مجھے اختلاف، اختلاف سے نہیں بلکہ طریقہء اختلاف سے ہے
نغمہ حبیب
پاکستان میں سیاست کے لیے ایک میرٹ تو یہ ہے کہ آپ کسی سیاستدان کی اولاد ہوں پھر چاہے کو ئی سیاسی فہم اور تدبر ہو یانہ ہواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا دوسرا میرٹ یہ ہے بلکہ بہت اہم یہ ہے کہ آپ کے پاس اتنی دولت ضرور ہوکہ آپ یا تو گن نہ سکیں اور گن سکیں تو کئی ہفتے یا چلئے کئی دن تو لگیں ورنہ تو کوچہ ء سیاست میں قدم رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں اور اگر اتفاقاََ کوئی ”غریب سیاستدان“ کامیاب بھی ہو جائے تو یہ کامیابی بس ایک ہی نسل تک رہتی ہے بلکہ بسا اوقات ایک الیکشن یا زیادہ سے زیادہ دو تین بار کی کامیابی سے بات آگے نہیں بڑھتی ہاں اگر یہ ”غریب سیاستدان“ اپنی دولت میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر اور بات ہے اور یہ اضافہ کسی نہ کسی حد تک ہو ہی جاتا ہے، جو یہ نہیں کر پاتے وہ اکثر ان کی پہلی اور آخری جیت اور سیٹ بن جاتی ہے۔ہماری سیاسی جماعتیں بھی اسی اُصول پر عمل پیرا ہیں اور اپنے اثاثوں میں اضافہ کرتی جاتی ہیں تاکہ ممبران کی خرید و فروخت، ووٹ کی خرید اری،عظیم الشان جلسوں کے انعقاد اور بریانی کی تقسیم میں استعمال ہوسکے اب ان تمام کاموں میں دھرنوں کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔یہ سب کچھ اگرچہ سیاسی عمل کا حصہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک غریب ملک کے اندر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہو جاتا ہے ان تمام اخراجات کا بندوبست کون کرتا ہے اور کیسے کرتا ہے کیا پارٹیاں اس سوال کا جواب دے سکتی ہیں۔ہماری بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے حکومتی معاملات میں تو بیرونی مداخلت ہے ہی ہماری سیاست میں بھی بہت کچھ باہر سے آتا ہے اور سیاسی جنگ کومذہبی رنگ میں بھی رنگ کر اپنے مقاصد حاصل کر لیے جاتے ہیں۔ یہ ممالک اپنے مفادات کی خاطر پیسہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں اور ہماری سیاسی جماعتیں یہ کہتے نہ تھکتی ہیں نہ جھجکتی ہیں کہ انہیں چندہ ملتا ہے۔ دو وقت کی روٹی کو ترستے ہوئے لوگ کیسے مہینوں اپنا روزگار اور نوکریاں چھوڑ کر دھرنوں میں بیٹھ جاتے ہیں آخر ان کے گھر والے کیا کھائیں گے دوادارو کا بندوبست کیسے ہوگا اور ایسے ہی بُہت سارے سوالات جواب طلب ہیں۔ جواب طلبی تو سیاسی جماعتوں کے سارے اکاؤنٹس اور کھاتوں کی بھی ہونی چاہیے آخر ان کو چندے دینے والے کون ہیں اور کیا ان چندوں کا کوئی حساب کتاب ہے کیا کوئی یہ پوچھنے اور بتانے والا ہے کہ علامہ طاہر القادری کو کس نے کتنا چندہ کس ذریعے سے دیا۔کیا نیب نے کبھی ان سے حساب کتاب مانگا کیا عمران خان کے 126دن کے دھرنے پر اٹھنے والے اخراجات کا کو ئی آڈٹ ہوا کسی نے پوچھا کہ صاحب گھر کے جوان، نوجوان جب آکر آپ کے ساتھ بیٹھے پیچھے خاندان والوں کی روزی کا بندوبست کہاں سے ہوتا رہااور آخر آپ کے کارکن کتنا پیسہ ساتھ لے کر آئے تھے کہ سینکڑوں دن کھاتے پیتے رہے اور پکنک مناتے رہے۔ اب ایک اور دھرنا تیار ہے اور مولانا فضل الرحمٰن اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آزادی مارچ کے لیے تیار ہیں اور پھر اسلام آباد کو مفلوج کر کے ایک غیر معینہ مدت تک کے لیے دھرنے کا پروگرام ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کسی جمہوری ملک میں عوام اور حزب اختلاف کا حق ہے کہ وہ حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کر لے اور احتجاج بھی کرے لیکن سیاسی پارٹیوں کا بطور پارٹی بھی منی ٹریل ضروری ہے انہیں ان کیپُرجوش کارکنان ضرور چندہ دیں لیکن ان چندوں کے ریکارڈ بھی ضروری ہے تاکہ عوام با خبر رہیں کہ آخر پیسہ کہاں سے آیا اور کہاں جا رہاہے۔ اگر یہ چندہ بذریعہ بینک پارٹی اکاؤنٹس میں جمع کروائے جائیں اور یہ پارٹی اکاؤنٹ بھی دیگر تمام اکاؤنٹس کی طرح ہو جس پر وہ تمام قوانین لاگو ہوں جو کسی بھی عام شہری پر ہوتے ہیں اوریہ ضرور معلوم ہو کہ ان کے اکاؤنٹس میں پیسے کیسے جمع ہوتے ہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ چلیے مان لیاان کے پاس عوام کے چندے جمع ہوتے ہیں لیکن پھر انہیں خرچ کیسے کیا جاتا ہے آخر ان کا کوئی حساب لیا جاتا ہے یا نہیں اور کیا یہ بات بھی یقینی ہے کہ یہ سب چندے سے ہی ہوتا ہے جبکہ بہت ساری جماعتوں کے بارے میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ وہ بیرونی امداد وصول کرتے ہیں اور پھر اس پیسے سے ملک میں فساد پھیلایا جاتا ہے اور بہت سارے منظور پشتین، گلالئی اسماعیل اور برہمداغ بگٹی بھی پیدا ہوتے ہیں خیر یہ تو ملک دشمن عناصر ہیں اس لیے انہیں دیگر سیاسی جماعتوں سے تو نہیں ملایا جا سکتا لیکن یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ آخر ذرائع آمدن اور وسائل کیا ہیں، سیا سی جماعتیں اپنی کامیابی کے لیے آخر اتنا پیسہ کہاں سے لاتی ہیں کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ انہیں پابند کیا جائے کہ انہیں بقول ان کے جتنے بھی چندے وصول ہوتے ہیں تو انہیں بینک کے ذریعے وصول کیا جائے تاکہ لینے اور دینے والے دونوں کا ریکارڈ رہے لیکن بظاہر ایسا اس لیے نہیں کیا جاتا کہ غیر مناسب ذرائع سے آنے والے پیسے کو چھپایا جا سکے بہر حال ہمیں اپنی سیاست پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے سیاست ضرور کی جائے لیکن اپنے جائز وسائل کے اندر رہ کر اور ملکی مفادات کو مدنظر رکھ کر۔سیاسی جماعتیں اپنا مفاد اور مقصد تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن اس کے لیے ملکی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر بلکہ اس پر سمجھوتہ کرکے ایسا کیا جاتا ہے۔ دھرنے، جلسے سب اپنی جگہ اور اس کو اگر جمہوری انداز میں کیا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن دھرنوں کی سیاست کے رواج پانے سے سیاسی اخراجات میں شدید اضافہ ہوا ہے اس اندازِ سیاست کو رائج کرنے والے پی ٹی آئی اور عمران خان کی حکومت کے خلاف ایک ایسا دھرنا تیار ہے جس کے لیے کا باقاعدہ جنگی تربیت اور ڈنڈا بردار وردی پوش فوج بھی تیا رکی گئی ہے۔ اب گھوم پھر کر پھر وہی سوال کہ خرچ اخراجات کے لیے روپیہ پیسہ کہاں سے آیا اور مہینوں کے لیے کھانے پینے کے بندوبست کیسے کیا جائے گا۔ مجھے اختلاف اختلاف سے نہیں میرا اختلاف طریقہء اختلاف سے ہے اور وسائل برائے اختلاف سے ہے۔ اور میرا مطالبہ یعنی عوام پاکستان کا مطالبہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بھی آڈٹ کا پابند کیا جائے ان سے پوچھاجائے اور بزور قانون پوچھا جائے کہ وہ آخر کہاں سے پیسہ لا رہے ہیں اور اگر کوئی بیرونی قوتیں چاہے وہ بظاہر دوست ہوں ان پر بھی پابندی لگائی جائے انہیں روکا جائے اور اپنی ملکی سیاست میں ہر قسم کے بیرونی عناصر کو ختم کیا جائے اور ہر قسم کے ترسیل کا ریکارڈ رکھا بھی جائے اور عوام کے سامنے بھی لایا جائے کہ عوام اپنے سیاسی ہیروئں اور لیڈروں کے بارے میں کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار نہ رہیں اور انہیں پہچان سکیں اور یہ احساس بھی کر سکیں کہ دھرناچاہے جس بھی پارٹی کا ہو ان کے یعنی عوام کے لیے نہیں اپنے آپ کو ایوانِ حکومت تک پہنچانے کا ایک ذریعہ اور بہانہ ہے اور ان راہد اریوں تک پہنچنے کے بعد کانوں سے محروم یہ لوگ عوام کے چندے، مفاد اور سہولت سب کچھ بھول کر اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