بھارتی اشتعال انگیزی پر حکومتی خاموشی
نغمہ حبیب
27 ستمبر کواقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 69ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم پاکستا ن جناب نواز شریف نے عالمی برادری کو یاد دلایا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر سب سے پرانا غیر حل شدہ مسئلہ ہے جسے اقوام متحدہ نے استصواب رائے کے ذریعے حل کرنے کی قرارداد منظور کی تھی اور پاکستان آج بھی اس کے لیے تیار ہے ۔جناب وزیراعظم نے کشمیر کی بات اقوام متحدہ میں کی اور بڑے زورو شور سے کی جو یقیناًبھارت کو کسی طرح نہیں بھائی۔ بھارت نے ہفتہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ کسی بھی بین الاقوامی فورم پرکشمیر کی بات کرنا پاک بھارت مذکرات کو نقصان پہنچا سکتا ہے تاہم وزیر اعظم پاکستان نے قوم کی خواہشات کے عین مطابق بات کی اور ساتھ ہی بھارت کے مذاکرات ختم کرنے کی بھی مذمت کی انہوں نے نئی دہلی کے اس مطالبے کو بھی ماننے سے انکار کیا کہ کشمیر کو بنیادی مسئلہ نہ کہا جائے ۔نواز شریف کی تقریر کے بعد بھارتی میڈیا نے بھی طوفان اٹھایا اور مذاکرات کی معطلی سمیت کئی الزاما ت پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیے اور حسب معمول یوں شور مچایا جیسے پاک بھارت تعلقات کی ناکامی اور مشکلات کے لیے پاکستان ہی ذمہ دار ہے اور اسی کی و جہ سے پاک بھارت تعلقات بحال نہیں ہو پا رہے یا کشمیر کا مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکا ہے ۔جبکہ سچ یہ ہے کہ بھارت نے کبھی اس مسئلے کو حل کرنے کی نہ کوئی کوشش کی اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کامیاب ہونے دی ہے۔ کچھ ہماری طرف سے بھی اس مسئلے پر سنجیدگی نظر نہیں آرہی اور اگرکبھی سنجیدگی سے بات کی جائے تو بھارت بھی پوری سنجیدگی سے اس کا جواب کچھ ایسے دیتا ہے جیسے وہ پاکستان کو بات کی سزا دے رہاہے چنانچہ اب بھی ایسا ہی کیا گیا اور وزیراعظم پاکستان کی تقریر کے بعد عید الاضحٰی کے پہلے ہی دن جب دونوں طرف کے کشمیری مسلمان عید منا رہے تھے بھارتی فوج نے اپنی خباثت دکھاتے ہوئے ان پر گولہ باری شروع کر دی اور اب تک وہ تسلسل سے اپنی کاروائی جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں اب تک تیرہ شہادتیں ہو چکی ہیں ایسا کچھ پہلی بار نہیں ہوا ہر قومی یا مذہبی تہوار کے دن بھارت ان نہتے کشمیری اور پاکستانی شہریوں کے اوپر گولہ باری کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے اور ساتھ ہی الزام بھی پاکستان کے اوپر دھردیتا ہے اس بار بھی اُس نے پاکستان کو ہی پہل کا موردِالزام ٹھرایااور بقولِ بھارتی وزیراعظم مودی کے بھارت اس کا موثر جواب دے رہا ہے یعنی ہمیشہ کی طرح چوری بھی اور سینہ زوری بھی ۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی فوج اپنی عیدکی مصروفیات چھوڑ کر، عید کے دن وقت نکال کر بھارت پر حملہ آور کیوں کر ہو وہ بھی جبکہ دوسری طرف بھی مسلمان ہی رہتے ہوں اور ہوں بھی وہ بے بس اور ہندو جیسی مکار قوم کے غلام اور اکثر اوقات ان کے زیرعتاب بھی رہتے ہوں۔