Posted date: November 14, 2013In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
طالبان پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے ایک ایسا امتحان بنے ہوئے ہیں، ایک ایسی آزمائش ہیں کہ نہ گولی سے ٹل رہے ہیں نہ دُعا ان پر کارگر ہورہی ہے اور نہ ہی اِن پر کوئی دلیل اثر کر رہی ہے ۔ قرآن و حدیث اور دین اسلام کا نام لے کر یہ فساد فی الا رض بھی بر پا رکھتے ہیں اور انسان کا خون بھی یوں بہاتے ہیں جیسے پانی، ان کے نزدیک اِن کے علاوہ ہر انسان کا قتل جائز ہے اس میں نہ مرد اور عورت کی تخصیص ہے اور نہ بچے اور بوڑھے کی بلکہ مسلمان اور غیر مسلمان ہونا بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ ایک مسلمان کے اوپر تو بے گناہ غیر مسلم کا خون بھی حرام ہے کجا کہ وہ تکبیر کے لیے ہاتھ اُٹھائے ہوئے نمازیوں کو شہید کردے ،جنازے کا فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے مسلمانوں کو شہید کردے، وہ اولیاء اللہ کے مزرات کو بموں سے اس لیے اڑادے کہ اُس کا مسلک اُن سے جدا ہے۔خود کو مسلمان کہنے والے اور بات بات میں قرآن و حدیث کا حوالہ دینے والے خدا کے گھر وں کو گولیوں او ر بموں سے چھلنی کر دیتے ہیں یہاں تک کہ لوگ مسجد میں نماز کے لیے جانے سے پہلے سوچنے لگے ہیں اور ستائس گنا ثواب کی خوشی جان بچانے کی فکر کے آگے ماند پڑجاتی ہے۔
پھر کیسے اِن قاتلوں کے مرنے پر اِ ن کو شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز کر دیا جائے اگر چہ یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے کسی انسان کا نہیں کہ کون شہید ہے اور کون ہلاک لیکن وطن کی حفاظت کی خاطر جان دینے والوں کو یوں بے تکریم کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ سید منور حسن امیر جماعت اسلامی نے افواج پاکستان اور عوام پاکستان کے جذبات کو جس طرح ٹھیس پہنچائی ہے قوم کو اس کی توقع ہر گز نہ تھی۔ دہشت گردی اور طالبان سے متعلق خیالات پر یوں بھی جماعت اسلامی اکثر و بیشتر تنقید کا نشانہ بنی رہتی ہے کہ وہ دھماکوں اور دہشت گردی کی کھل کر مذمت نہیں کرتی یہ پارٹی نکتہ نظر ہے یا رہنماؤں کے خیالات لیکن بہر حال قوم کی دل آزاری کی گئی اور شدید کی گئی اور جب آئی ایس پی آر کی طرف سے اس پر احتجاج کیا گیا تو بجائے اس کے کہ جماعت اسلامی کے امیر اپنا بیان واپس لیتے یا اس پر کسی پشیمانی کا اظہار کرتے جماعت نے اس پریس ریلیز پر تنقید کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ فوج کو ایسا بیان دینے کا کوئی حق نہیں کہ کسی سیاسی پارٹی کے رہنما سے وضاحت طلب کرے انہوں نے اس پریس ریلیز کو سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت قرار دیا۔ تو اس طرح سے کسی سیاسی پارٹی لیڈر کو فتویٰ دینے کا حق کیسے حاصل ہوا کیا وہ اس سلسلے میں اپنی کوالیفیکیشن سے عوام کو آگاہ کر سکتے ہیں اور کیا فوج کی بے عزتی کرنے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے لیکن فوج کو جواب دینے کا نہیں۔
جماعت اسلامی کے تعلقات فوج سے کبھی کشیدہ نہیں رہے بلکہ عزت و احترام کا ایک رشتہ قائم رہا لیکن منور حسن صاحب نے فوج کی قربانیوں اور وفاداریوں کو امریکہ کے نام کرکے ایک بُری روایت کی بنیاد رکھی ہے حالانکہ وہ جانتے بھی ہیں کہ ہر پاکستانی فوجی ایمان اور تقویٰ کے ہتھیار لے کر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلتا ہے اور آج اگر ہم اور ہمارے وی آئی پیز اپنے گھروں میں زندہ سلامت بیٹھے ہیں تو یہ انہی شہیدوں کے طفیل ہے چاہے وہ فوجی وردی میں ہوں یا پولیس کی وہ ہی اِن طالبان کے بھیجے ہوئے خودکش بمباروں سے ٹکراتے ہیں اور ملک اور عوام کو بڑی بڑی تباہیوں سے بچاتے ہیں۔ جماعت اسلامی اگر چہ اب شہداء کی قربانیوں کا ذکر بھی کر رہی ہے اور ان کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار بھی تا ہم اس بیان کو واپس نہیں لیا جا رہا جس نے عوام اور فوج دونوں میں بے چینی پیدا کی ہے جو صرف ایک صورت میں ختم ہو سکتی ہے کہ اس بیان پر معافی مانگی جائے۔ فوج کو اگر اپنے دفاع کا حق بھی نہ دیا جائے اور حکومت و پارلیمنٹ بھی اس کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کرے تو فوج کو تو اپنے جوانوں کا مورال بلند رکھنا ہی ہے اگر ان کی شہادت کو مشکوک بنا دیا جائے تو آخر یہ فوجی جوان کس لیے سروں سے کفن باندھیں کیونکہ یہی یقین ہی تو ہے کہ یہ فوجی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنی جانیں دے رہے ہیں اور اللہ کے فرمان کے مطابق جو اُس کی راہ میں مارا جائے وہ مردہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے ہاں سے اپنا رزق پارہا ہے۔ منورحسن نے تو جو کہا وہ قابل مذمت ہے ہی اور فوج کے مورال پر ایک حملہ بھی لیکن آخر یہ سب ہوا کیسے، کیوں بار بار اس بحث کو اُچھالا گیا ، کیوں اس موضوع پر انٹر ویو کیے گئے اور ایسے سوالات کیوں بار بار پوچھے گئے کہ ایک تنازعے نے جنم لیا اگرچہ یہ درست ہے کہ منورحسن نے حکیم اللہ کو شہید کہہ کر ہی ایک تنازعے کو جنم دے دیا تھا کہ وہ شخص جو ایک مسلمان ریاست میں فساد پیدا کرتا تھا ،بے گناہ راہگیروں کو قتل کرتا تھا اور اس کے پیرو کا ر اب بھی ایسا کر رہے ہیں اور ایسا کرنے کی تیاری بھی کر رہے ہیں ریاست کو چیلنج کر رہے ہیں پھر کیسے ایک قاتل ایک فسادی جب مارا گیا تو شہید ہو گیا امریکہ کی مخالفت اپنی جگہ اور مجھ سے بڑھ کر شاید کوئی امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف نہ ہوگا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے، امریکہ کی مخالفت اور چیز ہے اور اپنے لوگوں کو بے وقار کرنا اور بات اور وہ بھی ایک اہم سیاسی جماعت کے سربراہ کی طرف سے، کیا ہمارے سیاستدان اپنے الفاظ کو بولنے سے پہلے تولنے کی روش اپنا ئیں گے تاکہ ملک میں ایسی صورت حال جنم ہی نہ لے جو مصائب میں مبتلاء پاکستان کو مزید مسائل میں الجھائے۔ میں نے تو اس مضمون کو لکھنے سے پہلے بھی کئی بار سوچا اور ارادہ ملتوی کر دیا کہ نان ایشوز کو ایشوز کیوں بنایا جائے،
سب ہی جانتے ہیں کہ شہید کون ہے اور ہلاک کون لیکن مجھے اپنے معزز قارئین کی ای میلز اور پیغامات کی وجہ سے اس موضوع پر قلم اٹھانا ہی پڑا اور میرا اس موضوع پر دوبارہ لکھنے کا ارادہ بھی نہیں جب تک کہ خدانخواستہ اس مسئلے کو اور نہ الجھایا جائے اور میری تمام لکھنے والوں اور ’’بولنے والوں ‘‘ سے بھی یہی درخواست ہے کہ ملک میں حقیقی مسائل حل کرنے کی کوشش کریں نہ کہ دوسرے مسائل اٹھا کر ان پر وقت ضائع کیا جائے۔قومی سلامتی کے اداروں کے اہلکار طالبان کو پاکستان کا دشمن، فسادی اور اسلام کی بدنامی کا باعث سمجھ کر ہی ان سے نبرد آزما ہیں۔ حکومت کا نظریہ وہ بدل نہیں سکتے اور وہ بھی یہ جانتے ہیں اور پوری قوم، سیاسی جماعتیں اور خود جماعت اسلامی بھی جانتی ہے کہ ان طالبان اور دہشت گردوں کو امداد کہاں سے ملتی ہے ان کو اسلحہ اور تربیت کون فراہم کرتا ہے لہٰذا فواج پاکستان کی شہادت کو مشکوک بنانا کہاں کا انصاف ہے اگر طالبان غیر مسلموں کے مقاصد بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی بھی طرح پورے کر رہے ہیں تو کیا ان سے جنگ جہاد نہیں اور کیا ان سے لڑنے والوں کی شہادت میں کوئی شک ہے۔ اللہ افواج پاکستان کے شہداء کی قربانی قبول فرمائے، ان کے درجات مزید بلند کرے اور اس مقدس خون کے صدقے اس مقدس سرزمین کی حفاظت کرے، آمین۔