Posted date: October 12, 2013In: Urdu Section|comment : 0
سیّد نا صررضا کاظمی
’’ہماری ناک ہمارے چہرے کے لئے ہے دوسروں کی نکیل کے لئے نہیں‘ ‘ پروفیسر محمد منّورکی تحریر سے انتخاب کیئے گئے لاجواب اِس طنزیہ جملے سے کالم شروع کرنے کی وجہ یوں بنی کہ آخر کب تک امریکا اور مغربی طاقتوں سے مرعوب پاکستانی حکمران‘ افغانستانی اور بھارتی کٹھ پتلی اسٹیبلیشمنٹ کے سامنے ا پنا واضح قومی موقف پیش کرنے سے دامن یوں بچاتے نظرآئیں گے جیسے کوئی ’مجرم ‘ ہوں ؟ افغانی اور بھارتی بیوروکریٹس کا کھیل ایک ہی ’پیچ ‘ پرہورہا ہے، ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں کے دونوں ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت گزشتہ چند ماہ سے آپے سے باہر نکلتے نظر آرہے ہیں، ہمارے حکمرانوں کی حالت دیدنی ‘ بلکہ مایوس کن حالات کی صورت بنی انتہائی تمسخر انہ ہے اُنہیں اِس امر کا احساس تک نہیں ہورہا ہے کہ قوم ‘پاکستان کے اصل دعویِٰ حق کو ہر صورت منوانے کی منتظر ہے سیاسی قائد ین کو دیکھئے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ پاکستان کے اصل مسائل سے صرف نظر کیئے بیگا نوں کی سی مختلف کیفیتوں سے ششدر‘ حیران و سر گشتہ تصورات کے بت بنے بیٹھے ہیں، گزشتہ کئی ماہ کے دوران بلکہ تاحال لائن آف کنٹرول پر بھارتی سیکورٹی فورسنز مسلسل فائر بندی کی خلاف ورزیوں کی مرتکب بنی اب تک کئی پاکستانی فوجی جوانوں کو شہید وزخمی کرچکی ہیں عام شہری بھی شہید ہو رہے ہیں مجبوراً پاکستانی فوجیوں کی منہ توڑ جوابی فائرنگ کے نتیجے میں بھارتی گنوں کو خاموش ہونا پڑ تا ہے چند د ن رکنے کے بعد فائرنگ کا یہ سلسلہ پھر شروع ہوجا تا ہے، اسلام آباد میں پاکستانی وزارتِ خارجہ میں بھارتی کونصلر کو طلب کرکے وارننگ دیدی جاتی ہے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ’ ذمہ داری‘ پوری ہوگئی !اسلام آبادحکومت اِس معاملہ کی نازکتوں سے نمٹنے میں اپنی ذمہ داریوں کو کیوں نہیں ادا کر پارہیں؟ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کو پُرامن حالات میں دوبارہ لانے کے سلسلے میں اگر ہم اپنی وزارتِ خارجہ کے ذمہ داران کو ’عامیانہ یا کاسمیٹکس‘ قسم کی ذمہ داریاں ادا کرنے کا ایک عام ادارہ سمجھیں تو شائد اِس میں کوئی مغالطہ نہ ہوگا اِس افسوس ناک صورتحال کا قوم جواب سننا چاہتی ہے گزشتہ 65-66برسوں سے اسلام آباد کے حکمران اپنے ضمیروں کے حقیقت پسندانہ قومی جذبوں کو تھپکیاں دیتے‘ لوریاں دیتے‘ سلاتے چلے آرہے ہیں کبھی ہماری مشرقی سرحدوں پر صرف نئی دہلی حکومت کے خطرات منڈلایا کرتے تھے،
مگر اچانک اب دوطرفہ وبالِ جان، خطرات سے پُر ہمارے لئے ممکنات سے لبریز پس منظر قومی سلامتی کی نئی موثر حکمتِ عملی اپنا نے کی دعوت تو دے رہا ہے مگر اسلام آباد کے جمود یافتہ جمہوری ایوانوں کو اِن چیلنجز کا لگتا ہے کہ کوئی احساس ہی نہیں ‘ نہ تو وہ افغانستان سے نہ ہی بھارت سے بلا جھجک اور دوٹوک بات کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی قومی سلامتی کی ایسی کوئی خالص وطن پرستانہ پالیسی اپنانے کی فوری ضرورت کا اُنہیں کوئی احساس ہے آخر کب ہمارے حکمران اپنے وطن کی سلامتی کے غیر متزلزل پختہ عقیدوں کے چراغوں کو روشن کرنے سے اغماض برتے رہیں گے وہ کب وطن کی سلامتی کی لئے بے غرضانہ عشق کی تپش روشن کرنے پر آمادہ ہونگے ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اُن کی یگانہ فکروں کی ’مردانہ ندرت ‘ کی سمتوں کا تعین غلط ہے یقیناًوہاں کوئی کمی ہے قومی احساسِ تفاخر سے معمور جذبات اگر سرگرم نہ رہیں اور اِس کی جگہ ’ تجارتی‘ عقائد کی جنوں خیزی آگے آجائے تو ایسے قائدین قوموں کی رہنمائی کا فریضہ کیسے ادا کرپائیں گے بہر حال، عوام کو یہ سوچنے کا موقع گزشتہ کئی عام انتخابات میں ملا ہر بار وہ جذباتی انتخابی نعروں کے دھوکوں میں آئے تازہ ترین نتیجہ ہمارے آپ کے سامنے ہے ہمارے سیاسی قائدین عوامی ووٹوں کے ڈھیروں پر سوار ملکی ایوانوں کے مالک و مختار بن جاتے ہیں اِن سے یہ امیّد کی جائے کہ یہ ’جمہوری وسیاسی ‘ افراد قومی رہنما ئی کی ترجمانی کا حق بہ حقِ رسید صلہ دیں گے ؟ امریکا ‘ مغرب ‘ افغانستان اور بھارت جیسی منہ زور طاقتوں سے پاکستان کی حقیقی علاقائی اہمیت و انفرادیت کو منوانے کا قرار واقعی حق دلوانے کے نازک وحساس سلسلے میں کامیاب ہوجائیں گے ؟
ہم بھی ہیں کن خوابوں کے اسیر؟عقلیت پسندی کی شانِ جنون کو تلاش کرنے کی ہماری سعی لاحاصل کا کچھ بھی نتیجہ نہیں نکالنے کا ‘عین ممکن کہ قومی جذبوں سے سرشار جس عقلیت پسندی کی تمنا میں ہم اپنے آپ کو اسیر پاتے ہیں، وہ عقلیت پسندی اِن سیاسی قائدین میں نہیں‘ بھارت کے ساتھ ہر قیمت پر تجارت پسندانہ حواس باختہ عقلیت پسندی نے اسلام آباد کے نئے سیاسی مکینوں کے دلوں کو سرد اور جذبات پر خنکی کی دبیز تہہ جمادی ہو ئی ہیں، پاکستانی سرحدوں کے مشرقی ومغربی سرحدوں کے احوال ڈھکے چھپے نہیں‘ امریکا اور مغرب جیسا یہ بڑی طاقتیں چاہتی ہیں اسلام آباد کے اِن حکمران کی ناکوں میں پڑی ہوئی نکیل کے عجب کرشمے دیکھتے جائیے کل جب یہی افراد حزبِ اختلاف میں تھے تو اِنہیں قومی ’عزتِ نفس ‘ کا احساس تڑپیا کرتا تھا، عوام نے گزشتہ پانچ برسوں کے بعد الیکشن ہونے پر قومی عزتِ نفس کو بارہا مجروح کرنے والوں کو اسلام آباد سے یک لخت بے دخل کردیا، کیا اب قومی دبد بے ‘ قومی طمطراق اور قومی رعب وہیبت کے نعرے لگانے والوں کا یہ اوّلین فرض نہیں بنتا کہ وہ پاکستانی قوم کی دیرینہ خواہشات کی بجا آوری کریں ؟ سب کچھ آج اِن کے ہاتھوں میں ہے بیرونی دنیا میں پاکستان کے اسٹرٹیجک مفادات کے ’نیچرل ‘ مطالبات کو نیم دلانہ ‘ عجزو درماندگی کے کمزور لہجوں سے پیش کرنے کی بجائے بے خوف مردانگی کے ساتھ پیش کرنے کا ہنر آزمائیں تو سہی، قوم جمہوری حکمرانوں کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہے، ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی شرائط پر پاکستانی عوام پر کمرتوڑ مہنگائی کی صورت میں بوجھ نہ لادھیں ایک بار انکار کرکے دیکھیں! خوابوں میں امریکی مالیاتی اداروں سے خوف زدہ ہونے کی بجائے اپنی حکومتی مشکلات قوم کے ساتھ شئیر کریں ‘ موجودہ نئی سیاسی وجمہوری قیادت حکومتی اور نیم حکومتی کارپوریشنز کے غیر پیداواری اخراجات کی ہنگامی کٹوتی پر اگر فوکس کیا جاتا ‘سیاسی قوتِ ارادی کی نیک نیتی کو بروئےِ کار لاکر صوبائی اور وفاقی محکموں میں سرایت کرپشن کااُوپر سے نچلی سطح تک صفایا کر نے کی عوام دوست مہم چلائی جاتی تو حکومت کو پیٹرول کی گراں قدر قیمتیں بڑھا نے کے اقدامات نہ کرنے پڑتے اِس کے ساتھ ہی ملک میں گیس کی قلت پر بھی قابو پایا جاسکتا تھا یاد رہے کہ سماجی ‘ معاشرتی وثقافتی اتھل پتھل کا شافی علاج کیئے بغیر ملکی ترقی کا سفر طے نہیں کیا جاسکتا ۔