Posted date: September 01, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
شمالی وزیر ستان کے انتہائی دشوار گزار ‘ پُر پیج سخت اونچی نیچی چٹانی وا دیوں کے پُر خطر علاقوں میں پاکستانی مسلح افواج کے نڈر جوان اپنے بے خوف بہادر افسروں کے ہمراہ گولیوں کی تڑ تڑا ہٹ ‘ خود کار ہتھیاروں کی گھن گرج ‘ آگ کے شعلوں اور بارود کے دھویں کے سیاہ بادلوں کی گھرے بے پرواہ ہوکر اپنے پیارے وطن پاکستان کو سفاک وظالم دہشت گردوں سے پاک کرنے کی مہم جوئی میں منہمک اپنے اُٹھائے گئے اُس حلف کی پاسداری کاعہد نبھا رہے ہیں جو اُنہوں نے بحیثیت پاکستانی فوجی سپاہی کے اور بحیثیت کمیشنڈ آفیسر اُٹھایا ہوا ہے جس حلف میں اُنہوں نے قسم کھائی ہے کہ ’ وہ پاکستان کی زمین پر‘ پاکستانی ہواؤں میں ‘ پاکستانی فضاؤں میں اور پاکستانی سمندر ی حدود میں ہر قیمت پر پاکستان کی حفاطت کریں گے چاہے اِس ادائیگی ِٗ فرض میں اُن کی قیمتی جان کیوں نہ وطن پر قر بان ہوجائے ،اِس وقت پاکستان کے شمالی وزیر ستان میں پاکستانی فوج تاریخ کی اِسی انتہائی اہم اور فیصلہ کن جنگ لڑنے میں مصروفِ عمل ہے‘ دوسری طرف ملک کے اندر وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں گز شتہ تقریباً دوہفتوں سے زائد عرصہ سے لگ بھگ غالباً40-50 ہزار افراد کے دو سیاسی اجتماعات کے دھرنوں نے ملک کی اندرونی امن وامان کے لئے تشویش کی حد تک سنگین تر مسائل کھڑے کردئیے ہیں جس کا کسی بھی سطح پر جو حل نکلے وہ صرف اور صرف اور کچھ نہیں ہوسکتا یعنی ’سیاسی سمجھوتہ ‘ جسے عرفِ عام میں ’مذاکرات ‘ کہا جاسکتا ہے جو یقیناًہر فریق کو قابلِ قبول ہونا چاہیئے تاحال اِن دونوں سیاسی دھر نوں کے شرکاء نے اسلام آباد والوں کی سماجی ومعاشرتی اورتجارتی زندگیوں کے شب وروز کو بہت ہی بُری طرح سے تہہ وبالا کیا ہوا ہے حکومتِ وقت کے اعلیٰ سطحی ذمہ داران کے لئے یہ وقت واقعی اُن کی سیاسی فہم وبصیرت کے امتحان کا وقت ہے، دیکھنا یہ ہے کہ جمہوریت کے اعلیٰ معروف عالمی اُصولوں کی پاسداری کا لحاظ وپاس رکھتے ہوئے کس طرح پُرامن طور پر کسی بھی جان کا نقصان کیئے بغیر اِس امتحان سے کیسے نکلتے ہیں ؟ یہ سوال کل تک یعنی 30-31 اگست تک پوری قوم کو سہمائے ہوئے تھے مگر دونوں سیاسی دھرنوں کے قائدین عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ حکومتی مذاکرات کسی پُرامن فیصلہ کن نتیجہ پر پہنچے بغیر یکدم غیر ذمہ دارانہ انتظامی ہڑبونگ کا شکار ہوئے سرکاری سطح پر اب تک 3 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے آخری لمحات کی خبروں تک کچھ مظاہرین نے ایوانِ وزیر اعظم کے سامنے پہنچ کر دھرنا دیا ہوا ہے اور عمران خان نے اوّل روز کے جنونی جوش وجذبوں کے ساتھ پارلیمنٹ چوک پر انتخابی دھاندلیوں کی شفاف تحقیقات ‘ حکومتی اعلیٰ ذمہ داروں کی مالی کرپشن کے احتساب ‘ انتخابی اصلاحات کے انقلابی ایجنڈے کو بہر صورت بروئےِ کار لانے اور وزیر اعظم نواز شریف کے استعفیٰ لینے کے لئے اپنا دھرنا دئیے رکھا ہے دوسرے لفظوں میں متذکرہ بالا ’سیاسی معاملات ‘ میں پائے جانے والے نکات پر اگر غیر جانبدرانہ نکتہ ِٗ نگاہ اگر یہاں ہم کہنے کی ’جسارت‘ کریں کہ جنابِ والہ! اعلیٰ حکومتی زعماء ‘ پارلیمنٹ میں جمہوریت کے حلف کا تحفظ کرنے والی جماعتیں اور پارلیمنٹ سے باہر کی ایک سیاسی جماعت یعنی پاکستان عوامی تحریکPAT ڈاکٹر قادری صاحب اورعمران خان کی پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف یہ سبھی کے سبھی ’جمہوریت ‘ کے سوا کسی اور سسٹم کو پاکستان میں لانے یا نافذ کرنے کی باتیں کہاں کررہے ہیں ؟ گزشتہ 16-17 روز سے ہر جانب سے ’جمہوریت جمہوریت ‘ اور ’جمہوریت ‘ ہی کے طرزِ سیاست کی باتیں سن سن کر عوام کے کان پک چکے ہیں جمہوریت پر کیسے کیسے تجزئیے اور تبصرے آرہے ہیں وزیر اعظم خود اور اُن کی کابینہ کے چند زور آور وزراء اور اُن کی حکومتی سیاسی جماعت کے طرفدار میڈیا پرسنز اور حمائتی کے گلے شکوؤں کے شکوک وشبہات نے عوامی طبقوں اور تجارتی حلقوں کی نیندیں اڑا رکھی ہیں ’کسی کو بھی ہم ملک میں جاری ’ جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹنے نہیں دیں گے آخری دم تک ’جمہوریت ‘ کا تحفظ کیا جائے گا ‘ چند ہزار افراد کوجمع کرکے جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا چند روز پیشتر صرف ’جمہوریت ‘ ہی ہر کسی کو خطرے میں نظر آرہی تھی‘ بڑی سوچ بچار کے بعد ’جمہوریت ‘ کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہر ایک جمہوریت پسند کو اب ’آئین ‘ بھی خطرے کی زد میں آتا نظرآنے لگا اب کہا جارہا ہے ’آئین اور جمہوریت ‘ کے خلاف حکومت کسی بھی ’ہجوم ‘ کے سامنے اپنے آپ کو ’سرنڈر ‘ نہیں کرئے گی اب تو جمہوریت پسند سبھی حکمرانوں ( یہ ایسی جمہوری حکومت ہے جہاں نام کی اپوزیشن نہیں ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ جیسے اہم صوبے میں حکومت قائم ہے ) وہ وفاق میں الہ ماشاء اللہ ! اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت کررہی تھی پنجاب جیسے سب سے بڑے صوبے میں مسلم لیگ ن کی حکومت بخوبی چلتی رہی پارلیمنٹ میں محمود خان اچکز ئی حکومت کی اتحادی ‘ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی اتحادی ‘ ایم کیو ایم ’لار الپے کے دوستانہ مزاج کی سیمابی صفت کی اتحادی جماعت ’نہ گلاس توڑے نہ بارہ آنے دے ‘ جب چاہو مشورہ مفت لے لو ایسی جماعت ہو تو کیسی کو کیا خطرہ ؟؟رہی سہی اصل اور واقعی اپوزیشن پاکستان تحریکِ انصاف نے استعفیٰ دے کر اِن سبھی ’جمہوریت پسندوں‘ کے لئے مزید ’جشن اور میلے ‘ کا دل پسند سما ں مہیا کردیا ہے یہ سب کی سب سیاست کی باتیں ہیں عوام کے اصل مسائل سے اِن غیر سنجیدہ باتوں سے رتی برابر بھی کوئی تعلق نہیں بنتا گزشتہ 6-7 برسوں سے ملک میں جاری اِس ’دوستانہ جمہوری نظام ‘ جہاں حقیقی چیک اینڈ بیلنس نام کو نہیں ہے جمہوریت اگر اِسی طرزِ حکومت کو کہتے ہیں تو جمہوریت پر عوام کے متاعِ ٰیقین کو متزلزل ہونے سے کوئی بچا پائے گا آئندہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات پر ووٹ دینے کے لئے عوام کیوں نکلیں عمران خان اور طاہر القادری دونوں غلط ‘ دونوں نے عوام کو گمراہ کیا ‘ اگر یہ صحیح تسلیم کرلیا جائے تو میڈیا کے اِس انتہائی ترقی یافتہ دور میں ‘ جہاں عمران خان اور طاہر القادری دونوں نے اپنے اپنے احتجاجی دھرنوں کے دوران جتنی بار بھی عوام کے سامنے جمہوریت کی جو اصل اور حقیقی تصویر عوام کے روبرو پیش کی کیا وہ صحیح اور برحق تصویر تھی یا جمہوریت کا جو ’دوطرفہ رخ‘ زرداری عہد میں یا آج نواز شریف کے عہد میں عوام دیکھ رہے یہ صحیح ہے ؟ سچی اور حقیقی جمہوریت بغیر کسی سخت،کڑے اور غیر ’’مفاہمانہ احتساب‘‘ کے روبہ ِٗ عمل آسکتی ہے ؟ تیسری دنیا کے ممالک کی جمہوری تاریخیں ایسی ہی ’مفاہمانہ جمہوریتوں‘ کے ظلم وستم سے بھری پڑی ہیں عوام کو بیدار ہونا پڑے گا پاکستان کی حقیقی ترقی و خوشحالی کا خواب اُس وقت تک شرمندہ ِٗ تعبیر نہیں ہوسکتا، جب تک ملکی جمہوری نظام کی بنیادیں منصفانہ جمہوری عدل کے حقیقی و مضبوط سسٹم پر استوار نہیں ہوجاتیں، بدقسمتی سے 67 برس گزر گئے، ہمارے ہاں ’خاندانی اقرباء پروری ‘پر قائم جمہوری سیاسی جماعتیں ہمارے قومی معاشرے میں رچتی بستی جارہی ہیں کوئی اِن کا راستہ روکنے کے لئے آگے بڑھنے کی جراّت کرتا ہے تو ’عقل سے پیدل ‘ عوام تمیز نہیں کر پاتے ’اُن کا ہمدرد کون ہے اور دشمن کون؟‘