Posted date: December 07, 2013In: Urdu Section|comment : 0
سیّد نا صررضا کاظمی
’دہشت گردی‘تشدد یا تشدد کی دھمکی کا نپاتلا استعمال‘ جو دباؤ ڈال کر‘جبرو خوف کا ماحول پیدا کرکے کبھی سیاسی مفادات کے نام پر‘کبھی فرقہ ورانہ آویزش کے انتشار کو ہوا دینے کے لئے یا کبھی عصبیتی نعروں کی آڑ میں اپنے مذموم اہداف حاصل کرنے کے لئے پورے سماجی انفراسٹریکچر کو متعصبانہ افراتفری کے اَن دیکھے خوف کی آماج گاہ بنا دیا جاتا رہا راولپنڈی کے فوارہ چوک پر 10 محرم یوم عاشورہ ایسا انسانیت کش ماحول پہلی بار نہیں دیکھا گیا ہے راولپنڈی میں 10 محرم یوم عاشورہ کے سانحہ کے گزرنے کے بعد اب جبکہ دوطرفہ غیض وغضب اور غصہ و تپش کا حساس پیچیدہ ماحول کافی حد تک ٹھنڈا ہونا شروع ہوا ہے ا ور جن کاروباری تاجر متاثرین کا اربوں روپے کا قیمتی سامان پل بھر میں اُن کی نگاہوں کے سامنے جل کر راکھ ہوگیا،اُن کی پوری مارکیٹ اِس ’سانحہ‘ میں کوئلہ ہوگئی 20-25 دن گزرچکے اِس سانحہ کو رونما ہوئے آجکل مدرسہ تعلیم القرآن مسجد کی تباہ شدہ (شہید) عمارت کی پشت پر جہاں اب صرف مٹی کا ڈھیرہے عسکری ادارے فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن FWO کی ایک مستعد ٹیم کی نگرانی میں شائد اِس عمارت کی بحالی کاکام ہورہا ہے راقم نے ذاتی طور پر اِس متاثرہ جگہ کا مشاہدہ کیا قرب وجوار کے لوگوں سے بات چیت کی جن میں کئی افراد ایسے بھی ملے جن کے احباب کی دکانیں اِس مارکیٹ میں تھیں جو اب نہیں ہیں اُنہیں اپنے جمع جمائے کاروبار کی بربادی پر بہت زیادہ دکھ تھا وقوعہ کی جگہ پر اگر جاکر دیکھا جائے تو پہلی ہی نظر میں ’دیکھنے‘ والی نگاہ بہت آسانی سے یہ بات سمجھ سکتی ہے کہ یہ ایک دوبرس کی بات نہیں‘ کئی دہائیوں کی بات ہے ہر بار 10 محرم کو ماتمی جلوس اِسی مسجد کے سامنے سے گزرتا ہے جب قدیم ماتمی جلوس فوارہ چوک پر پہنچتا ہے تو مقامی پولیس اور علاقہ کے معززین بلا امتیاز شیعہ وسنی اِسی مسجد کے نیچے کھڑے ہوجاتے ہیں ماتمی جلوس کی انتظامیہ کا اِس معززین شہر اور مقامی پولیس کے ساتھ مکمل رابطہ رہتا ہے اِس انتظام وانصرام کے پیرا میٹر میں ہر سال بغیر کسی رکاوٹ یا تلخی کے اپنے مقام پر جاکر اختتام پذیر ہوجاتا ہے ہر کسی کا یہ ہی شکوہ اور گلہ تھا کہ تھانہ گنج منڈی اور تھانہ صدر کی پولیس اِس سال کہا ں تھی؟ اِس سال تو ماتمی جلوس کو ملک بھر میں کئی طرح کے خطرناک چیلنجز تھے
پورے ملک میں اِس بار محرم بخیر وخوبی گزرا،پنڈی میں گزشتہ 60-65 کے دوران اِتنا بڑا سانحہ کبھی نہیں ہوا اِس بار یہ سانحہ کیوں اور کیسے رونما ہوا؟ اعلیٰ سطحی معزز فاضل عدالتی کمیشن اِس سانحہ کی تحقیقات کررہا ہے امید ہے یقینا وہ خفیہ ہاتھ ضرور بے نقاب ہونگے جن کے ہاتھ اِس سانحہ میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں قاتل زیادہ دیر چھپ نہیں سکتے راجہ بازار اور اِس ملحق تمام محلے داروں کا کہنا ہے اِس قدیمی مسجد میں واقعہ سے پیشتر کچھ ’نئے‘ نمازیوں کی آمد ورفت دیکھی گئی اِسی طرح سے جب یہ ماتمی جلوس ابھی فوارہ چوک پر ابھی اپنی نمازیں ادا کررہا تھا اِدھر مسجد میں خطبہ ختم ہوچکا تھا نماز ِ جمعہ شروع ہوچکی تھی چونکہ مسجد کا صحن کافی طویل تھا اِس لئے نماز کے لئے بھی لاوڈاسپیکر کا استعمال ضرور سمجھا جاتا ہے ادھر مسجد میں نماز ہورہی تھی کہ اچانک ماتمی جلوس میں شامل ’نئے چہروں‘ ماتمی نعروں کے ساتھ مسجد کی جانب بڑھے اور یوں مسجد کے فرنٹ کے درواز ے کے اوپر سے جوکہ راجہ بازار کی ڈبل روڈ طرف ہے وہاں اُوپر سے نیچے ماتم کرنے