Posted date: June 13, 2017In: Urdu Section|comment : 0
سنگ دلی کی ہے کمائی بزدلی
برطانیہ نے جب امریکی ایماءکی حمائت میں افغانستان اورعراق میں نیٹوکی زیرقیادت اپنی افواج کوجنگی کاروائیوں میں حصہ لیناشروع کیاتھا،تواس وقت اسے اندازہ نہیں تھاکہ اس کی سرزمین پربھی جوابی حملے ہوسکتے ہیں لیکن ”سیون سیون” کے واقعے نے برطانیہ کو ہلاکررکھ دیاتھا جس کے بعد برطانیہ میں سیکورٹی کے غیرمعمولی اقدامات سے صورتحال کافی حد تک بہترہوگئی تھی لیکن برطانیہ کو پچھلے تین ماہ کے واقعات نے ایک مرتبہ پھر دہلا کررکھ دیاہے تاہم اس مرتبہ یہ واضح عوامی تبدیلی دیکھنے کومل رہی ہے کہ بہت سے ارکانِ پارلیمنٹ اورسیاسی تجزیہ نگاریہ کہہ رہے ہیں کہ شدت پسندوں کواپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے متعلق پالیسیاں آج ان کے ملک کویہ دن دکھارہی ہیں۔ مانچسٹر ایرینا میں ہونے والے کنسرٹ میں ایک خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس میں کم از کم ٢٢/ افراد ہلاک اور٦٠کے قریب زخمی ہو گئے۔
مانچسٹر پولیس کا کہنا ہے کہ مانچسٹر ارینا میں حملہ کرنا والا مشتبہ خودکش حملہ آور۲۲سالہ سلمان عبیدی تھا۔وہ ۳۱ دسمبر۱۹۹۴ء کو مانچسٹر میں پیداہوااور اس کے والدین کا تعلق لیبیا سے ہے۔اس کے والدین کرنل قذافی کی حکومت کے خلاف تھے اور لیبیا سے بھاگ کر انہوں نے برطانیہ میں پناہ لی تھی ۔ اس فیملی نے چند برس لندن میں گزارے اور اس کے بعد وہ مانچسٹر منتقل ہوگئے جہاں اس کے والد ڈِڈسبری کی مسجد میں اذان بھی دیا کرتے تھے۔ سلمان عبیدی کے تین بہن بھائی ہیں،ایک بڑا بھائی لندن میں پیدا ہوا اوراس سے چھوٹی ایک بہن اور بھائی مانچسٹر میں پیدا ہوئے۔عبیدی نے مقامی اسکولوں میں تعلیم حاصل کی، وہ فٹبال کلب مانچسٹر یونائیٹڈ کا حامی تھا اور ایک بیکری میں کام کرتا تھا۔عبیدی سیلفورڈ یونیورسٹی کا طالب علم بھی رہا لیکن وہاں سے اپنی تعلیم مکمل نہیں کی۔ اس کے والدین دوبچوں سمیت لیبیا واپس چلے گئے جبکہ سلمان یہیں رہ گیا۔ یہ کچھ عرصے کے لیے ملک سے باہر گیا تھا اور چند روز پہلے ہی برطانیہ واپس لوٹا تھا۔
مانچسٹر برطانیہ کاوہ شہرہے جہاں لیبیائی نژادافرادکی ایک بڑی تعدادآبادہے۔ہمسایوں کا کہنا ہے کہ اس خاندان کے گھر پربعض اوقات لیبیا کا جھنڈا بھی لہرایا کرتا تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ فیملی مانچسٹر میں مختلف گھروں میں رہ چکی ہے اور ان کی سابقہ رہائش بھی ان جگہوں میں شامل ہے جہاں پر پولیس نے چھاپے مارے ہیں۔بی بی سی کے مارک ایسٹن کا کہنا ہے کہ شام اور لیبیا سے کسی قسم کا کوئی تعلق رکھنے والے ایسے کئی شدت پسندوں کے گھر اسی علاقے میں تھے جہاں پولیس نے چھاپے مارے ہیں تاہم ابھی تک سارے ملک میں ان افرادکی تلاش جاری ہے جن کاکوئی بھی تعلق کسی ایسی تنظیم سے ہوجو ملک کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔
سلمان عبیدی کا ایک دوست محمد الشریف جس کاتعلق بھی مانچسٹرسے ہے اور وہ پچھلے تین برسوں سے لیبیامیں خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی تنظیم میں شامل ، لڑنے کے لیے لیبیا آگیاتھا،نے لیبیامیں مقیم بی بی سی کے نامہ نگار کوئنٹن سمروئیل سے گفتگوکرتے ہوئے انکشاف کیاکہ٢٠١١ء میں کرنل قذافی کے خلاف بغاوت میں حصہ لینے کے لیے کئی نوجوان برطانیہ سے لیبیا گئے تھے۔ اس وقت جوبھی لیبیاآناچاہتا تھا وہ آسکتاتھا۔ محمد الشریف نے تسلیم کیاکہ وہ اورسلمان عبیدی ایک وقت میں اچھے دوست بھی رہ چکے ہیں لیکن میری سلمان سے پچھلے پانچ برس سے ملاقات نہیں ہوئی ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ سلمان کا دولت اسلامیہ سے رابطہ لیبیامیں ہواتھاجہاں اس کومکمل برین واش کیاگیا۔دولت اسلامیہ اندرون ملک بھرتیاں کرنے کی کوشش کرتی ہے اوروہ اپنے ان مذموم مقاصدکیلئے ایسے نوجوانوں کی تلاش میں رہتے ہیں، وہ ان کو ڈھونڈتے ہیں، راضی کرتےہیں اور ان سے یہ کام کروا لیتے ہیں۔ ان کومذہب کے نام پرورغلا کرجنت کی ایسی ترغیب دیتے ہیں کہ اپنے مقاصدکیلئے خودکش بمباربننے کیلئے تیارہوجاتے ہیں۔میں تین سال سے زیادہ عرصے سے جنگ لڑرہاہوں لیکن میں جا کراپنے آپ کودہماکے سے نہیں اڑاؤں گاکیونکہ میں نے بہت زیادہ خون دیکھا ہے۔اس کاکہناہے کہ وہ خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم کی سوچ اور نظریے کے خلاف ہے۔ اسے خود دولت اسلامیہ کی شدت پسندوں کی لاشوں کی بے حرمتی کرتے بھی فلم بندکیاگیاہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اسے ایساکرنے پرافسوس ہے لیکن وہ موت کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے کئی افراد کو قتل کیا ہے۔
برطانیہ۷۰ء کی دہائی میں آئرش علیحدگی پسندوں کی جانب سے ہونے والے دہشتگردی کے متعدد حملوں کو سہہ چکا تھا لیکن۲۰۰۵ء سے وہ خود کش حملہ آوروں سے نبرد آزما ہے۔ مانچسٹر ایرینا میں ہونے والاکوئی پہلا خودکش حملہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی جولائی۲۰۰۵ء میں لندن کی ٹرانسپورٹ پر ہونے والے سلسلہ واربم حملوں میں چارخودکش حملہ آوروں نے حصہ لیاتھا۔ برطانوی پولیس کے مطابق لیڈز میں پیدا ہونے والاایک نوجو ان جوان حملہ آوروں کا سرغنہ تھا، نے لندن کے ایجویئر روڈ سٹیشن پر سرکل لائن پر خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا تھا جس میں حملہ آور سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کا دوسراساتھی بریڈ فورڈ میں پیدا ہونے والے نوجوان تھااس نے بھی اپنی زندگی کا زیادہ حصہ لیڈز میں گزارا تھا۔ سپورٹس سائنس میں گریجویشن کرنے والے اس نوجوان نے سرکل لائن پرآلگیٹ اورلیورپول سٹیشن کے درمیان خود کو دھماکہ سے اڑا لیا تھا۔ اس حملے میں سات افراد ہلاک اور۱۰۰سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ لیڈز کے علاقے ہی میں پیداہونے والے تیسرا نوجوان خوکش حملہ آو رجس کی عمر بیس سال سے بھی کم تھی ، جواپنے والدین کے ساتھ یہاں رہائش پذیرتھا ۔