Posted date: May 31, 2013In: Urdu Section|comment : 0
انتہا پسندی /دہشت گردی ایک ایسا نا سور ہے جس کی موجودگی میں دنیا میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردی کے سرطان نے دْنیا کے ہر طبقہء فکر کو اضطراب اور پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس عفریت سے نمٹنے کے لیے ہر ذی ہوش بر سرِ پیکار ہے۔ عالمی دہشت گردی کا آغاز 9/11 کے واقعہ سے ہوا جس میں القا عدہ منظرِعام پر آئی جو تب سے تمام دنیا کو انتہا پسندی کی لپیٹ میں لینے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ القا عدہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مختلف ممالک میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے اور اپنی کاروائیوں کو جاری رکھنے کے لیے اِسے بڑی تعداد میں کارندوں کی ضرورت پڑتی ہے۔نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسانے سے لے کر دہشت گردی کی کاروائی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے تک یہ تنظیم مختلف طریقہ کا ر اور تکنیک استعمال کرتی ہے۔
دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کو پایہء تکمیل تک پہنچانے میں ذرائع ابلاغ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں اپنے نئے ہدف اور کارندے ڈھونڈنے کے لیے میڈیا کیمختلف ذرائع استعمال کرتی ہیں جن میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ذریعہ انٹرنیٹ ہے انٹرنیٹ ذریعے ملکی اور غیر ملکی سطح پر ایسے نوجوانوں کو باآسانی ڈھونڈا جاسکتا ہے جنہیں دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال کیا جا سکے۔دہشت گرد تنظیمیں باقاعدہ طور پر اپنے میگزین اور کْتب انٹرنیٹ پر جاری کرتے ہیں جن میں معصوم لوگوں کو انتہا پسندی کی ترغیب دینے کے لیے مناسب مواد موجود ہوتا ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعے اس مواد تک ہر انسان کی رسائی نہایت آسان ہے۔ معاشی معاشرتی اور نفسیاتی طور پر کمزور، تنہائی پسند، قوت ارادی اور اعتماد کی کمی، والدین کی عدم توجہی کاشکار، جوشیلے اور غصیلے نوجوان انٹرنیٹ پر موجود مواد سے باآسانی متاثر ہو سکتے ہیں۔
یہ افراد کو ایک نہایت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتہا پسندی کی طرف مائل کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی عمل ہے جس کے ذریعے ان کے ذہن میں خدشات اور اندیشوں کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ موجودہ نظام کے خلاف نفرت، فرقہ وارانہ تعصبات، غیر مسلموں کے خلاف جارحیت اور ریاست کے خلاف اْٹھ کھڑے ہونے کے احساس کو پروان چڑھا کر ان کی سوچ میں بغاوت کا بیج بویا جاتا ہے۔ جِسے برین واشنگ ((Brainwashing کہا جاتا ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائی، بیانصافی، غیرمتوازن معیشت، مغرب زدہ روشن خیالی بغاوت کے جذبے کو تقویت دی جاتی ہے۔ یہ دہشت گرد عناصر اسلامی تعلیمات کو اپنی مرضی اور منشاء4 کے مطابق معنی دے کر معصوم نوجوانوں کودینِ اسلام کی حرمت بچانے کے واسطے دیتے ہیں۔ ایک خود اعلانیہ اور خود ساختہ جہاد کی منظرکشی کی جاتی ہے اور نوجوانوں کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ اس جہاد کا حصہ بن کر وہ فلاح کی راہ پر گامزن ہو سکتیہیں۔ ان تمام باتوں سے ایک کم سن اور کم فہم نوجوانوں کے منفی جذبات کو اس قدر بڑھا دیا جا تا ہے کہ وہ اس کارِخیرکو انجام دینے کے لیے اپنے گھر بار، ماں باپ، بھائی بہن، علاقہ سب کچھ چھوڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
