بھارت کی صورتِ حال کسی بھی طرح جمہوری نہیں
نغمہ حبیب
بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہتا ہے آبادی کے لحاظ سے ایسا ہے بھی اور انتخابات کا تسلسل بھی یہی بتاتا ہے حکومتیں عوام کے ووٹ سے ہی منتخب ہو رہی ہیں لیکن یہ جمہوریت کی اس تعریف کے مطابق کہ’’ عوام کی حکومت عوام کے لیے ‘‘ کے مطابق صرف ایک ہی مذہب کے لیے جمہوری ملک ہے یہ خود کو سیکولر بھی کہتا ہے لیکن اس کا طرزِعمل شر وع سے ہندوانہ ہے اور مودی سرکار کے آنے کے بعد تو ہندو تو اس قدر غالب آگئی ہے کہ دوسرے مذاہب خاص کر مسلمانوں کے لیے تو بھارت کی زمین تنگ سے تنگ ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ بھارت ہر سال بڑے تواتر سے اپنا یوم جمہوریہ مناتا ہے اور اس سال بھی منائے گا لیکن اس بار اس کا انداز کیسا ہوگا اور بھارت کس منہ سے یہ دن منائے گا یہ سوچنے والی بات ہے ۔ کیا بھارتیوں کے ذہن میں یہ بات کہیں بھی آئے گی کہ اُس نے کشمیر میں اسّی لاکھ مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ جمہوریت کا حق نہیں دیا ہے بلکہ اُن سے آزادی کا حق بھی چھینا ہے اور اب کی بار تو گھروں میں قید کیا ہوا ہے اور شاید تاریخ کا طویل ترین کرفیو لگا رکھا ہے ۔ انہیں بنیادی انسانی حقوق تک نہیں دیے جا رہے، کشمیریوں کی زمین غیر کشمیریوں کو بیچی جا رہی ہے کشمیر کی بیٹیوں کے سودے ہو رہے ہیں تاکہ کشمیر کی زمین پر اور معاشرتی اقدار پر ہلا بولا جا سکے ۔ بھارت نے اپنے ہی بنائے ہوئے قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیریں بلکہ بین الاقوامی قانون کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا اور ایک متنازعہ علاقے کو اپنے ملک میں ضم کرنے کا اعلان کیا ۔ کشمیر کا مسئلہ تو پرانا مسئلہ ہے جس میں بد قسمتی سے عالمی برادری اور اقوام متحدہ تک نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں اور یہی شہہ پاکر وہ بڑے تسلسل سے مسلمانوں کے خلاف اقدامات کر رہا ہے ۔ مسلم کش فسادات بھارت کی تاریخ کا ایک مسلسل حصہ ہے اور تقسیم ہند کے وقت سے ہی مسلمانوں کو نشانے پر رکھا جا رہا ہے اور فسادات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے ۔ ہندو مسلمانوں کے دوست کبھی بھی نہیں تھے اور یہی سلوک وہ آزادی سے پہلے بھی مسلمانوں کے ساتھ کرتے رہے تھے اور اکثریت میں ہونے کی وجہ سے اور انگریز کی شہہ پر وہ مسلمانوں کو ہمیشہ ہی دباتے رہے لیکن آزادی کے بعد تو انہیں مکمل چھوٹ اور آزادی مل گئی اور ان کی تلوار مسلمانوں کے خلاف بے نیام ہو گئی اور اس سے بھی آگے بڑھ کر جب نریندرا مودی وزیر اعظم بنا تو مسلمانوں کو جیسے ہندو بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا گیا ۔ بقول جامعہ ملیہ کی ایک طالبہ کہ جو اُس نے کسی بھارتی ہی چینل کو انٹر ویودیتے ہوئے کہی کہ جب ایک چائے والا وزیر اعظم بنے گا تو اُس کی ذہنیت ایسی ہی ہو گی یعنی با الفاظ دیگر اس کاوژن چائے کے ٹھیلے سے تو آگے جائے گا ہی نہیں اور یہی کچھ بھارت میں ہو رہا ہے ۔ اس بار تو اس دہشت گرد نے مسلمانوں کو ایک اور نفرت کا نشانہ بنایا اور شہریت کا نیا متنازعہ اور امتیازی بِل پاس کیا جس سے سارا بھارت فی الحال سڑکوں پر نکلا ہوا ہے اور اسی سارے منظرنامے میں بھارت اس بار پھر اپنا یوم جمہوریہ منائے گا ۔ اس بار اس سارے غیر جمہوری پس منظر میں پریڈ ہو گی پھر ترنگے کو سلامی دی جائے گی اس کی عظمت کے گُن گائے جائیں گے حکومت کو عظیم قرار دیا جائے گا بھارت کے جمہوری طرزِ حکومت پر تعریف و تو صیف کے ڈونگرے برسائے جائیں گے اور اِن تمام حقائق سے آنکھیں بند کر لی جائیں گی جو ہر روز بھارت میں وقوع پذیر ہوتی ہیں ۔ نہ انہیں روتے بلبلاتے کشمیری نظر آئیں گے اور نہ بھارت کے چیختے چلاتے مسلمان اور نہ بینرز اُٹھائے یو نیورسٹیوں کے طلباء جو حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے لکھا کہ بھارت صرف انتخابات کے تسلسل کی تعریف کے مطابق جمہوریہ ہے ورنہ وہاں جو صورتِ حال ہے وہ کسی بھی طرح جمہوری نہیں ۔ دوسری طرف وہ خود کو سیکولر کہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت ایک مکمل طور پر ہندو ملک ہے لیکن یہاں مسلمانوں کی آبادی بھی کم از کم چار پانچ بڑی بڑی آبادیوں والے یورپی ممالک کی آبادی سے زیادہ ہے ۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کی کل آبادی جتنے یہ مسلمان یہاں ایک ایسی اقلیت کی زندگی گزار رہے ہیں جس پر جس وقت جس ہندو شخص، ہندو آبادی یا حکومت کا دل چاہا بندوق کا منہ کھول دیا اور اس سب کچھ کے باوجود بھارت نہ صرف خود کو جمہوریت کہتاہے بلکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر دوسروں کو اپنے مسائل کا ذمہ د ار قرار دیتا ہے ۔ اس وقت بھی اس کے اندرونی حالات ایسے ہیں کہ وہ ان میں اُلجھا ہوا ہے لیکن وہ کسی نہ کسی طرح ان حالات سے دنیا کا رُخ موڑ نے کے لیے کوئی بھی غیر ذمہ دارنہ حرکت کرنے کی کوشش کر سکتا ہے اور اب تک وہ ایسا کئی بار کر بھی چکا ہوتا اگر اپنے آئین اور قوانین میں بڑی واضح تبدیلیاں نہ کی ہوتیں ۔ بھارت نے ہمیشہ دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی نرسری ہے اور یہ مذہبی شدت پسندی کو فروغ دیتا ہے اب بھی اس نے شہریت کا ترمیمی بل پاس کر کے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں ۔ میں اس بِل کے اس پہلو پر بات نہیں کرونگی کہ بنگلہ دیش اور افغانستان میں اقلیتوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے لیکن پاکستان میں کم از کم ایسی صورت حال نہیں لیکن بھارت نے ان تینوں ملکوں سے آنے والے ہندو ،سکھ ،عیسائی اور پارسی وغیرہ تارکین وطن کو شہریت دینے کا اعلان کیا جبکہ کہا گیاکہ مسلمانوں کو یہ شہریت نہیں دی جائی گی ا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ یہ دوسرے مذاہب ان ممالک میں اقلیت میں ہیں اور اگر یہ مذہبی بدسلوکی کی بنیاد پر بھارتی شہریت کے لیے درخواست دیں تو انہیں دے دی جائے گی ۔ اس بات کی ترمیم اور اس میں لگائی گئی شرط سے بھارت ایک تو خطے بھر کے ہندءوں کو بھارت میں جمع کرناچاہتا ہے اور آبادی کاتنا سب تبدیل کرنا چاہتا ہے اور دوسرا دنیا کو یہ تاثر بھی دے رہا ہے کہ ان ممالک میں اقلیتوں سے بدسلوکی کی جاتی ہے اور وہ ان کاخیر خواہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کروڑوں بلکہ بیس کروڑ ہونے کے باوجود بھارت میں بے بس اور مجبورہیں اور یہی حال دوسری اقلیتوں کا بھی ہے حالانکہ یہ اقلیتں باقاعدہ ووٹر ہیں لیکن اس عظیم جمہوریہ میں ان کے ووٹ کی وقعت بس اتنی ہے کہ جب چاہو ان کو مذہبی ،معاشرتی ،تعلیمی بلکہ معاشی زبوں حالی کا شکار کیا جائے ۔ انہیں گائے کی حرمت پر قربان کرتے ہوئے قتل کردیا جائے، طبعی موت مری ہوئی گائے کی موت کا الزام کسی مسلمان آبادی پر لگا کر اسے تاراج کیا جائے اور یا بڑا گوشت خریدنے یا کھانے پر ا اُن کی جان لے لی جائے ۔ یہی کیا یہاں چرچ جلادیے جائیں گولڈن ٹیمپل کو فوجی بوٹوں تلے روند دیا جائے ،اپنے ہی ذات کے ہندءوں کے ساتھ کتوں سے بُرا سلوک کیا جائے لیکن پھر بھی جمہوریہ کہلائے ان سے ووٹ لے اور پھر یہ سب واجب القتل ہو جائیں یا ہندو بن جائیں لیکن پھر بھی کہلائے جمہوریت اور جمہوریہ ۔ بھارت کو اپنا یوم جمہوریہ منانے سے زیادہ اپنے اعمال پر غور کرناچاہیے اور وہ یہ دن تب منائے جب اُس کاہر شہری برابری کی سطح پر آجائے، اس کے حقوق اسے مل جائیں اسے انسان سمجھا جائے تو ہی یوم جمہوریہ منائے اور اُسے یوم جمہوریہ منانے کا حق دیا جائے ورنہ تو26 جنوری بھی سال کے دوسرے تین سوچونسٹھ دنوں جیسا ایک دن ہے اور بس ۔