نغمہ حبیب
داؤد ابراہیم کہاں ہے بھارت نہیں جانتا لیکن وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ پاکستان میں ہے جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھارت میں ہی ہو لیکن چونکہ پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی پروپیگنڈا تو کرنا ہے اور شاید موضوعات کی کمی ہوگئی یا پاک چین معاہدوں نے بھارت کو بوکھلادیا تو داؤد ابراہیم کا گاڑھامردہ اکھاڑدیا گیا اور یا اسے شاید اس لیے اکھاڑا گیا کہ کراچی میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت اور را کی مداخلت اور موجودگی کھل کر سامنے آگئی اور اب تو بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکرنے کہہ ہی دیا کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کرارہا ہے یعنی دیدہ دلیری سے اعتراف بھی کر لیا گیا لیکن الزام پھر بھی پاکستان پر لگایا جاتاہے اور اپنے ہاں خود ہی کروائی جانے وا لی د ہشت گردی کا ذمہ دار بھی پاکستان کو قرار دیا جاتا ہے اور ایک تاثر داؤد ابراہیم کے بارے میں بھی یہی پایا جاتا ہے۔ ایک بھارتی وزیر ہری بھائی چوہدری نے کہا کہ جب داؤد ابراہیم کا پتہ چل جائے کہ وہ کہاں ہے تو اس کے خلاف ایکشن ہوگا اور جب اس کے اس بیان پر تنازعہ اٹھا کہ اب تک معلوم کیوں نہیں تو امور داخلہ کے وزیر مملکت کرن رجیو نے کہا کہ حکومت کا موقف یہی ہے کہ وہ پاکستان میں ہے اور یہ کہ ہری بھائی چوہدری کے بیان کا غلط مطلب نہ لیا جائے کیونکہ اُس کا یہ بیان ایک خاص سوال کے جواب میں تھا اس سے پہلے بھارت کے مطابق پچاس مطلوب ترین اشخاص کی فہرست جو اس نے پاکستان کو دی تھی اس میں اس کے بقول داؤد ابراہیم کراچی میں کلفٹن کی ایک گلی میں رہتا ہے اور بھارت اس کے گھر کا نمبر بھی جانتا ہے اگر بھارت یہاں تک پہنچ چکا تھا تو داؤد ابراہیم اس کے ہاتھ سے محفوظ کیسے رہ گیا جبکہ کراچی میں وہ کھلم کھلا دہشت گردی کررہاہے اور اس کا وزیر دفاع اس کا اعتراف بھی کررہا ہے تو اس ایک شخص کو بھی کسی دہشت گرد حملے میں ماردیاجاتا۔ بھارت کو داؤدابراہیم کی سرگرمیوں پر شک اس لیے بھی ہے کہ اس کی دو بیٹیاں پاکستانیوں سے بیاہی ہوئی ہیں تو کیا ایسی دوسری مثالیں نہیں ہیں لیکن اس کی مجرمانہ سرگرمیوں کا سہارالے کر اسے پاکستان کے سرتھوپ دیا گیا ہے۔ داؤد ابراہیم بھارت کا شہری ہے اور اس کی مجرمانہ سرگرمیوں کا وہ خود ذمہ دار ہے اس کا کاروبار اگر پھیلاہے جو پیسوں کا حوالہ یا ہنڈی ہے تو اس میں بھارتی ایجنسیوں کا قصور ہے لیکن خود اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے کی بجائے وہ الزام پاکستان پر ڈال رہا ہے حالانکہ اسے تو اپنی پولیس اور اپنی ایجنسیوں اور اداروں سے پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔ بالفرض اگر وہ پاکستان میں ہی ہے تو ’’عظیم بھارت ‘‘کی عظیم پولیس کے شکنجے میں آیا کیوں نہیں بلکہ اس سے نکلنے میں کامیاب کیونکر ہوگیا ۔ ممبئی پولیس کے سابق چیف ستیا پال نے کہا کہ داؤدکی حتمی لوکیشن کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں۔ اگر 1993 کے ممبئی دھماکوں میں ملزم ٹھہرائے جانے کے بعد اکیس بائیس سال تک وہ نہیں پکڑا جا سکا تو کیا ایسا تو نہیں کہ بھارت خود ہی اسے پکڑنا نہیں چاہتا تاکہ وقتاًفوقتاً اس کا ایشو اٹھاتا رہے۔ اس نے کچھ الزامات پاکستان پر مستقل لگائے رکھنے کا تہیہ کیا ہوا ہے مثلاًممبئی حملے اور جب چاہتا ہے انہیں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈاکرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اگر بھارت اپنے تمام مجرموں بشمول داؤد ابراہیم کے پکڑنے پر اتنی محنت اور منصوبہ بندی کرتا جتنا وہ پاکستان میں دہشت گردی کروانے پر کرتا ہے تو اب تک وہ پکڑے جا چکے ہوتے لیکن وہ یہ ذمہ داری پاکستان پر ڈال رہا ہے اور وزیر داخلہ راج ناتھ کا کہنا ہے کہ چونکہ انٹر پول داؤد ابراہیم کے ریڈ وارنٹ جاری کرچکا ہے اس لیے پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اس کو ڈھونڈے توکیا اس کو کہیں بھی ڈھونڈنا چاہے وہ بھارت میں ہو پاکستان کا کام ہے اس قسم کی باتیں اور وہ بھی ایک وزیر کے منہ سے اپنی ناکامی کا خود اعتراف ہے۔ پاکستان بھارت کے احکامات کا پابند نہیں ہے اور جب وہ بارباران الزامات کو رد کررہا ہے تو پھر اس کی کونسی ذمہ داری بنتی ہے۔ حال ہی میں نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے یوپی پریس کلب کے زیر اہتمام ایک تقریب میں بھی ان الزامات سے سختی سے انکار کیا۔ جب کہ دوسری طرف بھارت کا وزیر دفاع اس بات کا اقرار کررہاہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کرارہاہے اگرچہ ان کے اس بیان سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا کیونکہ یہ بات پہلے بھی ثابت شدہ تھی لیکن اگر ملزم اقرار جرم کرلے تو وہ مجرم کہلاتا ہے اور جرم کی سزا بھی ہوتی ہے اور اگر یہ سزا نہ دی جائے تو آج ایک کے خلاف جرم کرنے والا کل سب کے خلاف جرم کرے گا اور پھر اس کی انتہا نہیں آتی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے تو کہہ دیا ہے کہ پاکستان اپنی سا لمیت اور دفاع کے لیے ہر قدم اٹھائے گا لیکن بین الاقوامی برادری کو بھی بھارت کو لگام ڈالنا ہوگا ورنہ مجرم پڑوس سے نکل کر اگلے محلے تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ بھارت اپنی مکار ذہنیت سے کبھی نہیں نکلا ہے اور اس لیے اس کی یہ باتیں نئی نہیں ہیں لیکن پاک چین معاہدوں نے اسے کبھی کے بھولے ہوئے غم بھی یاد دلادیئے ہیں جن کے الزامات اس نے پاکستان پر لگانا شروع کردیے ہیں تاکہ پاکستان کے امن کو جہاں اس نے دہشت گردی سے تباہ کیا ہوا ہے اب اس کی ساکھ کو مزیدنقصان اس قسم کے الزامات سے پہنچائے۔حالانکہ خود وہ یہ کام پاکستان کے خلاف کررہا ہے اور برہمداغ، حربیار، فضل اللہ اور ا نہی جیسے دوسرے شرپسند اور انسانوں کے قاتلوں کو مسلسل مدد اور تعاون فراہم کررہا ہے اور ببانگ دہل کررہا ہے۔ داؤد ابراہیم بھارت کا اپنا درد سر ہے وہ ا س کو جہاں ڈھونڈتا ہے ڈھونڈے ممبئی، کلکتہ، دہلی، مدراس کئی سارے بڑے شہروں میں اس کے انڈر ورلڈ کے کئی سارے ڈان رہتے ہیں وہ بھی انہی کے ساتھ کسی زیر زمین محل میں رہتا ہوگا۔لہٰذا اگر بھارت اپنی توانائیاں درست سمت میں لگائے تو شاید کامیاب بھی ہو جائے لیکن اگر بھارتی حکومتیں اپنے عوام کے منہ بند کرنے کے لیے یہی آسان حربہ آزماتی رہیں کہ ان کا ہر مجرم پاکستان میں ہے تو پھر اس کے لوگ کسی کامیابی کی اُمید نہ رکھیں اور ان ملزموں اور مجرموں کے رحم وکرم پر رہنا اپنا مقدر سمجھ کر صبر کرلیں اور اپنی حکومتوں کو اپنے حیلوں بہانوں سے حکومت کرنے دیں۔