Posted date: January 29, 2015In: Articles|comment : 0
نغمہ حبیب
دوسری جنگ عظیم نے سالہا سال تک دنیا کو آتش و آہن کی آماجگاہ بنا کر رکھا ہوا تھا۔ اس جنگ کے دوران اور بعد میں جو کچھ ہوا وہ انسانیت کی تلخ یادیں ہیں لیکن اس جنگ کے اختتام پر دنیا کو جو ایک اُمید کی کرن نظر آئی وہ لیگ آف نیشن اور پھر اقوام متحدہ کا قیام تھا۔24 اکتوبر 1945 کو باضابطہ طور پر اس کا قیام عمل میں آیاتو اس نے اپنا جو مقصد بیان کیا وہ دنیا کو جنگ سے بچانا تھا اگرچہ اب بھی اس معاملے میں اس کا کردار متنازعہ ہی ہے اور اس کی وجہ وہ بڑی طاقتیں ہیں جو سیکورٹی کونسل کے نام پر اس ادارے پر اپنی اجارہ داری قائم رکھے ہوئے ہیں اور حقیقتاً ویٹو پاور کے نام پر یہ ممالک اپنی من مانی کرتے رہتے ہیں۔ یوں تو ان ویٹو پاورز کے ساتھ ساتھ دس غیر مستقل ممالک بھی اس کونسل کے ممبر ہیں تاہم حقیقتاً کسی معاملے پر صرف ووٹ دینے ہی کی حدتک محدود ہیں اور اس ووٹ کی اہمیت بھی صرف تب تک ہے جب تک کوئی بڑی طاقت اس فیصلے کو ویٹو نہ کردے۔ جنرل اسمبلی میں اگرچہ دنیا کے180 سے زائد ممالک کو رُکنیت حاصل ہے تاہم آخری فیصلہ سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کی مرضی سے ہی ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر بڑے ممالک کی یہ خواہش رہتی ہے کہ انہیں سیکورٹی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل ہو جائے۔ سیکورٹی کونسل کے غیر مستقل ارکان میں سے پانچ ایشیائی، دو لاطینی امریکی، دو مغربی یورپی اور ایک مشرقی یورپی ممالک میں سے چنا جاتا ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ یہ سارے ممالک پانچ مستقل ارکان کے سامنے بے بس ہوتے ہیں اسی لئے وقتاً فوقتاً سیکورٹی کونسل میں توسیع کی آواز اٹھتی رہتی ہے جسمیں بھارت کی آواز بھی کافی بلند ہوتی ہے۔ اگرچہ جرمنی اور جاپان بھی اسکے لئے کوشاں رہتے ہیں لیکن پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے ممالک کے لئے جو بات باعث تشویش ہے وہ بھارت کی اس اہم ادارے میں شمولیت کی کوشش ہے کیونکہ بھارت جیسا ملک جو علاقے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے کسی بھی حربے سے اجتناب نہیں کرتا اور خاصکر پاکستان کو دباکر رکھنا چاہتا ہے۔ اسکے ایٹمی اثاثوں تک رسائی یا انکی تباہی اسکا خواب ہے۔ بھارت جو اس مقصد کے لئے کوشاں ہے اگر سیکورٹی کونسل کی مستقل رکنیت