Posted date: June 11, 2016In: Urdu Section|comment : 0
قارئین کرام
بھارت میں مسلمانوں پرڈھایاجانے والے ظلم وناانصافی کایہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، ایسے سینکڑوں واقعات ہرروزجنم لے رہے ہیں بالخصوص موجودہ متعصب بھارتی حکومت نے توسابقہ ریکارڈ بھی مات کردیئے ہیں۔ہم کیااب بھی ہاتھ پرہاتھ رکھ کریوں ہی یہ تماشہ دیکھتے رہیں گے یاآگے بڑھ کراس کاکوئی مداوا بھی کریں گے۔ یقین جانئے کل یہی مظلوم ہمارے خلاف بھی یہ چارج شیٹ دائرکریں گے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب ظلم ہوتاہوادیکھالیکن خاموش رہے!
سمیع اللہ ملک
بے گناہ
( 23 سال جیل کی تاریک کوٹھری میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے کے بعد نثار الدین کو سپریم کورٹ نے تمام الزامات سے باعزت بری کردیا _اس سے قبل اسی طرح ابرار احمد اور جلیس انصاری کو بھی 23 سال کے بعد بے قصور ثابت ہونے پر رہائی ملی تھی_ان رہائیوں پر ایک تاثراتی تحریر_میں ایسی تحریریں لکھنے کا عادی نہیں، لیکن اسے جذبات سے مغلوب ہو کر لکھا گیا ہے_)
رہائی پاکر میں جیل سے باہر آیا تو بڑے بھائی میرا انتظار کر رہے تھے_انھوں نے بڑے پیار سے مجھے گلے لگایا اور گاڑی میں بٹھایا_گاڑی روانہ ہوئی اور میں ماضی کی یادوں میں کھو گیا_
گاؤں میں تعلیم کا بالکل ماحول نہ تھا۔بچے کم عمری ہی میں کمانے کے لئے گھر سے نکل جاتے تھے_ابا کو تعلیم دلانے کا بہت شوق تھا _ انھوں نے ہم دونوں بھائیوں کا داخلہ قریب کے قصبہ میں قائم اسکول میں کرادیا تھا۔وہاں سے میں نے آٹھویں جماعت پاس کی تو ابا نے میرا داخلہ شہر کے ایک اچھے اسکول میں کرادیا_ انٹر کے بعد، بھائی کو انھوں نے اپنے ساتھ کام میں لگا لیا،لیکن میری تعلیم جاری رہی_
میں نے بی اے کر لیا تو اماں کو میری شادی کی فکر ہوئی۔میں مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ابا بھی اسی کے حق میں تھے_لیکن اماں کا اصرار غالب آیا اور نصرت میری زندگی میں بہار بن کر آگئی۔گھر کے سب لوگ اس سے بہت خوش تھے۔ایک سال بعد اللہ نے ایک چاند سا بیٹا عطا کیا۔
میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے دہلی آگیا اور ایک مسلم محلے میں کرایہ پر ایک کمرہ لے کر رہنے لگا۔یہ وہ زمانہ تھا جب بابری مسجد کے انہدام کو ایک سال ہو گئے تھے_ایک رات اچانک دروازے پر زور سے دستک ہوئی_میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔دروازہ کھولا تو پولیس والے بندوق تانے کھڑے تھے_انھوں نے مجھے اس طرح اچک لیا جیسے چیل جھپٹا مار کر مرغی کے چوزے کو اچک لیتی ہے۔
مجھے بابری مسجد کے انہدام کی پہلی برسی کے موقع پر بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔میں نے لاکھ انکار کیا، لیکن میری کچھ نہیں سنی گئی۔کچھ تھیلوں پر میرے فنگر پرنٹس لیے گئے اور چارج شیٹ میں دکھا دیا گیا کہ مجھے بھاری مقدار میں آر ڈی ایکس کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے۔مجھے شدید جسمانی اذیتیں دی گئیں اور جب تک میں نے اقبالیہ بیان پر دستخط نہیں کر دیے، مجھے ان سے چھٹکارا نہیں ملا
ابا کو پتہ چلا تو انھوں نے مقدمہ لڑنے کا ارادہ کیا۔اوسط آمدنی کے ساتھ وہ وکیلوں کی بھاری فیس کیسے ادا کرتے؟ انھوں نے 5بھیگے زمین فروخت کردی۔مجھ پر ٹاڈا کیس لگایا گیا تھا، جس میں اقبالیہ بیان کو ثبوت سمجھا گیا ہے۔عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ہائی کورٹ نے سزا بحال رکھی تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا_
ابا کے ہاتھ اب خالی ہوگئے تھے_ رشتے داروں نے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی تھی_12 سال بیت گئے تھے_ ایک دن خبر ملی کہ ابا غم کی تاب نہ لا کر چل بسے_ اس دن میں خوب رویا تھا_ رہائی کی رہی سہی امید معدوم ہو گئی تھی_ مجھ کو یقین ہوگیا تھا کہ میں اب کبھی باہر کی کھلی ہوا میں سانس نہ لے سکوں گا_پھر تو میں نے آنکھیں موند لیں اور پتہ ہی نہ چلا کہ مزید 11 سال کیسے بیت گئے؟ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ پھر کیا ہوا؟ حالات نے کیسے پلٹا کھایا؟ کس نے میرے مقدمے کی پیروی کی؟ اور میرے اقبالیہ بیان کے باوجود کیسے عدالت پر میری بے گناہی واضح ہوگئی؟ ایک دن اچانک مجھے جیل کے ساتھیوں نے بتایا کہ کل مجھے رہا کردیا جائے گا _
