ایف سی اہلکاروں کا بہیمانہ قتل دہشت گردوں کی سفاکی کا ثبوت
کالعدم تحریکِ طالبان مہمند ایجنسی نے 23 ایف سی اہلکار شہید کر دیئے۔ اس گروہ نے مبینہ طور پر ایک خط اور ویڈیو پیغام کے ذریعے جون 2010 میں شونگڑی پوسٹ سے اغواء
کیے جانے والے 23 ایف سی اہلکاروں کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی دعوی کیا ہے کہ انھیں طالبان کے ساتھیوں کے قتل کے بدلے میں مارا گیا ہے۔ کالعدم تحریک کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کے 23 اہلکاروں کو طالبان کے 23 لوگوں کے بدلے مارا گیا ہے جن میں سے 16 لوگوں کے سکیورٹی فورسز نے نوشہرہ میں جبکہ 7 لوگوں کو کراچی میں قتل کیا ۔ ایف سی کے اہلکاروں کی شہادت کے بعد حکومت اور تحریکِ طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہو گئے ہیں جبکہ دوسری طرف سیکورٹی حکام نے تحریک طالبان کے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے جس میں انھیں مودِ الزام ٹھہرایا گیا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھیوں کو بے رحمی سے قتل کر کے پھینک رہے ہیں۔ سیکورٹی حکام کے مطابق طالبان دہشت گرد اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کے لیے جھوٹے جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایف سی اہلکاروں کا قتل قابلِ مذمت اور اشتعال انگیز ہے۔ تحریکِ طالبان کے اس وحشیانہ عمل کی ہر سطح پر مذ مت کی جا رہی ہے۔
حکومت اور تحریکِ طالبان کے درمیان امن مذاکرات شروع ہوئے تو ہر ذی ہوش نے سکھ کا سانس لیا کہ شاید اب ان گنت دھماکوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ رک جائے گا۔ لیکن یہاں تو یہ سلسلہ رکنے کے بجائے امن مذاکرات کے ساتھ دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا ۔ مغوی ایف سی اہلکاروں کی شہادت کے بعد حکومت کمیٹی نے طالبان کمیٹی سے طے ہونے والی ملاقات ملتوی کر دی اور طالبان سے وضاحت طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور طالبان کمیٹی کا آپس میں اتفاق ہوجانے کے بعد کہ اس طرح کی وحشانہ کاروائیوں سے اجتناب کیا جائے گا پھر کراچی میں پولیس اہلکاروں اور اب مغوی ایف سی اہلکاروں کا قتل ناقابلِ فہم ہے۔ جب سے امن مذاکرات شروع ہوئے ہیں تب سے دہشت گردی کی کاروائیوں میں تیزی آ گئی ہے۔ عام شخص حیران و پریشان ہے کہ امن مذاکرات کے باجود اتنی کاروائیاں کیوں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔
ایف سی اہلکاروں کے بہیمانہ قتل سے بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے۔ اس سے قبل بھی پشاور کے سینما گھروں میں پے در پے حملے کیے گئے لیکن تحریکِ طالبان نے ان حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ جبکہ ان حملوں کی ذمہ داری جند اللہ نامی ایک گروہ نے لی ہے۔ طالبان کی قیادت کی طرف سے یہ بیان آیا ہے کہ ان کا اس گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لیکن پھر اچانک کراچی پولیس کی بس پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اس کے علاوہ اب ایف سی اہلکاروں کو شہید کرنے کی بھی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس کے باوجود طالبان قیادت کا بار بار بیان آ رہا ہے کہ وہ مذاکرات میں سنجیدہ ہیں اور مذاکرات کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں۔ اگر واقعی تحریکِ طالبان ان کاروائیوں میں ملوث نہیں ہے تو اسے اپنے ان گروپس کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے جو امن مذاکرات کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ اس کے علاوہ تحریکِ طالبان گروپ کو اپنے تمام نجی اور چھوٹے چھوٹے گروپوں کی آپس میں باہمی رضا مندی حاصل کرنے کے بعد امن مذاکرات کے لیے پیش رفت کرنی چاہیے تھی۔ طالبان ملک میں شریعت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں تو یہ کیسی شریعت اور اسلامی تعلیمات ہے جو قیدیوں کے ساتھ اسطرح کا نارواسلوک کی اجازت دیتا ہے ۔ ان کی کاروائیا ں خود ان کے قو ل و فعل میں تضاد کا واضح ثبوت ہیں۔
اگر طالبان مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں تو اس بات کا ثبوت دیتے ہوئے انھیں مکمل طور پر ایسی کاروائیوں سے اجتناب کرنا چاہیے جو امن مذاکرات میں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔امن مذاکرات کی کامیابی ایک ایسا خواب ہے جس کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی پڑیں گی۔ امن مذاکرات میں پیش رفت کے بعد سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی فوجی کاروائی نہیں کی گئی۔ اسی طرح تحریکِ طالبان کو بھی سکیورٹی اہلکاروں اور پاکستان کی معصوم عوام کے خلاف کاروائیاں جلد از جلد بند کر دینی چاہیے تا کہ امن کی جانب پیش قدمی جاری رکھی جا سکے۔
By Zaheerul hassan