قہر بن کر پھر ٹوٹا اہلِ وطن پر۔ سیلاب کا امڈتا طوفان
Posted date: October 11, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
اِس برس غالباً2010 سے زیادہ بھارت سے اچانک بغیر کسی پیشگی نوٹس کے پاکستانی دریاؤں میں چھوڑے گئے پانی نے پنجاب سمیت سندھ کو ابھی اپنی بپھرتی ہوئی بے قابو لہروں سے بے اندازہ نقصان پہنچایا یہ سیلاب ملک کے کسانوں کے لئے بڑا جانی ومالی نقصان کا باعث بنا آبادیوں کی آبادیاں سیلابی پانی میں غرق ہوگئیں اب کئی سیلابی متاثر علاقوں میں ایک بڑی تعداد متاثرین کی موجود ہے جہاں کسی حکومتی ادارے کی رسائی ممکن نہیں ہوسکی یہ ایسا چیلنج تھا جس کا مقابلہ کسی حد تک قومی طبقات نے اپنی بہادر مسلح افواج کے شانہ بشانہ کیا ماضی میں ایسی سماوی قدرتی آفات کی کٹھن گھڑیوں میں قومی جذبوں کو بروئےِ کار لانے والے ہر موقع پر قوم متحد ہوئی اور اپنی افواج کے ساتھ مل کر اپنے مصبیت زدہ پاکستانی بھائیوں کی مدد واعانت کے فلاحی کاموں میں بھرپور شرکت کی یہاں قوم ایک اہم سوال اپنے حکمرانوں سے پوچھنے کا حق رکھتی ہے 1992 اور 2010 میں بھی ملک میں اِسی طرح کانہایت ہی خطرناک و خوفناک سیلاب آچکا ہے اقوامِ متحدہ نے 2010 کی سیلابی آفت کو ہیٹی کے زلزلے سے بڑی آفت قرار دیا تھا اُس موقع پر غیر ملکی امداد توقعات اور ضرورت سے بڑھ کر پاکستان کو ملی تھی سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ‘50 کروڑ ڈالر کی فوری ترسیل ہوئی جبکہ ساڑھے 53 کروڑ مزید دینے کا اقوامِ متحدہ کے اعلان میں وعدہ کیا گیا تھا یورپی یونین نے3 کروڑ یورو‘امریکا نے مزید 30 لاکھ ڈالر اور اِس کے علاوہ سعودی عرب ‘ امریکا اور برطانیہ نے پاکستان میں آسمانی افتاد کے اچانک آجانے کا باآسانی مقابلے کرنے کے لئے سب سے زیادہ امدادی سامان کی کھیپ پاکستان روانہ کی تھی ایک سروے کے مطابق‘ اقوامِ متحدہ نے پاکستان کو دی جانے والی امداد کا تخمینہ 460 ملین ڈالر لگایا تھاپاکستان کے مخیر اداروں نے بھی خطیر رقوم فراہم کی قوم پوچھ رہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آنے والے 2010 کے سیلابی آفت کے نتیجے میں خطیر عالمی امداد کہاں خرچ کی گئی 2010 کی تباہیوں سے بچنے کے لئے شہباز شریف اور قائم علی شاہ کی حکومتوں نے کیا سبق حاصل کیا وہ پیسہ کہاں گیا؟ اُس زمانوں میں پنجاب اور سندھ میں شہباز شریف اور قائم علی شاہ کی صوبائی حکومتیں تھیں اُن سیلابوں میں بھی اربوں روپے کے مالی نقصانات ہوئے کئی لاکھ خاندانوں کے چشم وچراغ چشم زدن میں اپنی قیمتی جانوں سے گئے، اُن کے قیمتی جانور مر گئے، کچے مکانات تو کیا پورے کے پورے گاؤں پانی کی نذر ہوگئے مرکزی وصوبائی حکومتوں کے امداد کے علاوہ کروڑوں ڈالر کی غیر ملکی امداد کا تذکرہ بھی میڈیا کے ذریعے عوام نے سنا پھر کیا وجہ ہے کہ حکومت نے محکمہ ِٗ موسمیات کی مون سون کی زیادہ بارشوں کی پیشگی اطلاع کے باوجود متعلقہ محکموں کے سرکاری افسروں اور اہلکاروں کو متنبہ نہیں کیا یہ غلطی کس نے کی عوامی جان ومال کی تباہی کی اِس مجرمانہ لاپروائی کا ذمہ دار کون سا حکومتی ادارہ ہے ہزاروں انسانوں اور اُن کے قیمتی اثاثے ’جانوروں ‘کوموت کے منہ دھکیلنے والوں کا کوئی احتساب ہوگیا یا نہیں ؟ عوام کوئی جوابدہ نہیں کیوں نہیں ہے ؟ انسانی نکتہ ِٗ نظر سے یہ حادثہ ایک ناقابلِ فراموش سانحہ ہے آسانی سے بھلایا نہیں جاسکتا کروڑوں روپے بلکہ لاکھوں ڈالرز کامعاملہ ہے 1992 سے 2010 میں غیر ملکی امداد کا حساب کون دے گا عوام پوچھنے کا برابر حق رکھتے ہیں اب تحقیقاتی کمیشن بنانے پر بات نہیں بنے صاحب !