گاڑی جھٹکے سے رکی تو میرے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا_5گھنٹے کیسے بیت گئے، مجھے پتہ ہی نہ چلا_ بھائی نے کہا :اترو، گھر آگیا_ مجھے لگا، یہ نہ میرا گاؤں ہے، نہ میرا گھر_میرے سامنے اجنبی چہرے تھے_میں تو ان میں سے کسی کو نہیں پہچانتا تھا_مجھے ایک چھوٹے سے کھپریل کے گھر میں لے جایا گیا_میرا گھر تو بہت کشادہ تھا_اس سے ملا ہوا ایک باغ تھا_اس کے سامنے ایک وسیع میدان تھا_ بھائی نے بتایا کہ ابا بہت مقروض ہوگئے تھے، بہن کی شادی بھی کرنی تھی، اس لیے انھوں نے باغ اور میدان بیچ دیا تھا_ان کے انتقال کے بعد مزید تنگی آئی تو آدھا گھر بھی بیچنا پڑا تھا_
میں گھر میں داخل ہوا تو دیکھا، پورا گھر بھرا ہوا ہے_ سب کے چہرے خوشی و مسرت سے کھلے ہوئے ہیں، لیکن میرا چہرہ کسی قسم کے تاثر سے خالی تھا_ایک بوڑھی خاتون آکر مجھ سے لپٹ گئیں_ بھائی نے بتایا: یہ اماں ہیں_مجھے یقین نہ آیا_ 23 سال میں تو میں ان کی صورت بھول چکا تھا_
مجھے ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا_ بھائی سب لوگوں کا تعارف کرانے لگے :
یہ لبنی ہے، چھوٹی بہن، اس کی شادی ابو نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کردی تھی، یہ برابر میں اس کی بیٹی کھڑی ہے، جو 12 سال کی ہوگئی ہے_
یہ بھتیجی صالحہ ہے، تمھارے جیل جانے کے وقت ایک سال کی تھی، دو سال قبل اس کی شادی ہوگئی ہے_
یہ پھوپھی زاد بہن طیبہ ہے_تم سے دو سال چھوٹی تھی، پچھلے سال یہ دادی بن چکی ہے_
یہ تمھارا بیٹا ہے، عبدل، اس کی تعلیم بالکل نہیں ہو سکی، اس لیے کہ ہم سب مصارف برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے_
پیچھے سے اماں ایک عورت کا ہاتھ پکڑے ہوئے لائیں اور میرے آگے کردیا_یہ تمھاری بیوی رقیہ ہے_
جی میں آیا کہ میں زور زور سے چیخ کر بتاؤں کہ نہیں، یہ رقیہ نہیں ہو سکتی، میں رقیہ کو اچھی طرح پہچانتا ہوں، اس کا چاند سا چہرہ اب بھی میری نگاہوں میں گھوم رہا ہے_اس نے 23 سال قبل میرے دہلی کے لیے رخصت ہوتے وقت آنکھوں میں آنسو بھر کر پوچھا تھا : کب تک آئیں گے؟ اور میں نے جواب دیا تھا :3مہینےکی تو بات ہے، عید میں تمھارے ہی ساتھ کروں گا_
میں نے کچھ بولنا چاہا، لیکن میری زبان گنگ ہوگئی_ سب خوشی کا اظہار کر رہے تھے، لیکن میرے اوپر سکتہ طاری تھا، کسی قسم کے تاثر سے عاری_پورا گھر بھرا ہوا تھا، لیکن میں ارد گرد سے بے خبر تھا_لوگ مجھ سے کچھ پوچھ رہے تھے، لیکن مجھے ان کی آوازیں بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں اور کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟
میرا وجود ایک زندہ لاش بن چکا تھا اور بھلا لاش کہیں بولتی ہے، کہیں بات چیت کرتی ہے، کہیں سوالات کے جواب دیتی ہے_
میں خود کو مجرم سمجھنے لگا_اپنے ابا کا، جنھیں میں آرام کیا پہنچاتا، وہ مجھے رہائی دلانے کی فکر میں اللہ کو پیارے ہو گئے_ اپنی اماں کا، جو میرے غم میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئی تھیں _ اپنے بچے کا، جو اپنے باپ کے زندہ رہتے ہوئے بھی یتیم رہا_میں نے سوچا تھا کہ جس طرح میرے ابا نے مجھے تعلیم دلائی ہے، اسی طرح میں بھی اسے اعلی تعلیم دلاوں گا،لیکن وہ جاہل رہ گیا _اپنی بیوی کا، جس نے سہاگن رہتے ہوئے بیوہ بن کر زندگی گزاری_
میں نے سوچا :کاش میری بے گناہی ثابت نہ ہوئی ہوتی_ میں نے جیل کی چہاردیواری کے اندر ہی پوری عمر گزار دی ہوتی اور وہیں میری موت آجاتی_ نہ میں اپنے ان عزیزوں کو دیکھتا، نہ یہ مجھے دیکھ پاتے_یوں بھی میں ان کے لیے مر چکا تھا_ اب ان کے درمیان زندہ لاش بن کر جینے کا کیا فائدہ_
عدالت نے مجھے بےگناہ قرار دے کر جیل سے رہائی دلائی ہے ، لیکن میں اقبالیہ مجرم ہوں، میں گناہ گار ہوں اپنے ان عزیزوں کا _کاش کوئی اس کی سزا میں مجھے پھر جیل کے اندر کروادے_