برطانیہ میں مودی کے خلاف احتجاج ۔۔۔بھارت کا اصل چہرہ
Posted date: November 15, 2015In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی پندرہ اور سولہ نومبر کو ترکی میں جی ٹو او کے اجلاس میں شرکت کے لیے جائیں گے لیکن اس سے پہلے بارہ سے چودہ نومبر تک برطانیہ کا دورہ کریں گے۔ پچھلی ایک دہائی میں یہ کسی بھارتی وزیراعظم کا پہلا دورۂ برطانیہ ہے۔ اس دورے کی دعوت برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے مودی کے انتخاب کے بعد جلد ہی دی تھی جسے برطانیہ میں بزنس ڈیل قرار دیا گیا اور اسے خاصا ناپسند کیا گیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ مودی نے بھی اس میں بہتری سمجھی کہ اس وقت یہ دورہ نہ کیا جائے اور معاملہ ٹال دیا گیا۔ اب مودی نے ہمت کی ہے کہ ترکی جاتے ہوئے برطانیہ کا دورۂ بھی کیا جائے۔ اس دورے کے لیے حکومت برطانیہ نے تو خاصا اہتمام کیا ہے جس میں ملکہ کے ساتھ ظہرانہ ، آتشبازی ثقافتی شو اور ویمبلے سٹیڈیم میں ہندو برادری سے مودی کا خطاب شامل ہے لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے سرکاری سطح پر۔ جب کہ دوسری طرف برطانیہ میں بڑی تعداد میں مقیم کشمیر اور دیگر بھارتی مسلمانوں سمیت سکھ اور عیسائی برادری نے اس موقع پر احتجاج کا فیصلہ کیا ہے ۔ 25 اکتوبرکو ایسا ہی ایک احتجاج برطانیہ کے مختلف شہروں میں رہنے والے کشمیر یوں نے کیا اور بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرے۔ مودی کو اِن حالات کا سامنا پہلی دفعہ نہیں کرنا پڑ رہا بلکہ پچھلے سال ستمبر میں دورہ امریکہ کے موقع پر بھی اسے ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اُس دورے کے موقع پر بھی اس کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ دراصل بھارت کا وزیر اعظم بننے سے پہلے یورپ اور امریکہ میں مودی کے داخلے پر پابندی تھی جس کی وجہ 2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات تھے جس میں ڈھائی ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا اُس وقت مودی گجرات کا وزیراعلیٰ تھا اور اس بات میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں کہ اِن فسادات کے پیچھے مرکزی کردار وزیراعلیٰ نریندر ا مودی کاتھا کیو نکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اُس صوبے کی پولیس کو ہی قابو نہ کر سکے اور انسانوں کا قتل عام ہوتا رہے۔ مودی کا ماضی تو انتہائی شرمناک ہے ہی جس کی وجہ سے اُسے اپنے دوروں کے دوران اس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا حال بھی کچھ مختلف نہیں یعنی اس کی شدت پسندی میں کوئی کمی اب بھی نہیں آئی بلکہ اُسی کی سرکردگی میں بھارت کے شدت پسند ہندو زیادہ تسلی کے ساتھ اپنی کاروائیاں کرتے ہیں۔ شیوسینا اس وقت انتہائی محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اس کی کاروائیاں تسلسل سے جاری ہیں کبھی گوشت کھانے پر بھارتی مسلمان ان کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں کبھی نچلی ذات کے ہندو ان کے زیرعتاب آجاتے ہیں لیکن ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہاں ان کی حوصلہ افزائی اور پیٹھ تھپکنے کے لیے ان کی حکومت موجود ہے۔ اب یہی مودی جب برطانیہ روانہ ہو رہے ہیں تو اس سے پہلے وہاں احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ 25 اکتوبر کے احتجاج پر بس نہیں کیا گیا بلکہ 12 نومبر کو مودی کے ویمبلے سٹیڈیم میں خطاب کے دوران بھی احتجاج کی کال دی گئی ہے اور کشمیری نوجوان لیڈر فہیم کیانی نے کہا ہے کہ ہزاروں احتجاجی مظاہرین 12 نومبر کو لندن پہنچیں گے۔ مودی کے خلاف صرف مسلمان ہی سراپا احتجاج نہیں بلکہ برطانیہ میں موجود سکھ عیسائی اور دلت ہندو بھی مظاہرے کریں گے یہ تمام لوگ 12 نومبر کو برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ 10 ڈاوننگ سٹریٹ جائیں گے۔ سکھوں کا مطالبہ یہ ہے بھارت سرکار 1984 میں گولڈن ٹیمپل پر حملے کے ذمہ داروں کو سزا دے اور سکھ سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔ بھارت کی عیسائی برادری کا کہنا یہ ہے کہ بھارت کے ہندو ،عیسائیوں کو ہراساں کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کر لیں ۔ جبکہ دلت، نچلی ذات کے ہندؤں کے خلاف ہونے والے واقعات پر سراپا احتجاج ہیں۔ بھارت آج بھی ذات پات کے انسان سوز نظام میں جکڑا ہوا ہے اور جب چاہتا ہے نچلی ذات کے ہندؤں کے خلاف کوئی نہ کوئی فساد اٹھا دیا جاتا ہے ۔ مختصر یہ کہ بھارت میں اگر چہ اقلیتوں کے حالات کبھی بھی اچھے نہیں رہے تا ہم مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس میں بے تحاشا اضافہ ہو ا ہے اور اس کی وجہ مودی کے شدت پسندانہ خیالات ہیں جس کا وہ کھلے عام اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن اس بار بھارت سے تعلق رکھنے اور برطانیہ میں رہنے والے مسلمان ، سکھ ، عیسائی اور نچلی ذات کے ہندوؤں نے مودی کے تمام جرائم ان کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس احتجاج کو اگر صرف احتجاج سمجھا جائے تو بہت غلط ہوگا کیونکہ یہ دراصل بھارت کا اصل چہرہ ہے جو یہ مظاہرین دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں اور اسے باورکر انا چاہتے ہیں کہ بھارت ایک شدت پسند ملک ہے جو اپنے ملک میں رہنے والے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو بنیادی انسانی حقوق کے قابل بھی نہیں سمجھتا ورنہ یوں ہزاروں لوگوں کا قتل عام نہ کیا جاتا۔
دنیا کو اب اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ بھارت نہ تو بطور ہمسایہ ایک پر امن ملک ہے اور نہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق کا خیال کرتا ہے ۔مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک سلگتا ہوا انگارہ ہے جسے ہر صورت حل ہونا چاہیے ورنہ یہ پہلے ہی تین کھلی جنگوں کا باعث بن چکا ہے اور اب اگر ایسی کوئی صورت حال دوبارہ سامنے آئی تو انتہائی تباہی ہوگی۔ مودی کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ بھارت میں رہنے والے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی انسان ہیں لہٰذا ان کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ ورنہ اُسے اپنے دوروں کے دوران امریکہ اور برطانیہ جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کشمیر یوں کے معاملے میں تو بھارت کا ہر حکمران مودی ہے لیکن مودی کے کریڈٹ پر بہت سارے دوسرے جرائم بھی ہیں جس کی وجہ سے اُس کا یہ جرم بھی مزید سخت ہو جا تا ہے۔ ان مظاہروں کو جو اُس کے آنے پر تشکیل دیئے گئے ہیں صرف مودی کے خلاف نہیں سمجھنا چاہیے ان میں سے بہت سے تو یقیناًاس کی ذاتی حیثیت میں بھی اُس کے خلاف ہیں لیکن یہ بھارت کا اصل چہرہ ہے جو یہ لوگ دنیا کو دکھائیں گے ایک ایسے ملک کا چہرہ جو اکیسویں صدی میں بھی لو گوں کو غلام بنا کر رکھتا ہے ان کے منہ پرسیاہی ملتا ہے، ان کو گوشت کھانے پر جان سے مار دیتا دیتاہے، ان کی عبادت کے راستے روکتا ہے، ان کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرتا ہے، ان کو بنیادی انسانی حقوق نہیں دیتا اور ان کو ذات پات کے نام پر انسانیت سے خارج کر دیتا ہے کیا یہ ایک انتہا پسند ملک نہیں جو خود کوسیکولر کا نام دیتا ہے بھارت کے لیے مشورہ ہے کہ یا تو اپنے طور طریقے بدل دے یا اپنا نام ہندو جمہوریہ بھارت رکھ کر دیگر مذاہب کے لوگوں اور علاقوں کو آزادی دے دے۔ عالمی برادری کو بھی ان مظاہروں کے پیچھے حالات کا ادراک کر کے بھارت کی شنوائی کرنی چاہیے۔