ان سب میں ایک قدرمشترک یہ تھی کہ وہ تینوں تارکین وطن کی اولاد تھے جنھوں نے بریڈفورڈاورلیڈزکے پسماندہ علاقوں میں پرورش پائی تھی اور بیروزگارتھے۔لندن کاچوتھاواحد خود کش حملہ آورتھاجو برطانیہ میں نہیں بلکہ جمیکامیں پیدا ہواتھا۔ وہ ایک سال کاتھا جب وہ اپنی ماں کے ہمراہ برطانیہ منتقل ہوگیاتھا۔اس نے ویسٹ یارکشائر کے علاقے ہڈرزفیلڈ میں پرورش پائی جہاں اس کی ملاقات لندن حملہ آوروں کے مبینہ سرغنہ سے ہوئی تھی۔
لندن میں خود کش حملوں کے بعد دہشتگردی کا بڑا واقعہ ۳۰جون۲۰۰۷ء کو سکاٹ لینڈمیں ہواجہاں دوحملوں آوروں نے پروپین کے ڈبوں سے بھری گاڑی کو گلاسگو ایئرپورٹ میں گھسانے کی کوشش کی۔ اس حملے میں دونوں حملہ آور اپنے مقصد میں کامیاب تو نہ ہوسکے لیکن ایک حملہ آورگاڑی کے جلنے کی وجہ سے ہلاک ہوگیاتھا۔ دوسرا حملہ آورزندہ پکڑاگیااوراب بھی برطانیہ کی جیل میں عمرقیدکی سزاکاٹ رہاہے۔پولیس کے مطابق دونوں خودکش حملہ آورانتہائی تعلیم یافتہ،ایک کوالیفائڈڈاکٹرجبکہ دوسراکوالفائیڈانجنیئر تھالیکن اس مرتبہ اوپر تلے تین خودکش حملوں کے اس تسلسل کے بعد عوام میں خاصی تشویش اوربہت سے شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں کہ عوام اس وجوہات کوجاننے کیلئے بے چین ہیں ۔
اس کی واضح مثال آسٹریلیامیں پیداہونے والے مشہوربرطانوی صحافی اورڈاکو مینٹری فلمسازجان پلچرنے اپنے حالیہ مضمون میں انکشاف کیاہے کہ مانچسٹرمیں خودکش حملہ کرنے والا۲۲سالہ سلمان عابدی”لیبین اسلامک فائٹنگ گروپ ” کاحصہ تھاجومانچسٹرمیں پھلتاپھولتارہاجس کی برطانیہ کی مشہور خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیونے پچھلے بیس سال سے آبیاری کی اوراسے اپنے مقاصد کیلئے پہلے کرنل قذافی کی حکومت گرانے اوربعدازاں شام میں حافظ الاسدکی حکومت گرانے کیلئے استعمال کیاگیا۔جان پلجرکے مضمون کے مطابق امریکا اوربرطانیہ کاافریقہ اورلیبیا کے تیل کے بڑے ذخائر پرکنٹرول رکھنے والے قذافی حکومت کوگرانے کاپرانامنصوبہ تھا۔ فرانسیسی انٹیلی جنس کے مطابق برطانیہ کی سیکرٹ ایجنسی کی مددسے ایل آئی ایف جی نے ۹۰ء کی دہائی میں کرنل قذافی پرمتعددقاتلانہ حملے کئے جوسب ہی ناکام ہوگئے تاہم مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر لیبیائی عوام کے قتل عام کاجوازبناکرمارچ ۲۰۱۱ ء میں امریکانے فرانس اور برطانیہ کے تعاون سے حملہ کردیااورقذافی کی حکومت کونیست ونابودکرنے کے بعد وہاں امریکی اوربرطانوی افواج کا استقبال کرنے والے یہی ایل آئی ایف جی کے ارکان تھے جواب داعش سے متاثرہوکربرطانیہ کیلئے دردِ سربن گئے ہیں۔