دہشت گردوں کی توقعات پر پورا اْترنے والے نوجوانوں کی اگلی منزل انتہا پسندی /دہشت گردی کے تربیتی مراکز ہیں ان مراکز میں زیر تربیت بچے مختلف تربیتی مراحل سے گزرتے ہیں۔جس کے نتیجے میں انتہا پسند سوچ مکمل طورپر ان کے ذہنوں میں گھر کر لیتی ہے۔ مرکز میں زیر تربیت بچوں کو اسلامی تاریخ کے بہادر مسلمان جنگجوؤں کی کامیابی سے متعلق ایسی کْتب کا مطالعہ کروایا جاتا ہے جو لڑائی میں حصہ لینے کے خواہش مند بچوں کے نزدیک دلچسپی کی حامل ہوتی ہیں۔ویڈیو فلمز کے ذریعے دنیا بھر میں مسلمانوں پر ڈھائیجانے والے کی منظر کشی کی جاتی ہے۔فلسطین ،افغانستان ، عراق وغیرہ میں مغربی مداخلت کے باعث ہونے والی قتل و غارت کے واقعات، عورتوں کی بے حرمتی، بچوں کے ساتھ ہو نے والے مظالم اور مسلم ممالک میں کفار کے حملیکی ویڈیوز دکھا کر کم سن ذہنوں میں بدلے کی آگ کو بھڑکایا جاتا ہے۔
دہشت گرد دل سوز نظموں اور ترانوں کو نہایت مہارت سے ترتیب دے کر انہیں آڈیو/ ویڈیو کیسٹ کے ذریعے انتہاپسندی، مخالف گروپ کے ساتھ جارحیت اور دشمن کے خلاف برداشت کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کو جواز بنا کر ایسے اعلانات اور فتاویٰ جاری کیے جاتے ہیں جس سے زیرِ تربیت ہر نوجوان ان خود ساختہ دینی شخصیات کا حکم بجا لانا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔ ان فتاویٰ میں اپنے ہی ملک کے خلاف جہاد کر نا، بے گناہ لوگوں کی جان لینا، خودکش حملے، بم دھماکے ، ٹارگٹ کلنگ،سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہچانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ انتہا پسند اس وقت بیرحمی کی انتہا کر دیتے ہیں جب وہ کم سن اور معصوم بچوں کو نشہ آور ادویات اور انجکشن دے کر ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب دیتے ہیں۔ ان نوجوانوں کا ذہن اس قدر ماؤف کر دیا جاتا ہے کہ وہ صحیح اور غلط کی پہچان کرنے کے قابل نہیں رہتے۔
مندرجہ بالا وہ تمام شیطانی و مکروہ طریقے ہیں جن کی بدولت دہشت گرد عناصر معصوم بچوں کو ورغلا کر اپنے گروہ میں شامل کر تے ہیں اور پھر ان سے غیر اسلامی کاروائیاں کرواتے ہیں۔انتہا پسندوں کے ان ہتھکنڈوں سے آگاہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نوجوان نسل کو انتہا پسندی کی اس دلدل میں دھنسنے سے بچا یا جا سکے۔ معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ نوجوان نسل کو اس گمراہی کا شکار ہونے سے روکے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں کی مکمل نگرانی کریں اور انہیں ذرائع ابلاغ سے ملنے والی معلومات بالخصوص انٹرنیٹ پر ان کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھیں۔ان کے دوستوں کے بارے میں معلومات رکھیں۔والدین اپنے بچوں کو معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیوں اور انتہا پسندی کی تر غیب دینے والوں کی کاروائیوں کے خلاف ہوشیار رہنے کی ہدایت دیں۔ اپنے بچوں کو دہشت گردوں کے غیر اسلامی اور غیر انسانی مقاصد کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کریں۔ اور اسلام کی اصل تعلیمات ،جہاد ،شہادت اورقربانی کے حقیقی معنی سے متعارف کروائیں۔ تمام تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو اسلام کی سچی تعلیمات سے روشناس کروانے کے لیے باقاعدہ مناسب انتظام ہونا چاہیے۔ تا کہ قرآن اور حدیث کی تعلیمات کو کوئی بھی انتہا پرست دہشت گرد اپنے ذاتی گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ اربابِ اختیا ر متعلقہ محکمے انٹرنیٹ پر دہشت گردوں کی تمام ویب سائٹ پر کڑی نظر رکھتے ہوئے انھیں بلاک کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔میڈیا اخبارات و رسائل اورٹی وی چینلز کے ذریعے ایسے مضامین، خبریں اور پروگرام نشر کرے جن سے ہرانسان کے دل میں ان دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف آگاہی پیدا ہو بلکہ ان سے نجات پانے کے لیے ہر ذی ہوش انسان سرگرمِ عمل ہو جائے۔