بھارت نہ تو اپنے رویے پر کبھی شرمندگی محسوس کرتا ہے اور نہ اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے اور نہ کشمیر کے بارے میں کوئی بات کرنا اور سنناگوارا کرتا ہے لیکن دوسری طرف ہماری حکومتیں اور خاص کر موجودہ حکومت بھارت کی ناراضگی مول لینے کے لیے کسی بھی طور تیار نہیں۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں تو وزیر اعظم نے کھل کر بات کی لیکن اپنے شہریوں کی بے گناہ شہادتوں پر انہوں نے اور حکومت نے چپ سادھ لی جب آرمی چیف نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بات کی تب بھی ہماری معزز حکومت نے ایسا کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا اور تقریبا ہفتہ دس دن بعد انتہائی محتاط الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان امن کا خواہا ں ہے لیکن اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ہم اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔امن کی خواہش بہت اچھی ہے اور ہم اپنا دفاع کرنا بھی جانتے ہیں اور اسی لیے ہماری فوج بھارتی گولہ باری کا بر وقت اور موثر جواب بھی دے رہی ہے لیکن حکومت کے موقف میں کوئی مضبوطی نظر نہیں آرہی نہ ہی ہماری وزارتِ خارجہ اور نہ ہی سفارت کار عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ اس طرح لڑ رہے ہیں جیسا کہ لڑنا چاہیے۔ادھر جب مودی اپنی فوج اور اس کی کاروائی کے حق میں بیان دے رہاہے ہمارے وزیر اعظم چپ سادھ کر بیٹھے ہوئے ہیں لگتا ہے کہ یا تو وہ اپنے عام شہریوں کی پڑوسی لیکن دشمن ملک کی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بارے میں بات کرنا اپنے عہدے کے شایان شان نہیں سمجھتے اور یا وہ بھارت سے اپنے ذاتی تجارتی تعلقات اورمفادات کو خراب نہیں کرنا چاہتے ۔اور یہی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران اپنے ذاتی مفادات کوقومی مفادات پر تر جیح دیتے ہیں بلکہ قومی مفادات کو کچھ ایسے پس پشت ڈال دیتے ہیں جیسے وہ ان کی ذمہ داری میں آتے ہی نہ ہوں۔امن کی خواہش اپنی جگہ لیکن کیا دشمن کو یہ اجازت دینا بھی امن کی خدمت ہے کہ وہ جب چاہے ہماری سرحدوں پر بارود برسائے اور جب چاہے ہمارے شہریوں کو ہلاک کرے ۔حکومت کو سوچناچاہیے کہ شوگر ملوں ، سیمنٹ فیکٹریوں اور دیگر سرمایہ کاری کے لیے انہیں اور زمینیں اور منڈیاں بھی میسر آجائیں گی لیکن انہیں وزارت اعظمیٰ یہی بد قسمت پاکستان دے سکتا ہے جس کی بد قسمتی یہ ہے کہ اسے اپنے بانی کے بعد کوئی مخلص قیادت میسر نہیں آئی اور ہر حکمران کے برسر اقتدار آنے سے پہلے کے تمام دعوے عوامی مینڈیٹ حاصل ہونے کے زعم میں نخوت اور تکبر کی نظر ہوتے گئے یہاں تک کہ اپنے شہریوں کی دشمن کے ہاتھوں ہلاکت کی مذمت کرنا بھی گوارا نہیں کیا گیا ۔ہمارے جنابِ وزیرِاعظم اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ جنرل اسمبلی میں کشمیر کی بات کرکے انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے تو انہیں یاد رکھنا چا ہیے کہ حکرانی کا فرض حکمرانی کے آخری لمحے تک جاری رہتا ہے بلکہ اس کے بعد بھی چلتا رہتا ہے کیونکہ تاریخ ایک عام آدمی کی ذمہ داریو ں سے چشم پوشی کو تو معاف کردیتی ہے لیکن حاکم کی ہر لغزش اس کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتی ہے اور آنے والی نسلیں بھی اُس کا حساب کرتی رہتی ہیں۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اوربرصغیر کی بد امنی کی واحد وجہ، پہلے اس کے حل کے لیے کوشش کیجیے پھر تجارت بھی کیجیے اور دوستی بھی لیکن قومی حدود اور تقاضوں کے اندر رہتے ہوئے ان کا سودا کر کے نہیں۔