Posted date: April 05, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضاکاظمی
’لاف زنی کرنا ‘ ڈینگیں مارنا ‘ سرعام جھوٹ بولنا بے سروپا اور من گھڑت تاویلات گھڑ کراپنے آپ کو دوسروں میں معتبر بنانے کی ناکام کوششیں کرنا ‘خود کو بڑا ذہین و فطین ثابت کرنے میں آسمان وزمین کی قلابیں ملانے والوں کی کہیں کمی ہونہ ہو مگر ایسے ’لاف زن اسٹوریاں گھڑنے والے ‘ میڈیا رپورٹروں کی پاکستان میں بھرمار ہے، بڑی وافر مقدار میں جگہ جگہ ایسے لاعلاج مرض میں مبتلا افراد پائے جاتے ہیں رائی کو پہاڑ اور پہاڑ کو رائی بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ایسوں کی ’ایسی ہی ‘ کسی خبر کی جب کسی جانب سے اِنہیں کوئی تعریفی کلمات سے نواز دے تو تکبر ونخوت کی خوشی سے یہ پھولے نہیں سماتے، اُنہیں احساس ہوتا ہی نہیں اُن کی ’تعریف ‘ نہیں ہورہی ہے اُن پر ’طنز ‘ کیا جارہا ہے کب کسی نے انکار کیا ہے کہ انسانی فطرت کی رو سے ذرائعِ ابلاغ کی آزادی انسان کی بنیادی آزادی میں شامل نہیں ہے یہاں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ فی زمانہ پاکستانی عوام اپنے قومی سماجی و ثقافتی معاشرے میں نمو پذیر جمہوری قدروں پر کل سے زیادہ اعتماد کرنے لگے ہیں، ہمارے ہاں پر جمہوری قدریں مضبوط و مستحکم ہورہی ہیں، اظہارِ رائے کی آزادی کے اِن تاریخی لمحات کو ہم اپنے لئے قابلِ ستائش سمجھتے ہیں اور اپنے قومی ذرائعِ ابلاغ کے ذمہ داروں سے یہ امیّد کرتے ہیں کہ وہ ذرا اپنے اردگرد کے خالص پیشہ ورانہ ماحو ل کا ازسر نو جائزہ لیں، کہیں اُن کی صفوں میں ’کالی بھیڑیں ‘ جن کا صحافت سے دور کابھی واسطہ نہیں ہے وہ اِن کی صحافتی صفوں میں گھس کر اِن کی بدنامی کا باعث تو نہیں بن ر ہیں؟ایک بار نہیں ‘ بارہا اِن سطور میں گزارش کی جاچکی ہے کہ چند سرمایہ داروں نے اپنی ’کالی دولت ‘ کو جائز بنانے کے لئے’ پریس ‘ کے کاروبار کا لبادہ اُوڑھ لیا معاشرے کے معزز بن بیٹھے ملکی اقتدار کے ’پانچویں ستون‘ کے یہ چند گھس بیٹھے پریس کو اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کے لئے بطور طاقت استعمال کرنے لگے ہیں عوام کو ’معلومات ‘ پہنچانے جیسے معزز امور میں غیر ملکی آلہ کاروں کے ٹولز بنے اِن کا خاص ٹارگٹ سیکورٹی ادارے خاص کر ملکی فوج اور حساس ادارے ہیں اور کچھ نہیں تو کبھی ’تجارتی پریس ‘ کا یہ حلقہ بلوچستان کے انتظامی معاملات میں فوج کو ملوث کرنے جیسے الزامات عائد کرنے کی اپنی کہنہ فرسودہ عادت سے باز نہیں آتا، حال ہی میں گزشتہ ماہ مارچ کی سات تاریخ کو ایسے ہی ’لاف زن ڈینگیں ‘ مارنے والے چند مخصوص رپورٹروں نے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ایسی سنگین خبر میڈیا میں چلوادی، جس کی سچائی اور حقیقت کو جاننے کی تھوڑی سی پیشہ ورانہ کوشش بھی نہیں کی گئی، جیسا کہ آجکل سبھی جانتے ہیں کہ حکومت نے پارلیمنٹ میں موجود اور پارلیمنٹ سے باہر کی سیاسی جماعتوں کے باہمی مشوروں سے ’کالعدم تحریک طالبان پاکستان ‘ کے ساتھ جیسے تیسے ’مذاکرات ‘ شروع کررکھے ہیں اِس سلسلے میں شروع دن سے آج تک جتنی خبریں میڈیا کے توسط سے عوام تک پہنچائی جارہی ہیں اِن کی ’صداقت ‘ پر ہمہ وقت ایک سوالیہ نشان ضرور رہا کبھی کسی کی تردید آئی تو کبھی ’تردید ‘ کی ’تائید ‘ سامنے آگئی، یہاں ہمارا نکتہ صرف اتنا ہے کہ اِن ’متنازعہ فی ‘ خبروں میں یہ ’خبر ‘ اور کسی قومی ادارے کے لئے تکلیف دہ ہو یا نہ ہو، مگر‘ یہ خبر ملک کی مسلح افواج کے لئے بہت دکھ کا باعث بنی ہے، قوم کو بھی ملکی پریس میں شائع شدہ اِس خبر سے جہاں کافی رنج پہنچا وہاں قوم کے باشعور حلقوں میں بہت زیادہ غم و غصہ بھی پیدا ہوا جس میں ’کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان ‘ کی مذاکراتی ٹیم کے ایک اہم ممبر پروفیسر ابراہیم کے بیان کے مطابق ’ ٹی ٹی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی فوج پہلے مرحلے میں معصوم بچوں اور عورتوں کو رہا کرے ‘ خبر کی تفصیلات میں کہیں یہ تذکرہ نہیں
