Posted date: April 05, 2015In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
’فاشزم سیاست ‘ جمہوری سیاست کا جتنا بڑا لبادہ اُوڑھ لے اپنے چہرے بشرے پر مختلف جمہوری رنگوں کی لکیریں بھی لگاتی پھرے اُس کا یہ طرزِ عمل اُسے کبھی جمہوریت سے تعبیر نہیں کرسکتا جمہوریت کی اصل کو سمجھنا ہے تو پھر آئیے جمہوریت کے بانی ارسطو کی اِس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتتے ہیں کہ اُس نے جمہوری حکمرانوں کے بارے میں کیا کہا ارسطو کہتا ہے کہ’ انسان پر لازم ہے کہ وہ اِس کوشش میں مسلسل مصروف رہے کہ وہ جذبات اور خواہشات پر عقل کی حکمرانی کر سکے ‘ جناب ! عقل کی حکمرانی سے اور کچھ تو شائد نہ ہوپائے چونکہ ہمارے عہد کی دنیا میں حکمرانی کے کلب کے تقریباً سبھی ’معززین اراکین ‘زبان اور ہاتھ ‘کی حکمرانی کرنے پر زیادہ تندو مند دکھائی دیتے ہیں دنیا کے اور ملکوں کی بات کیا کریں ہمارے ہاں اپنے وطن پاکستان میں عقل کی حکمرانی تو رہی دور کی بات ‘ چونکہ یہاں پر عقل کی حکمرانی کرنے سے معاشرے میں پائی جانے والی ’ تاریکی ‘ یکدم ختم ضرور ہوجائے گی پھر ہر سو روشنی پھیل جائے گی عقل کی حکمرانی کا پہلا سبق ہی یہ ہے کہ چہار جانب علم وعمل کی شمعیں روشن کرنے کی حکومتی تدابیر ’عملاً ‘ نافذ کی جائیں اب اگر پورا ملکی معاشرہ تعلیم یافتہ ہوگیا اور اگرکہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہوگیا تو پھر مڈل پاس ‘ انٹر فیل ’رولنگ کلاس ‘ جس کے پاس اِس ملک کی 98% دولت کا کثیر وخطیر اور ناجائز بدقماشی کے ذریعے جمع شدہ حصہ ہے جو ملک کی100% انسانی سہولتوں کے وسائل پر گزشتہ67 برسوں سے اپنے سازشی حربوں سے قابض چلا آرہا ہے اور جو ایسی بھینسوں کے مانند ہیں جن کے سامنے آپ کوئی بھی بیّن بجھائیے نہ اِنہیں اقتصاد کی سمجھ نہ سائنس کی ابجد سے وہ واقف‘ نہ چار قل شریف وہ صحیح تلفظ سے پڑھنے کے لائق ؟ جو کہ تیسری جماعت کے بچوں کو زبانی یاد ہوتے ہیں اب ہماری عقل کا بھی قارئین ماتم کرلیں، معاف کیجئے گا ’ جس میں’ عقل ‘ نام کی کوئی شے ہی موجود نہ ہو وہ کیا خاک حکمرانی کرئے گا؟ ’جذبات اور خواہشات ‘ حرص اور ہوس کے ایسے ہتھیارہیں جو اچھے خاصے ایماندار اور پارسا انسان کو اخلاقی طور پر ‘ دنیاوی اعتبار سے خاص کر دینی لحاظ سے ذلت وبدنامی کی لامحدود کھیتی میں لا کھڑا کردیتے ہیں اب معلوم ہوا کہ یہ جذبات وخواہشات کتنے بُرے عیوب کی دنیا سے تعلق رکھنے والے رذالت کے آلات سے تیار شدہ جذبے ہیں ایک اور بہت ہی ضروری بات کہہ کر ہم آگے بڑھیں گے کہ ’جذ بات اور خواہشات ‘ کے گَرد آلود دولت کے بگولوں کے پیچھے بھگانے والے عام چھوٹی موٹی سمجھ بوجھ رکھنے والے ‘ واجبی تعلیم رکھنے والے ‘ کمزور اور لاغر سماجی پس منظر رکھنے والے افراد نہیں ہوتے ہمیشہ ’جذبات اور خواہشات ‘ کے پیچھے ہر قیمت پر اُسے حاصل کرنے والوں میں ہر قوم کی ایلیٹ کلاس کے طبقے کے شہرتِ یافتہ افراد میں بڑی رساکشی جاری رہتی ہے افراد سے معاشروں اور معاشروں سے قوموں اور ملکوں تک لالچ اور خودسری کا یہ ہی سلسلہ برسوں سے جاری ہے ’فاشزم سیاست ‘ سے اپنے کالم کا آغاز کرنے کا اصل مطلب ہمارا اشارہ ہمارے اپنے ملک کی سیاسی جماعتوں کے مجموعی ڈھانچہ( انفراسٹریکچر) کو زیر بحث لانا سمجھئے گا ،ایک سوال یہاں ہم اپنے سیاسی وجمہوری علمبرداروں کے لئے ’جواب ‘ کے لئے چھوڑتے ہیں اِس سوال کا جواب ہر کوئی خود اپنے ضمیر کی روشنی میں تلاش کر لے کہ تاکہ یہ عقدہ تو کم از کم کھلے کہ وہ کیا راز ہے کہ گزشتہ66-67 برسوں میں ایک دوبرس قائداعظم محمد علی جناح کے عہدِ اقتدار کے سوا آج تک کوئی ایسا قائد پاکستان کو کیوں میسر نہ آسکا ‘ کوئی ایسی لیجنڈ لیڈرشپ ہمیں کیوں نہ مل سکی جو وسیع اور ہمہ گیر ویژن کی حامل ہوتی جو وقت کے بدلتے ہوئے عالمی تقاضوں کے تناظر میں پاکستان کی تقدیر کی کایا پلٹنے میں ’جراّت مندی ‘ سے منصف مزاج بھی ہوتی ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹومیں اِن متذکرہ خوبیوں کی ’جھلکیاں ‘ ضرور محسوس کی گئی تھیں لیکن اِن دونوں عظیم لیڈروں کو عالمی سازش کاروں کی ملی بھگت سے کیسے پاکستانی سیاست ’آؤٹ‘ کیا گیا یہ اب کوئی راز نہیں رہا پاکستان کو ہمیشہ اپنے انگھوٹھے کے نیچے رکھنے والے ’انکل سام ‘ اور اُس کے مقامی حواری ہمیں ہر ایسے حساس معاملے میں ملوث نظر آتے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے شہید محترمہ دوبار ایک مرتبہ 18 ماہ کے لئے دوسری بار غالبا پونے تین سال کے لئے وزیر اعظم منتخب ہوئیں دونوں بار محترمہ کے عہدِ اقتدار میں ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین بے انتہا سیاسی کشمکش‘ رنجشیں اور مخالفتوں کی رسا کشی عوام نے دیکھی تھیں آخر کیوں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور ایم کیو ایم کے الطاف حسین ایک صفحے پر یکجا اور متحدنہ ہوسکے ؟کیا ہم یہ سمجھیں کہ بے نظیر بھٹو میں وہ سیاسی دوراندیشی اور وہ سیاسی بصیرت نہیں تھی کہ وہ الطاف حسین کو اپنے ساتھ باآسانی نہیں چلا سکیں جبکہ بلو چستان میں مرحوم نواب اکبر خان بگتی جیسی بڑی اہم سیاسی شخصیت کا اُن کے ساتھ الحاق و اتحاد رہا اِس بالکل برعکس بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بننے والی آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں الطاف حسین نے پیپلز پارٹی کے لئے کبھی کوئی مسئلہ کھڑا کیا نہ آصف علی زرداری نے سندھ میں ایم کیو ایم کو کوئی ’ٹف ٹائم دیا؟پانچ برس کی آئینی مدت بخیر وخوبی گزر گئی یعنی ایم کیو ایم جیسی تیسری بڑی پارلیمانی جماعت کو بے نظیر بھٹو جیسی سیاسی قد و قامت رکھنے والی بصیرت آفروز شخصیت ایم کیو ایم کو ہمیشہ ناراض کرتی رہیں اِس جماعت کو مخالف بنچوں پر بیٹھنے پر از خود مجبور کرتی رہیں یہ نکتہ آج تک ہمارے ذہنوں میں کلبلاتا رہتا ہے’ ایک بار کسی نے بے نظیر بھٹو شہید سے پوچھا’ آپ ہمیشہ زرداری صاحب کو پارٹی ٹکٹ دیتی ہیں کبھی سینٹر بنوا دیتی ہیں کبھی وفاقی وزیر کا عہدہ ‘ جبکہ بطور رکن اسمبلی ‘ بطور سینیٹر یا وفاقی وزیر کے کبھی وہ پریس کا سامنا نہیں کرتے نہیں پائے گئے کیا اُنہیں سیاست آتی بھی ہے یا نہیں؟ تو محترمہ نے کہا تھا ’آصف صاحب دل کے بہت بڑے ہیں اپنے دوستوں کو بہت یاد رکھتے ہیں اپنے دوستوں کے لئے وہ بعض اوقات مجھ تک سے ناراض ہوجاتے ہیں میری جب بھی حکومت جاتی ہے یہ بچارے مفت میں جیل چلے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں اِنہیں حکومتی رکن بنادیتی ہوں تاکہ اِنہیں جیل میں ’اے کلاس ‘ کی سہولتیں قانوناً ملتی ر ئیں ‘بتائیے کیا بعینہٰ ایسا ہی نہیں ہوا بے نظیر بھٹو شہید کا تابوت قبر میں دفن ہونے کے چند لمحوں کے بعد آصف علی زرداری نے اپنے بچوں کے نام کے ساتھ’ بھٹو‘ لاحقہ لگا دیا کاش !یہ کام کرنا اتنا ہی ضروری تھا تو بی بی کی زندگی میں ہوجاتا تو مر حومہ شہید کتنی خوش ہوتیں یہ حرکات ’معمولی ‘ نہیں بلکہ انتہائی ’ غیر معمولی‘ ہیں وقت آئے گا تو کبھی اِس پر بھی تفصیلی بحث ہوگی کاش ! ایان علی منی لانڈرنگ کیس سامنے نہ آتا اور دبئی میں عزیر بلوچ گرفتار نہ ہوتا لگتا ہے موجودہ حکومت بھی عوام کو سچ نہیں بتا رہی کچھ نہ کچھ ضرور عوام سے چھپایا جارہا ہے منی لانڈرنگ کے ’آکٹوپس ‘ کے پنجے نجانے کہاں کہا تک پھیلے ہوئے ہیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے پسے ہوئے غریب عوام کی محنتوں کی کمائی کیسے اور کیونکرآسانی باہرکے بنکوں میں چلی گئی اِ س کا کھوج لگانا بھی شائد اُتنا ہی ضروری ہو گیا ہے جتنا پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے بچانے محفوظ کرنے کے لئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اِس بیان کا تعلق ہے کہ آخری دہشت گرد کا سرکچلنے تک آپریش ضرب عضب جاری رہے گا جنرل صاحب کاش ! آپریشن ضرب عضب کا دائرہ ’پاکستان کے خزانے کو لوٹنے والے آخری لٹیرے کو شکنجے میں جکڑنے تک وسیع کردیا جائے کاش !ایسا ہو؟