جان پلچرکے مطابق ناقابل تردیدشہادتیں موجودہیں کہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے جب وزیرداخلہ تھیں تو(ایل آئی ایف جی)کے جہادیوں کوبلاروک ٹوک سارے یورپ میں سفرکی کھلی اجازت دی گئی تھی اورانہیں پہلے معمرکرنل قذافی کی حکومت گرانے اوربعدازاں شام حافظ الاسدکی سرکاری فوجوں کے ساتھ لڑنے کیلئے القاعدہ سے منسلک گروپوں میں شمولیت اختیارکرنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔کرنل قذافی حکومت گرانے کے بعد”ایل آئی ایف جی”نے لیبیاکوایک اسلامی ریاست بنانے کیلئے القاعدہ کے عالمگیرموومنٹ کاساتھ دینے کی خواہش کاعملی اظہارکیاتو اسے برطانیہ میں ایک دہشتگرد قراردیکران پرہر قسم کی پابندی لگادی گئی۔جان پلچرنے اپنے مضمون میں یہ بھی انکشاف کیاکہ گزشتہ برس امریکی ایف بی آئی نے سلمان عابدی کو دہشتگردوں کی واچ لسٹ میں شامل کرلیاتھاجبکہ مانچسٹرخودکش حملے سے تین ماہ قبل ایم آئی فائیوکویہ انٹیلی جنس اطلاع بھی دی گئی تھی کہ سلمان عابدی برطانیہ کی سرزمین پر حملے کی منصوبہ بندی کررہاہے۔ جان پلچرنے برطانوی حکام سے یہ سوال کیاہے کہ اس مستنداطلاع کے باوجود بھی مانچسٹرخود کش حملہ روکنے کیلئے سلمان عابدی اوراس کے نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟
برطانیہ کے تاحیات پاکستانی نژادلارڈنذیراحمدنے چارسال پہلے برطانوی اخبار” گارجین”میں اپنے ایک مضمون میں متنبہ کیاتھاکہ ”ڈیوڈکیمرون نے امریکا اوردیگر یورپی ممالک کے ساتھ جواقدامات کئے اورجس طرح برطانیہ میں موجود لیبیائی نوجوانوں کوان کے ملک بھیجاگیا،یہ سب کچھ ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچائے گاکیونکہ قذافی حکومت کوگرانے کے بعدیہ سب لوگ برطانیہ واپس آگئے ہیں۔لارڈاحمدکے مطابق وہ اس بات کے چشم دیدگواہ ہیں کہ کس طرح برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے کرنل قذافی کے خلاف لڑنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔لارڈاحمدنے بتایا….”میں ان دنوں لیبیاکے حکام کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے تریپولی پہنچاہواتھا،قذافی حکومت اور اپوزیشن کے بہت سے رہنماؤں کے ساتھ میری قریبی تعلقات تھے۔میری انتہائی کوشش تھی کہ کسی طریقے سے قذافی اوراس کے اہل خانہ کی جان بچ جائے اورپرامن اقتدارکی منتقلی ہوجائے۔میں متعلقہ افراد سے بات چیت کررہاتھاکہ قذافی اوراس کے خاندان کے تمام افرادکوباعزت طریقے سے کسی دوسرے ملک میں منتقل کردیاجائے جس کیلئے روس اوریوکرین سیاسی پناہ دینے کیلئے بھی تیار تھے۔ قذافی ویسے بھی یوکرین سے کافی نزدیک تھے اورقذافی کی سب سے قابل اعتمادنرس کاتعلق بھی یوکرین سے تھالیکن میری ساری کوششیں امریکا اور برطانیہ کی ضدکی وجہ سے ناکام ہوگئیں کیونکہ یہ دونوں ممالک ہرحال میں قذافی اوراس کے سارے خاندان کا صفایا چاہتے تھے کہ تاکہ مستقبل میں کبھی اس خاندان کے ابھرنے کی امیدباقی نہ رہے۔