انسانی نکتہ ِٗ نظر یہ حادثہ جس قدر اذیت ناک اور درد انگیز ثابت ہوا جوں جوں وقت گزر رہا ہے پانی پنجاب اور سندھ کے دوردراز علاقوں سے اترا ہے تو وہاں سوائے دلدل اور کئی قسم کی جان لیوا بیماریوں نے انسانوں کے لئے وہاں رہنے کی کوئی صورت باقی نہیں چھوڑی اب اور کیا کیا وضاحتیں کرتے پھریں گے ہمارے یہ انسانیت کے دشمن حکمران ‘ ہم یہاں شہروں میں رہ رہے ہیں ہمارے کسان اور گاؤں دیہات اور سندہ کے گوٹھوں کے پاکستانی بھائی کیسی کیسی قیامت خیز مصیبتیں جھیل رہے ہیں اِس میں کوئی شک نہیں سیلاب ایک قدرتی آفات ہے لیکن بہتر حفاظتی اقدامات اور پھر مستقبل کی پیش بندی کرنے جیسی اعلیٰ حکمتِ عملی کو روبہ ِٗ عمل لایا جاتا اِس سیلابی پانی کو پنجاب سمیت سندھ بھر کے مختلف مقامات پر روکنے ‘ ذخیرہ کرنے کے لئے مختصر وطویل مدتی منصوبے آخر کب عمل میں لائے جائیں گے کب تک عوام کو ’لولی پاپ ‘ دیاجاتا رہے گا عوام سخت قیامت خیز مصبیتوں میں گھرے اپنے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ہاتھ پیر ماررہے ہیں ایک طرف سیلاب اور دوسری جانب شمالی وزیر ستان میں عالمی دہشت گردوں کے خلاف افواجِ پاکستان کا شر وع کیا گیا ’آپریشن ضربِ عضب ‘ کامیابی سے جاری ہے تقریباً 10 لاکھ کے قریب آئی ڈی پیز جنہیں شمالی وزیر ستان کے مرکزی علاقوں سے بنوں اور اِس ملحق محفوظ علاقوں میں شفٹ کیا گیا اِن لاکھوں افراد کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے پہلے سے افواجِ پاکستان ہمہ تن مصروفِ عمل ہے جبکہ ملک کے میدانی علاقوں میں ضرورت کہیں زیادہ ہونے والی مون سون کی بارشوں کی وجہ سے سیلاب آگیا رہی سہی کسر بھارت نے بغیر پیشگی اطلاع دئیے پاکستان کے اہم دریاؤں میں بے بہاؤ پانی کے طوفانی ریلے چھوڑ دیئے اگر حکومتی ادارے سوتے ہوئے نہ رہتے تو دریائی علاقوں کے نزدیکی آباد گاؤں ‘ دیہاتی اور گوٹھوں میں رہنے والوں کا اِس قدر جانی ومالی نقصان نہ ہوتا حالیہ مون سون کی ضرورت سے زیادہ ہونے والی بارشوں کی وجہ سے بنے والے سیلاب نے صرف پاکستانی علاقوں میں ہی تباہی نہیں کی بلکہ مقبوضہ جموں وکشمیر بھی اِس سیلاب سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے بقول ’فاننشیلز ٹائمز‘ سری نگر اِس قدرتی آفت سے ہونے والی بھیانک سیلابی تباہی کی ذمہ دار عمر عبداللہ کی کٹھ پتلی حکومت ہے اِس بار بھی 1992 اور2010 کی سیلابی تباہی کے اِس مشکلات ومصائب کی کٹھن گھڑیوں میں پاکستان آرمی اور نیوی کے جوانوں کو دیوانہ وار اپنے مجبور وبے کس بھائیوں کی دیوانہ وار مدد کے لئے بپھری ہوئی سیلانی موجوں میں اتر کر اُنہیں محفوظ مقامات تک پہنچاتے دیکھا پاک فوج کے دستوں نے پنجاب اور سندھ کے کچے کے علاقوں میں سیلاب میں پھنسے اپنے اہلِ وطن کے لئے امدادی کارروائیوں میں پل بھر کی دیر نہیں کی ‘فوجی حکام نے جنگی بنیادوں پر سیلاب سے شدید متاثرہ علاقوں میں ادویات ‘ خیموں اور خوراک کی بڑی مقدار پہنچائی اگر گزشتہ 2010 میں آنے والے طوفانی سیلاب کے اترنے کے بعد ذمہ دار حکومتی حلقے آئندہ کی پیش بندی کے لئے کوئی منصوبہ بندی کرتے تو آج قوم کو مصیبت و ابتلا کے یہ ستم رسیدہ دن نہ دیکھنے پڑتے پنجاب اور سندہ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 8000 سے زائد افراد جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی فوج کے ریسکیو ٹیموں نے اُنہیں کیمپوں میں منتقل کیا پاک فوج کے سات ہیلی کاپٹر اور 90 کشتیاں جھنگ اور چنیوٹ میں اپنا امدادی آپریشن مکمل کرچکی ہیں کاش ہماری کل کی صوبائی ومرکزی حکومتوں میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے بصیرت ہوتی ؟افسوس ہے ہمارے حکمرانوں کو اقتدار ہر قیمت پر اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر اتنے گئے گزرے ہیں اُنہیں کیا کہا جائے؟ یہ حکمران اندرونی امن امان کی بگرتی یاسی صورتحال کو پُرامن مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے میں کیسے مجبور و بے کس دکھائی دیتے ہیں اُن کی نظریں اور فکریں تو صرف یہ دیکھتی ہیں کون سا کور کمانڈر کب جارہا ہے کون نیا جنرل کس عہدے پر فائز ہورہا ہے آئی ایس آئی کا نیا چیف اب کون بنے گا ؟گزرتی ہوئی گھڑیاں یہ سوچنے کی نہیں ہوتیں جنابِ والہ بلکہ اِن سب سے الگ قسم کے سیاسی ’جراّت مندانہ فیصلوں ‘ کی متقاضی ہوا کرتی ہیں۔