سیّد ناصرر ضا کاظمی
جذبات سے مغلوب اعمال کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی ‘ نامرادی‘ پچھتاوا اور ندامت ہوا کرتا ہے پاکستانی فوج اور پاکستانی سپریم انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے خلاف اپنے دل کا کثیف زدہ غبار نکال کر ایم اکیو ایم کے بانی لیڈر الطاف حسین جیسے آجکل معافی ‘ معذرت انتہائی معذرت اور اندرونی پچھتاوے کی کمزور تاویلیں پیش کرنے میں اپنی خاص شہرت رکھتے ہیں ایسی ہی کچھ پچھلے دنوں یکم ؍ اپریل اور2 ؍ اپریل کی درمیانی شب کو قوم نے دیکھا اورمسٹر الطاف حسین کے مخصوص اندازِ خطابت پراپنی شدید تشویش کا اظہار کیا یہ جو الطاف حسین اور اُن کی رابطہ کمیٹی کے چند گنے چنے افراد باربار یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ اُن کے ’قائد ‘ نے طنزاً ’را‘ سے مدد لینے کی بات کی تھی جسے بہت بڑا ایشو بنادیا گیا سابقہ مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کی تذلیل کرنے کے بارے میں چند ایک ’حمود الرحمان کمیشن ‘ کا حوالہ دیا جن لوگوں نے ’حمود الرحمان کمیشن ‘ کا حوالہ دیا کوئی اُن سے یہ پوچھے کہ اُنہوں نے اِس کمیشن کی رپورٹ پڑھی ہے یا لوگوں سے سنی ہے تو اِس سوال کا اُن کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا مسٹر الطاف حسین کی پسندیدہ ایجنسی ’ را‘ نے مشرقی پاکستان میں اپنے غنڈے اراکین کو مسلمان بنگالی کو روپ دے کر وہاں جس طرح مسلمان بنگالیوں کا خون بہایا یہ سب کچھ بھی اُسی حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں درج ہے پاکستانی فوج کو ایک پہلے سے سوچی سمجھی عالمی سازش کے تحت ڈھاکہ میں یہ افسوس ناک دن دیکھنا پڑے تھے یکمِ اپریل کو الطاف حسین اور ایم کیوایم کے خلاف ملیر کے ایس ایس پی راؤ نے ایک پریس کانفرنس کی جس کی پاکستانی میڈیا نے اپنے تجزیاتی تبصروں میں بڑی مذمت کی تھی اِس پر الطاف حسین کو ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنا چاہیئے تھا کراچی ملیر کے ایس ایس پی کی پریس کانفرنس کا سارا غصہ اُنہوں نے پاکستانی فوج پر کیوں اتارا؟ پاکتسانی قوم کے ہر دلعزیز جنرلوں کی ٹوپی اور اُن کی اسٹکس کا بہیودہ تمسخر کیوں اڑا یا ؟ اپنی اُس پوری متنازعہ تقریر میں صرف فوج اور آئی ایس آئی کو تنقید کا نشانہ بنایا کیوں ضروری سمجھا گیا الطاف حسین جانتے نہیں ہیں کہ بار بار ایک ہی حساس قومی ادارے پر طنز وتنقید کا خطبانہ رویہ اختیار کیئے رکھنے سے وہ موضوع یا وہ طرزِ خطبات بے جان ہوجاتا ہے، جہاں ہم یہاں اپنے اِس کالم میں الطاف حسین کی یکم ؍ اپریل کی شب کو کی جانے والی تقریر کی پُر زور مذمت کرتے ہیں وہاں ہمارا مرکزی سیاسی قیادت کے سربراہ وزیر اعظم نواز شریف سے بھی شدید گلہ ہے، اُنہوں نے بروقت فوری طور پر الطاف حسین کی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف کی جانے والی اِس انتہائی ہرزہ سرائی کا نوٹس نہیں لیا ،جب آئی ایس پی آر نے اپنا ’ٹوئٹ ‘ جاری کرکے الطاف حسین کی تقریر کی سخت الفاظ میں نہ مذمت کی، بلکہ اِس متنازعہ تقریر کے خلاف عدالتِ عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا، تو پھر وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اِس متذکرہ بالا نکات پر لب کشائی کرنا مناسب سمجھا وزیر اعظم پاکستان کی لاعلمی اور بے خبری کا جب یہ عالم ہے تو وزارتِ اطلاعات ونشریا ت کو کون جھنجوڑے ؟