بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا کٹھ پتلی۔ براہمداغ بگٹی
Posted date: August 01, 2015In: Articles|comment : 0
ناصررضا کاظمی
ایک انسانی گروہ یا قبیلہ کے دوسرے انسانی گروہ کے ساتھ تعلقات زمان ومکان کے عملِ پیہم سے گزرتے ہوئے قوموں ‘معاشروں اور ملکوں کے باہمی تعلقات کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں اقوام وممالک کے باہمی ربط وضبط کے اپنے آداب ورسوم اور اپنے طور طریقے ہیں جنہیں اصطلاحاً ’ڈپلومیسی ‘ یا ’ سفارتی سیاستُ کے فن کانام دیا گیا ہے دنیا کے تمام مہذب ومتمدن ممالک اِن معروف قابلِ ستائش اصولوں سے ذرا بھی روگرانی نہیں کرتے بانی ِٗ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے امریکا سمیت دنیا کے تمام ملکوں اور قوموں کے ساتھ دوستی او ر خیر سگالی کے حقیقی جذبات سے سرشار پاکستانی سفارتی پالیسیوں کو ہر حالت میں قائم ودائم رکھنے کی ہدایت کی اُن کی اِن ہدایات کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی آج تک جاری ہے مگریہ کتنا تعجب خیز افسوس کا مقام ہے کہ ہم پہلے ہی پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے اُس کی اپنائی گئی معاندانہ و مخاصمانہ اور سخت متعصبانہ پالیسی سے تنگ ہیں اُس پر متضاد یہ کہ امریکا ‘ اسرائیل اور چند مغربی ممالک مثلاً جرمنی کانام ہم یہاں لیں گے جو انسانی حقوق کے نام پر پاکستان کے صوبے بلوچستان کے چند ’بگڑے ہوئے ‘ سردارذادوں کے پاکستان مخالف خیالات کی بے بنیاد ‘بوگس اور بے سروپا بیانات کی تشہیر وتر ویج کرنے میں بدقسمتی سے وہ گھناونا رول ادا کر تا ہوا دکھائی دیتا ہے، جو 1971 میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے لئے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے وہا ں کی انتشار پسند فضاء ہموار کرنے کے نام پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے اپنائی تھی رواں برس گزشتہ ماہ جون کے آخری ہفتے میں جرمنی کے ڈوئچے ویلے(143 DW )سے غیر ملکی اور بھارتی ایجنسیوں کے پے رول پر بلوچستان میں تخریبی کاروائیوں میں مصروف براہمداغ بگٹی کا ایک انٹرویو نشر ہوا جس میں براہمداغ نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی آڑ میں پاکستانی سیکورٹی اداروں پر دل کھول کر جھوٹے الزامات عائد کیئے اور بزعمِ خود اپنے آپ کو پورے بلوچستان کا نمائندہ کہا؟ پاکستان کے خلاف براہمداغ بگٹی نے جتنی ہرزہ سرائی کی، ڈوئچے ویلے نے جوں کی توں نشر کردی ہر نشریاتی ادارے کا پہلا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ اِس قسم کے ’عناصر‘ جو دوسرے ممالک جن کے ساتھ اُس ملک کے سیاسی وسفارتی تعلقات دوستی اور اعتماد کی بنیاد پر قائم ہوں اُس ملک کو کسی ملک کے اندرونی انتظامی معاملات میں ذرائعِ ابلاغ کے سبھی میڈیمز میں’ احتیاط ‘کی حساسیّت کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہوتا ہے یہ نہیں کہ جس کا دل چاہے کسی دوسرے ملک میں جاکر وہاں کے سرکاری میڈیا پر اپنے ہی ملک کے خلاف متعصبانہ اور زہریلے خیالات کی تشہیر کرئے بہرحال یہ کام جرمنی کے میڈیا ہاؤس کے ذمہ داروں کا تھا یاد رہے کہ بلوچستان اپنے رقبہ کے لحاظ سے کتنا بڑا صوبہ ہے؟ بہت سے پاکستانیوں کو یہ علم نہیں تو مغربی ممالک کے تشہیری اداروں کے کرتادھرتاؤں کے علم میں کیسے آسکتا ہے براہمداغ اپنے آپ کو بلوچستان کا ’تنِ تنہا لیڈر‘ قرار د یا جِس میں رتی برابر سچ ڈھونڈنے سے بھی کسی کو سچ نہیں ملے گا موصوف جو کئی برسوں سے مغربی ممالک کے حسین ترین اور پُرفضاء شہروں میں عالمی خفیہ ایجنسیوں خاص کر ’را‘ کے خرچے پر پُرتعیش زندگی گزاررہے ہیں، اُنہیں نجانے کیوں یہ مغربی میڈیا والے وقتا فوقتاً نام نہاد ’بلوچی محرومیوں ‘ کے فرسودہ موضوعات پر اُن کے انٹرویوز اپنے اخبارات میں شائع کرتے ہیں اپنے الیکٹرونک ذرائع پر اُن کے منفی خیالات ٹیلی کاسٹ کرتے ہیں واقعی اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ جرمنی اور پاکستان کے سفارتی تعلقات ماضی میں اچھے رہے آج بھی بہت ہی اچھے ہیں، انشا ء اللہ مستقبل میں اور بہتر اور زیادہ مستحکم رہیں گے ماہ جون کے آخری ہفتے میں ڈوئچے ویلے کو براہمداغ کے دئیے گئے انٹرویو میں اُنہوں نے بلوچستان کی ’نام نہاد محرومیوں ‘ کا رونا روتے فرما یا تھا کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈورکے لئے بلوچستان کے عوام کی رضامندی حاصل نہیں کی گئی؟ اُنہیں علم نہیں ہے کہ بلوچستان میں بلوچ عوام کی مرضی ومنشا ’ووٹ‘ کے ذریعے سے ایک جمہوری صوبائی حکومت کو منظور ہے ڈاکٹر مالک بلوچ کاتعلق کسی سردار طبقہ سے نہیں وہ ایک نیک شہرت سیاسی ورکر کی حیثیت سے رفتہ رفتہ اِس اعلیٰ عہدہ پر پہنچے ہیں وہ خود اور اُن کی پوری کابینہ(CPEC) کے تاریخی معاہدے پر اسلام آباد سے متفق ہے، ایک خود ساختہ جلاوطن‘ بلکہ خود ساختہ ’لیڈر ‘ جس کی اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنی مادروطن سرزمین پاکستانی صوبے بلوچستان سے باہر گزرا ہو اُسے یہ حق کیسے دیا جاسکتا ہے کہ وہ ’گوادر پورٹ ‘ کے تعمیراتی منصوبوں پر یورپ کے پُرتعیش اور پُر فضاء مقامات پر قائم ہوٹلوں میں بیٹھ کر اِن تعمیراتی منصوبوں پر نکتہ چینی کرئے ،ہمیں گلہ مسٹر براہمداغ کے ذاتی پُرخاش ‘ متعصب اور مخاصمانہ بیانات یا اُن کے انٹرویوز پر نہیں ہے، بلکہ ہم مغربی ممالک ‘ امریکا اور برطانیہ جیسے ملکوں کے میڈیا ہاؤسنز سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں کہاں لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کے کسی رکن ملک کے خلاف دنیا کے دیگر ممالک جو اقوامِ متحدہ کے رکن ملک ہیں کسی رکن ملک کا کوئی ایک ’سرکش فرد‘ اُٹھ کر اپنے ملک کے خلاف دوسرے ملکوں کے میڈیا ہاؤسنز کو اپنے مذموم مقاصد میں فریق بنالے جیسا کہ1971 میں بھارت نے پاکستان کو دولخت کرنے میں اپنی خفیہ ایجنسی ’را‘ کو استعمال کیا تھا، ’را‘ کے تربیتِ یافتہ مکتی باہنی نے کہیں پاکستانی فوج کی وردیاں استعمال کیں اور سابقہ مشرقی پاکستان کے پُرامن شہریوں کے گھروں میں گھس کر اُن کی بیٹیوں کی آبرولوٹی ‘قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا گیا منصوبہ کے تحت اُن کی تصویریں بنائی گئیں جو اندرا گاندھی نے پوری دنیا میں پھیلا کر پاکستانی فوج کو بدنام کیا ،یہ سب کچھ منظم پروپیگنڈا ہوتا ہے کالم میں جگہ کی کمی کے پیشِ نظر ہم یہاں اور بھی بہت سے ایسے حقائق جن کا براہ راست تعلق براہمداغ بگٹی اور اُن کی فیملی کے اندرونی کشمکشِ اقتدار سے ہے وہ بھی لکھنا چا ر ہے تھے براہمداغ دنیا بھر میں جو کچھ بھی پاکستانی سیکورٹی ادروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا چاہتے ہیں دل کھو ل کر کریں ،لیکن وہ اپنے ضمیر ( اگر زندہ ہے ) سے اِتنا تو پوچھ لیں کہ بگٹی سے گوادر کتنے فاصلے پر ہے؟ سینکڑوں کلومیڑز کے فاصلے گوادر ہے ،جہاں کسی ایک بگٹی قبیلہ کے کسی فرد کا کوئی گھر یا جائیداد نہیں ہے پورے بلوچستان کی نمائندگی کا حق ہمداغ بگٹی کو نہیں مل سکتا ہے؟ یقیناًوہ بلوچستان کے عوام کو اور کچھ تو دے نہیں سکتے وہ فیس بک ‘ ٹوٹئیر اور ورڈزسپ پر اپنے چند زرخرید ساتھیوں کو ضروراکسا سکتے ہیں کیا اِس طرح وہ ‘بلکہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کی اپنی مذموم دہشت گردانہ سازشوں میں کامیاب ہوجا ئے گی ؟ نہیں، نہیں،بالکل نہیں، بلکہ ’را‘ بلوچستان میں ہمیشہ انشاء اللہ ناکام رہے گی۔