Posted date: October 20, 2016In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
کشمیری ستر سال سے اپنی جدوجہد آزادی میں مصروف ہیں وہ 27 اکتوبر 1947 کی آنے والی تاریک رات کی سحر کرنے کے لیے چراغوں میں اپنا خون ڈال رہے ہیں لیکن چراغوں کی لو اٹھتی ہے تو قابض اور غاصب بھارت آزادی کے ان متوالوں کا مزید خون بہا دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ ان کو بجھانے کے کام آئے گا یہ اور بات ہے کہ لہو کے یہ چراغ اپنی لو اور بڑھا دیتے ہیں ۔ دہائیوں سے آگ اور خون کا یہ کھیل کشمیر میں جاری ہے اور عالمی طاقتیں اور اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنے اسے دیکھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اس سال چوبیس اکتوبر کو اپنی اکہترویں سالگرہ منا ئے گا اور اس نے دنیا میں امن کے لیے کئی ایک کام بھی کئے ہونگے اس نے اپنی امن فوج بھیج کر ملکوں کی خانہ جنگیوں کو ختم کیا یا وہاں کے باسیوں کو محفوظ کیا لیکن کشمیر کے بارے میں اس کے ریکارڈ پر ایسی کوئی چیز نہیں۔ ابھی ماضی قریب میں ایسٹ تیمور اور ساؤتھ سوڈان میں آزادی کی تحریکوں کو انجام تک پہنچا کر وہاں کے لوگوں کو خود مختاری دی گئی لیکن کشمیر اس سے زیادہ آبادی ہونے کے باوجود یہ توجہ حاصل نہیں کر سکا۔ اس کے ریکارڈ پر کشمیر میں استصواب رائے کرانے کی قرار داد سب سے پرانی قرارداد ہے۔ 21 اپریل 1948 کو فائل ہونے والی اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 47 آج بھی لاگو ہونے کی منتظر ہے اور کشمیر کی تین چار نسلیں اس انتظار میں جوان ہو کر بوڑھی ہو چکی ہیں لیکن اس خوبصورت ترین خطے کے لوگ غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔وہ 27 اکتوبر کو ڈوگرہ راجہ ہری چند کے اُس ظلم کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہیں جب اُس نے مسلم اکثر یتی ریاست جموں و کشمیر کا اپنی خواہشات کے تحت ہندو ملک بھارت سے الحاق کیا تھا اور ظلم کی اس عظیم دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ کشمیری اُس وقت سے اب تک لاکھوں جانوں کی قربانی دے چکے ہیں لیکن افسوس کہ عالمی برادری مسلسل اُن کے حق آزادی سے صرف نظر کر رہی ہے۔ اقوام بھی قراردادیں منظور کرنے کے بعد بھول چکا ہے کہ یہاں انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک ہو رہاہے۔ بھارت طاقت کے نشے میں مست انسانیت کا قتل عام کر رہا ہے وہ نہ تو ستاسی سالہ سید علی گیلانی کو بخشتا ہے اور نہ بارہ سالہ ساتویں جماعت کے معصوم طالبعلم جنید کو، اس کے لیے انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں تبھی تو وہ شکاری بندوقیں انسانوں پر استعمال کر رہا ہے اور پھر اپنے ہاں ہونے والی دہشت گردی کو پا کستان سے منسوب کر دیتا ہے حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ وہ لوگ اس کا بدلہ نہیں لیں گے اور بہت دفعہ تو بات اُن کے بدلے تک بھی نہیں پہنچتی بھارت سرکار اور اس کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی’’ را‘‘ خودہی ایسے منصوبے بنا لیتی ہے اور ان پر عمل کر کے الزام پاکستان پر رکھ دیتی ہے اور پھر دنیا کے سامنے اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی نے نہ صرف کشمیریوں کی زندگی مشکل بنائی ہوئی ہے بلکہ خطے میں بھی کبھی امن قائم ہونے نہیں دیا اسی مسئلے کی بنیاد پر کئی پاک بھارت جنگیں ہو چکی ہیں اورمزید جنگوں کا خطرہ ہر وقت موجود ہے، اسی مسئلے نے اسلحے کی دوڑ کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے اور بھارت اپنے اسلحے کے ڈھیروں میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے، اسی کشمیر کے مسئلے نے پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازعے کو جنم دیا ہے۔ پنجاب کے تمام دریا کشمیر سے ہوکر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں لیکن بھارت اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا پانی جب چاہے روک دیتا ہے اور جب چاہتا ہے ان پر ڈیم بنا کر، بند باندھ کر اپنے ہاں تو پن بجلی کے منصوبے بنا لیتاہے لیکن پاکستان کے لہلہاتے کھیتوں کو بنجر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابھی حالیہ تناؤ میں بھی بھارت نے اپنے نیچ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دھمکی دی کہ وہ پاکستان کا پانی بند کر دے گا اور اگر چین درمیان میں نہ آتا تو شاید بھارت اپنی کمینگی کا اظہار کر چکا ہوتا۔ کشمیر صرف ایک مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام مسائل کی جڑ ہے اور اسی لیے پاکستا کا یہ مطالبہ بالکل منطقی ہے کہ بھارت کشمیر پر سب سے پہلے بات کرے کیونکہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے۔ تقسیم ہند کے وقت وقتی مسائل تو بلاشبہ موجود تھے لیکن ریڈ کلف کی تاریخی بددیانتی اور ہندو انگریز گٹھ جوڑ نے اس بڑے اور طویل المدت مسئلے کو جنم دیا جس نے ان وقتی مسائل کو بھی طویل کیا لیکن آج بھی اگر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے پر توجہ دی گئی تو برصغیر میں امن قائم ہونے کی قابل عمل صورت نکل آئے گی لیکن ایسا نہ ہو رہا ہے اور نہ ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ بھارت کُھل کر کھیل رہا ہے اور عالمی طاقتوں کی خاموشی اور مجرمانہ غفلت اس مسئلے کو مزید الجھا رہی ہے اور دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔ اس وقت سرحدوں پر جو صورت حال ہے اس کا کلی طور پر ذمہ دار بھارت ہے اور بھارت اس کا اعتراف بھی کر رہا ہے چاہے وہ بڑھک ہی کیوں نہیں مار رہا لیکن سرجیکل سٹرائیک جیسے جرم کا اعتراف کر رہا ہے یعنی سرحدوں کے اندر آکر کھلم کھلا دہشت گردی، اگر چہ وہ پہلے بھی سرحدوں کے اندر آکر دہشت گردی کرتا ہے لیکن چور ی چھپے کبھی افغانستان کے راستے کبھی بلوچستان کے اندر چوروں کی طرح آتا ہے اور دہشت گردی کر کے چلا جاتا ہے لیکن الزام وہ پاکستان پر لگاتا ہے ۔ اس وقت اس کا دہشت گرد وزیراعظم خود اور اس کے تمام نتہا پسند ہندو حمایتی دیوانگی کی حد تک پاکستان دشمنی میں مبتلا ء ہو چکے ہیں لیکن کشمیری اس سب کچھ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں وہ 27 اکتوبر 1947 کو شروع ہونے والی اس سیاہ رات کو ختم کرنے کے لیے ہر صورت پُر عزم ہیں تاکہ ان کی آنے والی نسلیں ہندو بھارت کی غلامی سے محفوظ رہ سکیں۔