک کے دستور میں اظہار ِ رائے کی آزادی کی حفاظت اور بقا ء کی ضمانت دی گئی ہے لیکن قطعی آزادی دنیا میں نہ کبھی رائج ہوئی نہ کبھی ہوگی صاف سیدھا سادا کلیہ ہے ’ہر آزادی کے ساتھ کچھ نہ کچھ پابندیاں ضرور ہوتی ہیں یہ پابندیاں نہ ہوں تو انسانی معاشرے نہ متحد ہوسکتے ہیں نہ مستحکم‘معاشروں میں انارکی پھیلے گی، معاشرے درہم وبرہم ہوجائیں گے،
یاد رہے مادر پدر آزادی میں صورتحال اَتنی ابتر ہوجائے گی کہ انسان انسان کو جینے نہیں دے گا‘ یہ پابندیاں نہیں‘ بلکہ اصول وضوابط کہلاتے ہیں مقصد ہوتا ہے کہ معاشرے کا امن وامان قائم رہے اخلاقی‘ ثقافتی‘ نظریاتی‘ سماجی ومعاشی اقدار کو ٹھیس تک نہ پہنچے اظہار ِ رائے کی آزادی کے اِن اصولوں وضوابط میں قانونی اُصول وضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے میڈیا پرسنز کا قانونی مواخذہ بھی ہوتا ہے ایسے افراد چاہے کتنے ہی ’معزز و نامور‘ کیوں نہ ہوں ملک و قوم کی نظروں میں وہ اپنا وقار کھو بیٹھتے ہیں یہ مقام افسوس ہے گزشتہ 65 برس اسی اُدھیڑ بن میں گزر گئے الیکٹرونک میڈیا کے ’نان سیریس اور غیر ذمہ دار حلقوں کے پاس کبھی فوجی’طالع آزماؤں‘ کا ماتم ہو تا ہے یا کبھی نا اہل جمہوری حکمرانوں کی ’بیڈ گورنس‘ کی دوہائی، بڑا شور ہوتا ہے کہ پاکستان میں چار فوجی ”ڈکٹیٹر“آئے ایوب خان‘ یحیٰ خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف یہ فوجی حکمران ضرور بنے اِنہیں زیادہ سے زیادہ ’طالع آزماء‘ کہہ لیجئے یہ ’ڈکٹیٹر‘ نہ کبھی تھے نہ رتی برابر اِن میں ’ڈکٹیٹر بننے کی کو ئی ہمت وجراّت کبھی تھی، اصل میں یہ چاروں فوجی حکمران ’اصلاح پسند‘ کہے جاسکتے ہیں ’اصلاح پسند‘ بھی ناکام،جنہوں نے اقتدار میں آتے ہی سیاست دانوں کے کندھوں کو استعمال کیا اور اپنے ذاتی اقتدار کو طوالت بخشی ملکی معیشت کا بیڑا غرق کرنے میں اپنا نام لکھوا یا اور بڑی حد تک ملک کو بدنا م بھی کیا براہ کرم خدا وند تعالیٰ سے پناہ طلب کریں کہ اِس ملک ِ خداداد میں کسی صبح کو حقیقی اور صحیح معنوں کے کسی واقعی ”ڈکٹیٹر‘ کا”جلوہ“ پاکستانی عوام کو یکھنا نہ پڑ جائے یہ موضوع اپنی نوعیت کی علیحدہ تفصیلی وتاریخی حقائق کی بحث کا متقاضی ہے وقت ملا تو کبھی اِس موضوع پر ضرور بحث کی جائے گی یہاں صرف اِتنی سی گزارش ہے ’ہمارے میڈیاہاؤسنز کے مالکان اور پالیسی ساز عہدیدار اُن ملٹی نیشنل تجارتی اداروں سے اربوں روپے کے اشتہارات کی آڑ میں ملک دشمن معاندانہ ’ڈکٹیشن‘ لینے کی اپنی وطن فروشانہ پالیسیوں پر فی الفور نظر ِ ثانی فرمائیں۔