برطانوی ارکان پارلیمینٹ کی آراء کے مطابق برطانیہ میں اوپرتلے ہونے والی دہشتگردی کے واقعات کے حوالے سے مختلف افواہیں گردش کررہی ہیں اوران میں ایک سازشی تھیوری زبان زدِ عام ہے کہ داعش کنزرویٹوپارٹی کوسپورٹ کرنے کیلئے حملے کررہی ہے لیکن بظاہرزمینی حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے لیکن متذکرہ سازشی تھیوری پیش کرنے والے دلائل کے طورپرمارچ میں ویسٹ منسٹربرج پرہونے والے واقعے کی مثال دیتے ہیں جس میں جنونی دہشتگردنے بالکل اسی طرح پانچ شہریوں کواپنی گاڑی تلے روندکر ہلاک کردیا تھاجیسے ابھی حال ہی میں لندن برج اوربورو مارکیٹ میں سات افرادکووین تلے کچل کرموت کے گھاٹ اتاراگیا۔ویسٹ منسٹربرج پرہونے والے واقعے کے بعد تھریسا مے کی مقبولیت میں۲۰ فیصداضافہ ہواتھا۔حالیہ دہشتگردی واقعہ کے بعدتھریسامے کے یہ بیان بڑاغورطلب ہے کہ ماضی میں جس طرح انتہاء پسندی کوبرداشت کیاجاتا رہا، اب وقت آگیاہے کہ یہ سلسلہ ختم کردیاجائے۔ان کے اس مؤقف کو زبردست عوامی پذیرائی مل رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قبل ازیں نیا مینڈیٹ نہ لینے کااعلان کرنے والی تھریسامے نے اب اپنامؤقف تبدیل کرلیاہے۔ لارڈنذیراحمدکے مطابق سازشی تھیوری رکھنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مانچسٹرحملے سے پہلے تھریسامے کی مقبولیت میں کمی آگئی تھی حتیٰ کہ ویلز میں بھی ان کی مقبولیت متاثرہوئی تھی تاہم اس حملے کے بعدانتہاء پسندی کے خلاف برطانوی وزیراعظم کے مؤقف نے مقبولیت حاصل ہوئی جس کایقیناًانہیں
٨جون کوہونے والے الیکشن میں فائدہ توہوالیکن تھریسا مے نے جب انتخابات کا اعلان کیا تھا اس وقت کے مقابلے میں اب انہیں ١٢نشستیں کم حاصل ہوئی ہیں اوروہ اکیلے حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوئیں اور شمالی آئر لینڈ کے ڈیمو کریٹک یونینسٹ پارٹی(ڈی یو پی)کی مددسے حکومت بنانے کااعلان کیا ہے لیکن تھریسامے پردوسری سیاسی جماعتوں کی شدیدتنقیدجاری ہے۔ لبرل ڈیموکریٹک رہنما ٹم فیرن کا کہنا ہے “انہیں شرمندہ ہونا چاہیے اور اگر ان میں ایک اونس بھی اپنی عزت ہے توانہیں مستعفی ہونا چاہیے” جبکہ دوسری اکثریتی جماعت لیبرپارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے تھریسامے سے کہا ہے کہ وہ حکومت سازی سے دستبردار ہو جائیں۔بہرحال اب یہ طے ہے کہ تھریسامے اپنے دور حکومت میں اپنے ہاتھوں کی بوئی فصل کوتلف کرنے میں عجلت دکھائیں گی۔
یادرہے کہ اس مرتبہ عام انتخابات میں مجموعی طور۵۶انڈین نژاد امیدوارجبکہ ۳۰پاکستانی نژاد امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ ان میں سے جہاں ۱۲ پاکستانی نژاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی وہاں انڈین نژاد امیدواروں کی تعداد بھی ۱۲ہی رہی جبکہ سیاسی تجزیہ نگاراس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ عین چند دن قبل ان دہشتگردحملوں نے صرف پاکستانی نژاد امیدواروں کونقصان پہنچایاوگرنہ کم از کم بیس پاکستانی نژادامیدواروں کی کامیابی کی توقع تھی۔ کامیاب ہونے والے۱۲ پاکستانی نژاد امیدواروں میں سے ۹کا تعلق لیبر پارٹی جبکہ ۳کا کنزرویٹو سے ہے اور ان میں سے پانچ خواتین ہیں اورکامیاب انڈین نژاد ارکانِ پارلیمان میں سے ۷کا تعلق لیبر پارٹی سے جبکہ ۵کنزرویٹو پارٹی سے ہے اور ان میں چھ خواتین ہیں۔