ملا کہ پاکستانی فوج نے کب ‘ کہاں اور کس موقع پر قبائلی معصوم بچوں اور عورتوں کو گرفتار کیا یا اپنی ’کسٹڈی ‘ میں لیاتھا؟ چونکہ یہ بے سروپا انکشاف ٹی ٹی پی کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کے ایک اہم رکن نے اپنے بیان میں کیا پریس کے اُسی چند مخصوص حلقوں نے اِس مبینہ ’انکشاف ‘ کو ڈھول کا پول بنا لیا پاکستانی فوج کو بدنام کرنا پاکستانی میڈیا کو قطعی زیب نہیں دیتا یہ سوال بہرحال اپنی جگہ پر ہے کہ اِس بارے میں کوئی بھی خبر میڈیا کے توسط سے عوامی حلقوں تک پہنچانے سے قبل اِس خبر کی ابتدائی تفتیش کرنے کی پیشہ ورانہ ذمہ داری کو نبھا نا ضروری کیوں نہیں سمجھا گیا ؟ فوج کے نام کو استعمال کرکے ‘ فوج پر جھوٹے افسانوی الزامات گھڑ کے زمینی حقائق وواقعات پر پردہ ڈالنے کی یہ انتہائی فاش غیر ذمہ دارانہ روش پاکستان کے ازلی دشمن اختیار کریں، تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے پاکستانی میڈیا کو یہ بالکل زیب نہیں دیتا، پاکستانی فوج گزشتہ چھ سات برسوں سے اب تک اپنی صفائیاں پیش کرنے میں ملکی محبِ وطن عوام کے علاوہ کسی اور جانب سے کوئی توقع نہیں رکھتی ‘ افسوس ! ملکی میڈیا کے ذرائع اپنے آپ کو ذمہ دارانہ صحافت کا پیش رو کہلانے میں یقیناًبڑ افخر محسوس کرتے ہوئے ہوں گے ؟ لیکن‘ ایسی غیر ذمہ دارانہ صحافت کو کیا نام د یا جائے جو حقائق کے برعکس صحافتی رویہ اختیار کرئے اور اُس پر نادم بھی نہ ہو اب تک نہ ہی پروفیسر ابراہیم صاحب نے اپنے اِس مذکورہ’سیاسی بیان ‘ کی تردید کی نہ ہی جس اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی اُسے توفیق ہوئی کہ’’پاکستانی فوج کی ’کسٹڈی ‘ میں نہ کوئی معصوم بچہ ہے نہ ہی عورتیں فوج کی حراست میں ہیں ‘‘
کالعد م تحریکِ طالبان پاکستان نے ’مذاکرات ‘ کو طول دینے کی غرض سے بچوں اور عورتوں کی مبینہ نامعلوم تعداد بلکہ ’نہ نام ‘ نہ اتہ پتہ ‘جیسا اُن کے منہ میں آیا اُنہوں نے یہ بے بنیاد دعویٰ داغ دیا خبر کو مزید زیادہ ’گرم ‘ کرنے کے لئے پولیٹیکل ایجنٹ کے کاروں کا نام لے لیا جاتا؟ جنونی مسلح عسکریت پسندوں نے براہ راست پاکستانی فوج کا نام لیا اور ملکی میڈیا نے اپنی بریکنگ نیوز کو سنسنی خیزی سے رنگین بنانے کے لئے اِس جھوٹی اور بے سروپا خبر کے کئی تماش بین پہلو تلاش کرلیئے فی الفور اصل اور خالص ترین پاکستانی پریس کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے کی طرف اب فوری توجہ دینی ہوگی پارلیمنٹ ‘ عدلیہ ‘ اصل قومی اور عوام دوست پریس او ر مسلح افواج سمیت لاء اینڈ آرڈر ایجنسیوں کے وفاقی و صو بائی انتظامی وقار کا خیال رکھے بغیر آئینی ریاست کو کیسے اور کیونکر ملک دشمن عناصر سے بچایا جاسکتا ہے؟یہ سوچنا اور اس بار ے میں عوامی اعتماد کو بحال کرنے میں کوئی اور نہیں قومی اور نجی پریس کو ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہوکر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا یہ ہی وقت ہے سوچنے کا بلا تاخیر عمل کرنے کا بھی ۔