یقیناًپاکستانی قوم کی بھی یہ خواہش ہے کہ ’الطاف حسین کی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف تقریر پر سیکورٹی ادارے قانونی چارہ جوئی ضرور کریں یہ اُن کا حق ہے اور آئین کی نکات کی پاسداری بھی ہے پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے قومی سیکورٹی اداروں پر سیاسی بز رجمہروں کی جانب سے آئے روز کی تنقید پر برداشت اور صبر کی ایک حد تک انتظار کیا کہ شائد حکومت اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرئے گی پاکستانی فوج اور اسکی قیادت کے خلاف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقریر کو ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے اب فوج نے قانونی چارہ جوئی کرنے کا جو اہم اعلان کیا ہے سیاسی حکومت کو فوج کے پیچھے کھڑا ہو نا چاہیئے نہ کہ وہ اُن ’کن ٹٹوں‘کے ساتھ نظر آئے جو پاکستان دشمن خفیہ ایجنسی ’را‘ کی تعریفوں میں قلابے ملاتے ہیں اپنے ذاتی رابطوں کا کھلے اظہار کرتے ہیں یکم ؍ اپریل کی شب پاکستانی نجی الیکٹرونک میڈیا پر الطاف حسین کی تقریر میں فوج اور اس کی لیڈر شپ کے بارے میں رائے غیر ضروری اور قابلِ نفرت تھی پاکستانی وزیر اعظم کو دوٹوک ‘ سخت ناراضگی اور پاکستانیت کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے الطاف حسین کی مذمت کرنی چاہیئے تھی مگر قوم کو شدید دکھ اور بڑا افسوس ہوا کہ وزیر اعظم پاکستان کا ردِ عمل کیا کہیں ’بہت پھس پھسا سا تھا ‘ جیسے عام بچوں کو چھوٹی موٹی معصومانہ شرارتوں پر پیارسے منا کیا جاتا ہے یا اُنہیں ڈانٹا دیا جاتا ہے ، وزیر اعظم پاکستان نے پاکستانی مسلح افواج کے پیشہ ورانہ عالمی اہمیت و افادیت کا تمسخر اُڑانے والے الطاف حسین کے بارے میں اِس قسم کا ’ٹھنڈ اٹھار ردِ عمل اپنا کر کوئی قابل رشک اتھارٹی کا مظاہرہ نہیں کیا الطاف حسین نے میڈیا پر جیسا غیر ذمہ دارانہ بیان دے کو طویل دورانیہ کا بھونڈا طریقہ اپنا یا اِس سے پاکستان کی دنیا بھر میں کتنی رسوائی ہوئی وزیر اعظم کی طرف سے اِس معاملے پر کیا قانونی کارروائی نہیں ہونی چاہیئے تھی ؟وزیر اعظم پاکستان اور اُن کی کابینہ کے اراکان کچھ کریں یا نہ کریں لیکن قوم الطاف حسین کی ان مضحکہ خیز حرکات سے تنگ آچکی ہے پاکستانی قوم اپنے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اِس پُرعزم عہد کے ساتھ پختہ مصمم ادارے سے لیس کھڑی ہے کہ فوج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے بشمول پاک رینجرز پاکستانی سرحدوں پر اور ملک کے اندر بھی دہشت گردوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے کراچی میں گزشتہ دنوں ہونے والی مجرموں کی گرفتاری کے ردعمل میں جن کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہے فوج اور اس کی قیادت کا اِس سے کوئی تعلق نہیں، مگر پاکستانی افواج اپنے تمام حساس اداروں کے خلاف اس قسم کے بازاری اور عامیانہ بیانات کو بالکل برداشت نہیں کرئے گی یہ حد ہوگی کہ الطاف حسین کون ہوتا ہے جو پاکستانی فوج کو اعلانیہ براہِ راست مخاطب کرکے یہ کہے کہ پاکستا نی فوج اپنے اندر موجود مجرموں کو کیوں نہیں پکڑتی جبکہ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ فوج کے بہت سے سابقہ افسر مجرمانہ کاررائیوں میں ملوث پائے گئے کتنی افسوس اور قابلِ مذمت مخاطبانہ طرز عمل اختیار کیا گیا کہ ’ آئی ایس آئی والے اور فوج مہاجروں کی قیمتی قربانیوں وجہ سے ہی پُر تعیش زندگی گزار رہے ہیں ‘ الطاف حسین کے اِس انتہائی جسارت آمیز سرکش بیانات کا جواب وفاقی حکومت پر واجب ہے دیکھئے حکومت کب اپنا موقف بیان کرتی ہے ؟ ایم کیو ایم نے کراچی میںNA246کا ضمنی الیکشن کیا جیت لیا؟ اُنہیں اپنی یہ وقتی خوشی ہضم نہیں ہورہی ہے الطاف حسین نے اچانک اور یکلخت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی زبان بولنی شروع کردی بڑے فلسفی بنے پھرتے ہیں اور یہ تک نہیں سمجھتے کہ ’آدمی کی بے صبری ہی اُس کے اصل دشمنوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتی ہے اور سب سے نادان وہ ہوتا ہے جسکی زبان خود اپنی طرف سے اپنے ہی دشمنوں کو خود یہ ہتھیار فراہم کردیتی ہے جلدبازی ‘ بے صبری اور عدم برداشت کا غیر ضروری اظہار کرکے الطاف حسین نے پاکستان کے کڑورں عوام کے دلوں کو پل بھر میں دکھی کردیا ! کاش وہ اِس قدر جلدی بازی کا مظاہرہ نہ کرتے ۔