والے کے درمیان اچانک جھگڑا ہوا جبکہ کافی فاصلے سے بائیں جانب جہاں سے مسجد کی پشت پر قائم مدینہ مارکیٹ پر ایک اور ’انجانے گروہ‘ نے وہ کچھ کردیا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا پچھلی جانب سے لوگ مارکیٹ میں داخل ہوئے کپڑے کی مارکیٹ تھی ریشم خود آگ کا شعلہ ہوتی ہے پیٹرول اِن کے پاس تھا یہ سب پہلے سے تیاری تھی اِس واردات کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے والوں کا تعلق کہیں سے بھی ہوگا مگر وہ لوگ راولپنڈ ی یا اسلام آباد کے نہیں تھے یہاں ایک سوال بڑی بے چارگی سے سبھی پوچھ رہے ہیں اِسی جلنے والی مارکیٹ کی پشت پر ایک مند ر بالکل صحیح سلامت موجود ہے جس کے بارے میں سبھی کا کہنا ہے کہ اِس مندر میں ایک مختصر سا خاندان آباد تھا مگر اِس واقعہ کے رونما ہونے سے قبل وہ ہندورہائشی کہیں اور جابسے تھے اِس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اِ س سانحہ سے اُن کا کوئی مشکوک رابطہ سمجھا جارہا ہے یہ بات بھی قابل ِ توجہ ہے یہ پوری عمارت بمعہ مدرسہ و مسجد محکمہ ٗ ِ اوقاف کی ملکیت بتائی جارہی ہے کہا جارہا ہے کہ محکمہ ٗ ِ اوقاف نے کئی دہائیوں کی لیز پر اپنی یہ کروڑوں اربوں روپے کی ملکیت مرحوم و مغفور مولانا غلام اللہ صاحب دی ہوئی تھی یقینا سانحہ پنڈی کی اصل تحقیقات کرنے والے فاضل عدالتی کمیشن اِس نکتہ کو بھی اپنے پیش ِ نظر ضرور رکھے گی کہ اِ س انتہائی بیش بہا قیمتی اراضی کی لیز کی ’لالچ‘ نے کسی ’لینڈ مافیا‘ کو تو متحرک نہیں کیا؟
یہ صرف ایک سوال ہے؟ اِس سانحہ کو کوئی صرف فرقہ ورانہ رنگ سے نہ دیکھے اور بھی کئی اہم پہلو ہیں بین السطور جیسے بیان کیا گیا ہے دونوں طرف ’نئے چہرے‘ تھے جنہوں نے اپنے مذموم عزائم بروئے ِ کار لاکر راولپنڈی انتظامیہ کو بہت بُری طرح سے چیلنج دیا اور مجرمین اپنے اِ س چیلنج میں فی الحال کامیاب نظر آرہے ہیں اب رہ گیا مقامی پولیس کی طرف سے اِس سانحہ میں ماتمی جلوس میں شامل لوگوں کو ٹی وی کیمروں کے فوٹیج سے شناخت کرکے اُنہیں گرفتار کرنے کا کام؟راولپنڈی شہر کے مرکزی علاقے کئی برسوں سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد اِس سانحہ کے بارے میں کئی ٹی وی ٹاک شومیں کہہ چکے ہیں یہ ’پری پلان‘منصوبہ تھا اپنی خوفناک خونریزی کاتماشادکھاکر یہ بھیانک کل گزر گیا اب ہمیں طے کرنا ہے کہ آنے والا کل ہمارے اور آپ کے لئے‘ ہماری نسلوں کے تحفظ و بقاء کے لئے کیسا پُرامن ہونا چاہیئے ہماری جان ومان کی آبرو کیسے محفوظ رہ سکے ہمار ا تحفظ، ہماری نسلوں کا بہتر اور محفوظ مستقبل اپنے ملک کی سلامتی کے ساتھ وابستہ ہے سنی‘ شیعہ‘ دیوبندی‘ اہل ِ حدیث یہ فرقہ بندیاں اگر متشدد ہوجائیں تو ہماری قومی وحدت کے لئے نہایت مہلک ہوسکتی ہیں فرقوں کے نام پر ہمیں باہم دست وگریباں قتل وغارت گری میں ملوث کرنے والے دہشت گرد اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانیت کے قاتل ہیں بقول قرآن ِ مجید کے ”بے شک جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریزی‘ راہزنی‘ اور ڈاکہ وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) اِن کی سزا یہ ہی ہے کہ وہ قتل کیئے جائیں یا پھانسی دئیے جائیں یااُن کے ہاتھ اور اُن کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا(وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یا قید) کردئیے جائیں‘ یہ (تو) اِن کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور اِن کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے“