صرف کل تک
میرصاحب کی بیوی نےاپنے بچّےکو تین چار طمانچے لگاتے ہوئے کہا اور حلوے کی طشتری اس کے سامنے رکھ دی۔ وہ جھٹ آنسوپونچھ پلیٹ کی صفائی میں مصروف ہوگیا۔ اس نے مار کھالیا تو کیا ہوا بدلے میں اسے کھانے کواتنی ذائقہ دار چیز تو مل گئی س کا نام بھی اس نے پہلی بار سنا تھا۔ وہ پانچ سال کا ہو چکا اس عمر کے متوسط طبقہ کے بچّے بھی عام طور پرآس پاس استعمال میں آنے والے پھلوں اور مٹھائیوں سےواقف رہتے ہیں لیکن شمسی کیسے جانتا کیونکہ کبھی وہ اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ کر بازار بھی نہیں گیا تھا۔خہیں خالی جیب باپوں کے بچّے بھی بازار جاتے ہیں۔
سیمیں اکیلے کمرے میں جاکر دل کھول کر روئی۔ اسے اپنے اوپر غصّہ آرہا تھا کہ اس نے بچّے کی اس قدر دھنای کیوں کہ۔ پھر اس نے خود کو یوں دلاسا دیا کہ میں نے جو کیا ٹھیک ہی کیا۔ اس نے حرخت بھی تو ایسی کی تھی۔بھلا اسے کیا پڑی تھی کہ پڑوسی کے یہاں جاکر خوامخواہ حلوہ سوہن دیکھ کر ان لوگوں سے اس کا نام پوچھنے لگے۔ ان لوگوں نے کیا سوچاہوگا۔ اس بچّے نے وہاں ہماری ناک کٹائی جہاں کے بچّے بات بات پر ان بچّوں کو غریبی کا طعنہ دیا کرتے ہیں
‘‘ اللہ بھلا کرے بابا’’
شمسی اچھل پڑا اور آنکھ ملتے ہوئے دروازہ کی طرف دوڑا
‘‘آج کیا لائےبابا’’
اس نے پر اشتیاق لہجہ میں پوچھا باسی روٹیاں،سبزی اور ماش کی کھچڑی‘ہاں اپنی امّاں سے آج پیسے ضرور مانگ لینا’
‘پیسے کیا کروگے بابا‘
اس نے کمال اشتیاق سے پوچھا
’اب کھانا کھاچکا ہوں بچّہ چانڈو کی طلب ستا رہی ہے’
جب تک اس سے شمسی اس سے چانڈو کے بارے میں کوئی سوال کرتا وہ یہ جا وہ جا۔ وہ شاید یہ بھول گیا تھا کہ
اسے اپنے بھیک کے کھانے کی قیمت بھی لینی ہے
سیمیں نے بچّوں کو بھر پیٹ کھلاکر سلادیا۔ اسے خوب معلوم تھا کہ صدقہ سادات پر حرام ہے اوریہ کھچڑی اسکی پڑسن نے اس فقیر کو اسی مد میں بخشی تھی مگر کیا کرتی ہرطرف سے مجبور ہوچکی تھی ۔ ادھر کئی دنوں سےوہ بابا کی بھی مقروض ہوچکی تھی۔ اسے خوف ستانے لگاتھا کہ کہیں یہ سبیل بھی نہ بند ہوجا ئے اور ہم سب بھوکے مرجائیں۔ کئی بار میر صاحب نے سوچا کہ کیوں نہ وہ بھی بھیک مانگنا شروع کردیں مگرضمیر نے کسی طرح گوارا نہیں کیا۔
میر شرافت علی کا شمارگاؤں کے بڑے زمیںداروں میں ہوتا تھا۔ نوکر چاکر ،لونڈی غلام سب انھیں اللہ نے دے رکّھے تھے۔ انھوں نے کبھی اپنے نوکروں پر کبھی بے جا زور زیادتی نہیں کی۔ گاؤں والوں کی بھی دامے، درمے، قدمے اور سخنے ہر طرح مدد کرتے رہتے تھے۔
ایک بارگاندھی جی دورہ کرتے ہوئے ان کے گاؤں پہنچے۔ انھوں نےان کے سساتھیوں سمیت سب کی بہت مدارات کی۔بہت دنوں سے سوراج سوراج سن رہے تھے ۔ انھوں نے گاندھی جی سے سوراج کے معنی پوچھےاور تب سے سوراج کے خواب دیکھنے لگے تھے۔گاؤں پر آئے دن ڈاکوؤں کے حملے ہواکرتے تھے۔ ایک پولیس چوکی کی سخت ضرورت تھی۔ ایک مستقل بازار اورایک چوپال بھی یہاں بہت ضروری تھے۔انھیں یقین تھا کہ سوراج ان کی یہ ضرورت ضرور پوری کردےگا۔ انھیں خبر نہ تھی کہ یہ سوراج ان سے انکا سب کچھ ھ چھین کر نان شبینہ کو محتاج کردے گا
میر صاحب نےپاس لیٹے ہوئے نوسالہ بیٹےبخشی کے گالوں پر ہلکے سے پیار کرلیا جو بھوک کی حالت میں نڈھال ہوکر سوگیا تھا۔ کچھ دیر پہلے وہ اپنی اکلوتی قمیص پچھاڑ رہا تھا کہ شمسی نے اس کے حصہ کا کھانا ختم کردیا تھا۔ میر صاحب کو یاد آیا یہ وہی بخشی تو ہے جس کی پیدائش پر تین دنوں تک غربا ء میں خوراک تقسیم کی گئی تھی۔
سوراج نےمیر صاحب کے سارے خواب چکناچور کردئے۔ اب نہ زمیندار رہ گئے نہ زمینداری۔ چند ہزار روپئے معاوضہ میں ملےوہ کب تک چلتے ۔ شاہ خرچی مزاج میں تھی چند روز میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں بچی تھی ۔ زندگی بھر ڈیوڑھی پر پڑے رہنے والے نوکر بھی ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ اب ا کے پاس صرف بچا کیا تھا ایک مسکونہ مکان،ایک عدد بیوی اور تین بچّے۔ گاؤں میں زندگی گزارنا اب ان کے لئے دشوار تھا۔ جہاں چھوٹے موٹے حاکم کی طرح چکے تھے وہاں رعیت سے بدترزندگی گزارنا محال تھا۔ نچلے طبقہ کے رہن سہن میں کافی فرق آگیا تھا۔ وہ اب زمینداروں کے منھ لگنے لگے تھے۔انھوں نے گھروں پر کام کرنے بند کردئے تھے۔ اسکے علاوہ کہار ڈولی نہ اٹھاتےاور بہشتی پانی نہ بھرتے۔ ملک آزاد ہوئے ایک دہائی بیت چکی تھی مگر گاؤں ابتک پانی ،بجلی، اسکول اور اسپتال سے بے نیاز تھا۔۔ اسپتال کے نام پر دوا دینے کا کام گرام سیوک کے سپرد کردیا گیا جس نے اس سے بلیک مارکیٹنگ کا دھندا شروع کردیا ۔ میر صاحب اب
سوچتے کاش میرا گاؤں راج دھانی کے قریب ہوتا۔
میر صاحب گاؤں چھوڑ کر شہر آگئے ۔پہلے ارادہ تھا کہ کچھ کام دھندہ شروع کریںگے مگر یہاں ان کی ملاقات اپنے ہم نشینوں سے ہوگئی جو ذرا اچّھی حالت میں تھے۔ ان میں سے کچھ نے انھیں اپنے سرمایہ سے کاروبار شروؑع کرنے کا مشورہ دیا جو ان کی نظر میں ایک بنیا کا ہتک آمیز پیشہ تھا۔ پڑھے لکھے تھے نہیں کہ ملازمت کرتے۔ سنتے ہیں کہ اٹّھارہ سال کی عمر میں پانچویں جماعت میں ناکام ہونےپر افیم کھالی تھی ۔ بس پڑھائی ختم ۔ گزر اوقات کے لئے اچّھی خاصی زمینداری تو تھی ہی۔
کچھ عرصہ تک ان کی زندگی دوسروں سے ادھار پر چلتی رہی۔ قرض وہ خود نہیں مانگتے تھے بلکہ ان بچّے مانگ لاتے تھے ۔ قرض ب تک قرض کی طرح لیا جائے صاحب حوصلہ لوگ دے دیا کرتے ہیں لیکن جب وہ مال غنیمت بن جائے تو قرض خواہ ہمّت ہار جاتے ہیں ۔آخرش راہ قرض مسدود ہوگئی تو گھر کا اثا ثہ بکنے کی نوبت آگئی۔ گاؤں کا عالی شان مکان پہلے ہی اونے پونے فروخت ہو چکا تھا۔
دو دنوں سے گھر میں فاقہ مستی کا عالم تھا۔ پیسے نہ ملنے کے سبب وہ فقیر بھی روٹھ چکا تھا آج صبح سے میر صاحب کی نگاہیں گھر میں کسی قابل فروخت چیز کی متلاشی تھیں کہ اچانک سامنے انھیں اپنا حقّہ نظر آگیا۔ انھوں نے نیچہ الگ رکّھا اور پیتل کی فرشی اٹھالی۔۔ انھوں نے ایک گہری سانس کھینچی۔۔ انھیں وہ مفلوک الحالی کا دور یاد آیا جب ہر روزتقریباً ایک سیر تنباکو کشیدنی کا خرچ تھا پہروں رات گئے تک گڑ گڑی چلا کرتی۔ اگر اس وقت یہ خرچ بچ گیا ہوتا تو آ ج بچّوں کے کام آّتا ۔ یہ سوچ کر انھوں نے نیچہ کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے۔ جیسے کہ وہ اپنے سارے مصائب کا انتقام اس سے لے ررہے ہوں۔
فرشی بیچ کر انھیں صرف دو روپئے ملے۔ لکڑی نیچہ توٹنے سے مل گئی تھی ۔ دوروپے سے دو سیر آٹا خریدا۔ گھر آتے ہوٗے وہ سوچنے لگے یہ آٹا بھی کب تک چلے گا۔صرف کل تک۔ اچا نک کچھ سوچ کر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ کی طرف جھکے، تھوڑی دھول اٹھا ئی اوراس وقت انھو ں نےجو کچھ کیا اس مذموم حرکت کے لئے خود ان کی آنکھوں سے دو قطرےآنسو گرے اور وہ بھی اسی آٹے میں جذب ہوگئے
رضیہ کاظمی
۲۰ جولائی
۲۰۱۳
نوٹ۔۔۔۔۔۔۔یہ افسانہ بھی میرے زمانۂ طالب علمی کی تصنیف ہے۔ قارئین براہ کرم بوقت مطالعہ تقریباً چار دہائی پہلے کےہندوستان کے سماجی ،سیاسی اورمعاشی حالات کو مدنظررکّھیں۔اس میں موجودہ افسانہ نگاری کے رجحان کا فقدان لازمی ہے۔
رضیہ کاظمی