حکومت قابل اعتراض بیانات پر ایکشن کیوں نہیں لیتی
پاکستان میں دہشت گردی کی لہر اور پھر اس کے خلاف جنگ نے جہاں اور بہت تباہی مچائی وہیں علاقائی تحفظوں کے کئی دعویداربھی پیدا کئے انہیں میں سے ایک پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اُبھری اور ایک ذہنی طور پر نا پختہ نوجوان اس کا لیڈر بن بیٹھا۔ایک معاشرہ جہاں مشران کی بڑی اہمیت ہے اور جن کا کہا حکم کا درجہ رکھتا ہے ایک نوجوان کے ہاتھ کیسے چڑھ گیااور کیسے اسے لیڈر کہلانے کا حق دے دیا گیا۔یہ اور بات ہے کہ اکثریت نے اُسے مسترد کر دیالیکن کچھ لوگوں کا بھی اس کے پیچھے چلنا کسی خفیہ ہاتھ کی نشاندھی کرتا ہے۔منظور پشتین کے ساتھ جو دیگر نام مسلسل سامنے آرہے ہیں وہ علی وزیر،محسن داوڑ اور گلالئی اسماعیل کے ہیں جو پاکستان اور پاک فوج کے خلاف مسلسل زہر اُگلتے رہتے ہیں۔وہی فوج جس نے اِن علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کیا اور ترقیاتی کا موں کی نئی تاریخ رقم کی،سڑکوں کا جال بجایا،ہسپتال بنائے،علاقے کی تاریخ میں پہلی بار معیاری سکولوں کا قیام عمل میں لایا گیاتاکہ مقامی لوگ مقامی طور پر ہی ملک کے دوسرے علاقوں کے ہم پلہ سکولوں میں اُسی معیار کی تعلیم حاصل کر سکیں اِن علاقوں کے بچوں کوملک کے دوسرے بڑے شہروں میں مفت تعلیم کے لیے بھیجا گیا اور مفت رہائش فراہم کی گئی لیکن پھر بھی اس گروہ کے خیال میں اِن علاقوں کو کچھ نہیں دیا جارہادراصل یہ سب اُن سے کروایا جارہا ہے اور جس فوج نے دہشت گردی کے خلاف دنیا کی سخت ترین اور طویل ترین جنگوں میں سے ایک جنگ لڑی اِن کے خلاف یہ نعرہ کیسے لگ سکتا ہے جو یہ لوگ لگاتے ہیں کہ دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے ہاں یہ وردی اس دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اس کے پیچھے ضرور پڑی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کو کافی حد تک ختم بھی کر چکی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں انہیں مقامی لوگوں کا بھی بھر پور تعاون حاصل رہااور منظور پشتین اور اس کے کارندے باوجود اپنی انتہائی کوششوں کے بھی اس علاقے کے لوگوں کا نکتہء نظر تبدیل نہیں کر سکے۔ یہ گروہ بظاہر یہی کہتا رہا کہ وہ تشدد کے حامی نہیں ہیں اور پُر امن طور پر پختونوں کے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ بھی کہ وہ ملک کے خلاف نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔انہوں نے کچھ مطالبات پیش کیے جس میں سے پہلا تو چیک پوسٹوں کو ہٹانا تھاحالانکہ یہ چیک پوسٹیں اُن حالات میں عوام کے تحفظ کے لیے بے انتہا ضروری تھیں اور حالات بہتر ہوتے ہی انہیں ہٹائے جانے کا عمل شروع ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے مطالبات کی فہرست طویل کرنی شروع کر دی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں قبائلی عوام نے سب سے زیادہ تکلیف اور نقصان اٹھایا لیکن بد قسمتی سے اس سارے فساد کے تانے بانے بھی اُدھر ہی جاکر ملتے تھے لہٰذا ہر کاروائی کا بڑا حصہ بھی انہی علاقوں کی طرف جاتا تھا چاہے اس میں کسی کی خواہش شامل ہوتی یا نہ ہوتی یہ سب ایک قدرتی امر تھا لیکن اسی کو منظور پشتین کے ذریعے ایک نام نہاد تحریک کی وجہ بنا دیا گیا اور اُس کے ساتھ گلالئی اسماعیل جیسے شہرت کے خواہش مند افراد آکر مل گئے اور پھر نقیب اللہ محسود کی موت کے بعد ان لوگوں نے جلسوں کا انعقاد کیا اور ان جلسوں کا حجم بڑھانے کے لیے افغان مہاجرین کو خوب خوب استعمال کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ تمام ایسے افراد کو اکٹھا کیا گیاجو پاک فوج کے خلاف بولنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور یہ اپنے ہی جیسے لوگوں کا مجمع بھی لگا لیتے ہیں۔حال ہی میں علی وزیر نے جو بار بار یہ کہتا رہا ہے کہ وہ تشدد پر یقین نہیں رکھتے نے بنوں میں اپنے جلسے میں پاک فوج کو کھلم کھلا دھمکیاں دیں ہیں اس سے پہلے خڑ کمر میں یہ اپنے چیلوں سمیت پاک فوج کی چیک پوسٹوں پر حملہ کر کے اپنے نام نہاد غیر متشددنظریے کی نفی کر چکا ہے اور اس بار تو اس نے اپنے بیانیے سے اس بات پر مہرِ تصدیق ہی ثبت کر دی کہ اُسے بیرونی امداد اور تعاون حاصل ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اس کے مجمع میں پاکستانی کم اور افغانی زیادہ ہوتے ہیں۔علی وزیر نے بنوں کے جلسے میں پاک فوج کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہم اُس خار دار تا ر کو جو پاک فوج نے پاک افغان سرحد پر لگائی ہے کاٹ ڈالیں گیاور اسے پاک فوج کے سپاہیوں کو لٹکانے کے لیے استعمال کریں گے۔پس اُس کے اِس بیان سے ثابت ہوا کہ وہ افغانستان میں بیٹھے ہوئے پاکستان دشمنوں کے اشاروں پر ناچ رہا ہے اور یہ بھی کہ وہ اسی باڑ کی وجہ سے کم ہوئی دہشت گردوں کی آمد سے بھی ناراض ہے کیونکہ یوں اس کے اصل کاروبار کو دھچکا لگ رہا ہے اور امن آنے سے اُس کی لیڈر ی بھی خطرے میں پڑ چکی ہے بلکہ ایک طرح سے ختم ہو جائے گی۔اُس کا یہ بیان یہ بھی ثابت کر رہا ہے کہ یہ لوگ تشدد پھیلانے کے لیے اپنا پورا زور لگا رہے ہیں اور بہت ساری پر تشدد کاروائیوں میں ان کے ہاتھ ہونے کے امکان کو بالکل بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ جس خاردار تار کو یہ کاٹنے کی بات کر رہا ہے اس کو موقع پر دیکھنے والا ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ اُس کو کس مشکل سے لگایاگیاہوگا کم از کم مجھے اسے دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ یہ کسی انسان کا کام ہے لیکن پاک فوج کی صلا حیت کا اندازہ ہونے کی وجہ سے مجھے یہ یقین کرنا پڑاکہ اسے لگانے والے کچھ خاص قسم کے انسان ہی تھے اور اس کی دشوار ی یہ بھی یقین دلاتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی ختم کرنے کی کوششوں میں کتنا سنجیدہ ہے ورنہ سرحد کو اب بھی کھلا چھوڑا جاسکتا تھا اور اپنے وسائل اور جانوں کی قربانی دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی اگر سرحد پار بیٹھے ہو ئے مقامی اور بھارت سے آئے ہوئے دشمن سرحد کے اس پار دہشت گردوں کی درآمد نہ کرتے اور پی ٹی ایم جیسی تنظیموں کو تعاون نہ فراہم کرتے، انہیں وہ وسائل اور دولت نہ دی جاتی جو ان پہاڑوں میں بیٹھ کر یہ لوگ حاصل نہیں کر سکتے تھے اور اب بھی کچھ مقامی لوگوں کے علاوہ مقامی طور پر انہیں وہ تعاون حاصل نہیں تو یہ لوگ اپنی یہ معمولی کامیابی بھی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ وزیرستان کے لوگ اور دیگر قبائل دیکھ رہے ہیں کہ پہلی بار اُن کے علاقے پوری قوم کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں اور یہاں ترقی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ انہی کوششوں کی وجہ سے ملک میں امن قائم ہو رہا ہے لیکن یہ گروہ اب بھی ناراض ہے بلکہ زیادہ ناراض ہے کہ کیوں ان کی لیڈری کو خطرے میں ڈالا گیا ہے۔ مجھے یہاں حکومت سے بھی یہ اختلاف ہے کہ وہ کیوں اس طرح کے بیانات پرکوئی ایکشن نہیں لیتی اور ان متشدد اور ملک دشمن بیانات پر کیوں چپ ہے اور سیاسی جماعتوں سے بھی کہ وہ کیوں ان لوگوں کی مذمت کرنے کی بجائے خاموش رہتی ہیں بلکہ کچھ سیاسی جماعتیں تو ان کی مدد گار بن جاتی ہیں، جیسے عوامی نیشنل پارٹی جس نے مشکل سے خود کو قومی دھارے کی جماعتوں میں شامل کیا تھا ا س کے رہنما اسفندیار ولی نے کھل کر پی ٹی ایم کی تائید کی اور کہا کہ پختونوں کو اپنے حقوق کے لیے متحد ہونا پڑے گا حقوق مانگنا اور اس کے لیے متحد ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اتحاد کس کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ بلکہ انہوں نے تو اسے اپنے منشور کا حصہ کہا یوں ایک ملک دشمن نظریے کی حمایت کی۔ بلاول زرداری بھی ا ن لوگوں کو درست قرار دے چکا ہے لیکن کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ پاک فوج نے ان سے مذاکرات بھی کیے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اس کی مخالفت نہیں چھوڑ رہے آخر کیسے یہ اپنے ہی ملک کی فوج کے دشمن ہیں۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ فوج نے ان کے علاقے میں کتنی قربانیاں دیں ہیں اور کیسے ان کو دوبارہ رہنے کے قابل بنایا اور کیا حکومت اور سیاستدانوں کو ان لوگوں سے اس طرح کی گفتگو پر پوچھ گچھ نہیں کرنی چاہیے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر قربانیوں کے باوجود کئی سیاستدان بھی اپنے محافظوں کے خلاف بولتے ہیں تو وہ کیسے ان کی شنوائی کر سکتے ہیں ہمیں نہ صرف ایک دوسرے کے لیے رویہ بدلنے کی ضرورت ہے بلکہ غلط لوگوں اور ملک دشمنوں کی زبان اور حرکات پر نہ صرف نظر رکھنی ہے بلکہ ان کی زبان بندی بھی ضروری ہے ورنہ ہم اِن اندرونی دشمنوں کی وجہ سے بیرونی دشمنوں سے بھی اپنا دفاع نہ کر سکیں گے۔