Posted date: December 14, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد نا صرر ضا کاظمی
ہرسال دسمبر کے وسط میں محبِ وطن پاکستانیوں کا دِل زخموں سے نڈھال ہو جاتا ہے اُن کی آنکھوں سے لہو ٹپکنے لگتا ہے وہ کیسے بتا ئیں کسی پہلو اُنہیں قرار نہیں ملتا 16؍ دسمبر1997 کا یہی دِن تھا، جب اہلِ وطن کے لبوں پر عالمِ بے بسی میں بار بار ایک ہی سوال تھا کہ’یکایک پاکستان دولخت کیسے ہوگیا؟‘ کیا واقعی پاکستان ٹوٹ گیا؟ کرب واضطراب کے شکار ہر پاکستانی کی نظریں اُمید کی کوئی کر ن ڈھونڈتی پھر رہیں تھیں مگر‘ جو خبر بھی مشرقی پاکستا ن سے آئی اُس خبر نے وطن کے اہل دل دردمندوں کے ہوش و خر د کے نشیمن کو پارہ پارہ کردیا، یہ ’ سقو طِ مشرقی پاکستان ‘ کی علیحدگی کی دکھ بھری خونریز یادوں کی ا لمناک تاریخی داستان ہے اہلِ وطن کے لئے یہ ناقابلِ فراموش سانحہ تھا آج بھی کل کی طرح تروتازہ ہے ، اپنوں کی اور غیروں کی ملی بھگت سے رونما ہونے والے اِس سانحہ کو آج بھی جب ہم یاد کرتے ہیں، تو ہماری سوچوں کو اُن تاریخی واقعات کی ایک ایک مشتبہ کڑی‘اُن مشکوک کڑیوں کے وہ ’ خفیہ انڈر ہینڈ‘ رابطوں کے سلسلے اپنی فکری ونظری گرفت کے محور میں جکڑ لیتے ہیں کوئی صحیح الدماغ ،صحیح النظر اہل دِل اور اہلِ بصیرت پاکستانی فرد اُن تاریخی واقعات و حالات کی زمینی سچائیوں سے کیسے منکر ہوسکتا ہے یہ کون نہیں جانتا کہ بھارت نے تقسیمِ ہند کے بعد ہی سے اپنے ناپاک مکرو ہ عزائم کی تکمیل کے لئے پاکستان کے دونوں حصوں کو( مشرقی اور مغربی پاکستان) کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی سازشی شرمناک منصوبہ بندی شروع کردی تھی، اُس کے اِن سازشی منصوبوں کے نکات کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہے ، پاکستان کا سابقہ مشرقی حصہ بھارت کے ساتھ اپنی اسٹرٹیجک اہمیت وا فادیت کے اعتبار سے اور ہمیشہ سے بہت ہی نازک اور حساس نوعیت کے سیکورٹی کا متقاضی رہا جس کا صحیح اور بروقت ادراک نہ مغربی پاکستان کی طاقت ور سول بیوروکریسی نے تقسیمِ ہند کے فوراً بعد سے کرنا ضروری سمجھا اور نہ ہی مغربی پاکستان کے زور آور سیاسی لیڈروں نے مشرقی پاکستان کے محبِ وطن بنگالی پاکستانیوں کے احساسات کو ‘ اُن کی بنیادی ضروریات کو ‘ اُ ن کی سیاسی وسماجی شکایا ت پر اپنے کان دھرے، ایک طرف تو یہ صورتحال رہی، جبکہ دوسری جانب مشرقی پاکستان کی بھارتی بنگال سے ملحق انتہائی گنجلک سرحدی علاقے جو د شوار گذار پہاڑی گھا ٹیوں پر مشتمل تھے جن راستوں کا صحیح علم وہ خود جانتے تھے جو وہاں برسوں سے آباد تھے پاکستانی بنگال اور بھارتی بنگال کے دوطرفہ سرحدی علاقوں میں آبادی کی اکثریت ہندو بنگالیوں کی تھی اور بھارت کے لئے یہی ایک ایسا Focal Point تھا جہاں سے وہ پاکستانی علاقوں میں اپنے تربیتِ یافتہ خفیہ ایجنٹوں کے توسط سے بہت آسانی کے ساتھ جب چاہتے در اندازی کر تے رہتے تھے مشرقی پاکستان کی سماجی و معاشرتی ‘تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی زندگی کے ہر اہم شعبے میں کسی نہ کسی شکل میں اُن کی خفیہ در اندازی کا یہ مذموم سلسلہ تواتر کے ساتھ پچھلے کئی برسوں سے جاری رہا تھا بلکہ آج بھی پاکستان سے علیحدہ ہوکر ( یہ حصہ بنگلہ دیش بن چکا ہے ) بھارتی سازش کاروں کی دراندازی کا یہ سلسلہ وہاں اب بھی جاری ہے، 1970 کے پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں 6 نکات کی بنیاد پر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کی تھی تو اُس وٹوک اور ٹھوس انتخابی نتائج کو اُس وقت فوجی حکمران جنرل ییحیٰ خان نے تسلیم کرلیا اور انتخابات میں مجیب الرحمان کی سیاسی پارٹی کو یہ عندیہ دیدیا گیا تھا کہ’’ اگلی وفاقی حکومت عوامی لیگ کی ہوگی مجیب الرحمان پاکستان کے وزیر اعظم ہونگے‘‘ جس کا باقاعدہ اعلان تک کردیا گیا مگر ‘ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی ایک طرف مغربی پاکستان میں جاگیر طبقے سے تعلق رکھنے والے مقبول عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو منتخب ہوئے تھے تو دوسری طر ف مشرقی پاکستان کے درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک عام سیاسی کارکن شیخ مجیب الرحمان ’متحدہ پاکستان ‘ میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کاقائد بن کر نمودار ہوا تھا یہ کہا جائے تو شائد بات کسی کو تلخ نہ لگے ایک تو ویسے ہی مغربی پاکستان کی سول بیوروکریسی کا مضبوط وتوانا انفراسٹریکچر ہلا کر رہ گیا اُوپر سے مغربی پاکستانی وڈیرہ شاہی جاگیر طبقہ کی سیاست پر زبردست ضرب پڑی گو ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی طبقے کو بیدار کرکے ’اسلامی سوشلزم ‘ کے نام پر عام انتخابات میں اکثریت حاصل کی مگر وہ اپنے اندر کے جاگیر دار ی سسٹم کے ہوسِ اقتدار کو قابو میں نہ رکھ سکے ’بھٹو مجیب مذاکرات ‘ میں ناکامی کی بنیادی وجوہ کو تلاش کیئے بغیر ہم کھلی بے باک ایماندرانہ گفتگو نہیں کرسکتے ’بھٹو اور مجیب ‘ دونوں عوامی حقوق کے علمبردار تھے مجیب الرحمان کو نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک قدم آگے بڑھ کر مجیب الرحمان کو بحیثیت وزیر اعظم تسلیم کرلینا چاہیئے تھا ایسا کیوں نہ ہوسکا؟ ’طبقاتی تعصب کی تاریخی چپقلش ‘ نے ایک متحدہ پاکستان کے سیاسی لیڈروں کو باہم متحد نہ ہونے دیا یوں یہ بھی بڑی حد تک صحیح سمجھا جائے کہ مغربی پاکستان کی طاقت ور سول بیوروکریسی کے ’دیوتاؤں‘ نے پاکستان میں پہلی بار منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ایسے گنجلک پیچیدہ حالات بنادئیے گئے کہ اُس وقت کے فوجی حکمران اور اُن کی کابینہ نے مجیب الرحمان کو ملک کا نیا عوامی وزیر اعظم بنانے کا جو اعلان وقت سے پہلے کردیا تھا اُس ’تاریخی اعلان ‘ کو روبہ ِٗ عمل آنے سے قبل سیاسی غلط فہمیوں پر غلط فہمیاں پیدا کی جانے لگی جبکہ جنرل ییحیٰ خان نے اپنے اعلان کردہ نئے وزیر اعظم مجیب الرحمان کے کہنے پر نئی قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کرلیا ڈھاکہ ویسے بھی مشرقی پاکستان کا صوبائی دارلحکومت تھا اور یہ کوئی انہونی بھی نہیں تھی، جنرل ییحیٰ خان کے بنائے گئے فریم ورک آرڈر کے تحت ییحیٰ خان کی وفاقی حکومت نے شیخ مجیب الرحمان کے پیش کردہ 6 نکات پر صاد کیا تھا اِنہیں6 نکات پر مجیب نے اپنی الیکشن مہم چلائی کسی نے کوئی تعرض نہیں کیا مگر جب اقتدار مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت کی جھولی میں آگرا تو ذولفقار علی بھٹو کو اِس قدر تلخ و ترش سیاسی رویہ اپنا نے کی ضرورت پر کوئی دلیل وزنی نہیں ہوسکتی اُنہیں ہر حال میں پاکستان کی یکجہتی کو جوں کا توں برقرار رکھنے کے لئے شیخ مجیب الرحمان کو قائد ایوان تسلیم کر لینا چاہیئے تھا، یہ بات حق بجانب ہے یا نہیں ‘ المیہِ مشرقی پاکستان کے دکھ درد کو سمیٹتے ہوئے ہم جان بوجھ کر یا خود ساختہ لا علمی میں اُن چہروں کو بے نقاب کرنے میں یقیناًتعصب پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں ’ ایک پاکستان‘ کے اُصول پر عوامی لیگ کی واضح اکثریت کو دیکھنے ‘سمجھنے جاننے کے باوجود تسلیم کرنے سے انکاری ہونے والوں کو تاریخ کے سامنے جوابدہ ہیں اُن سیاسی قائدوں کے چہروں پر سے زمانہ کا مورخ یقیناًنقاب اُتارے گا؟مشرقی پاکستان کے اِ ن خونیں واقعات سے ہر ایک دِل کا متاثر ہونا فطری اور اُصولی بات ہے ‘ ماننا پڑ ے گا اِتنے برسوں کے گذرنے کے باوجود ہر دِل و نظر اور ہر قلب وجگر میں احساسِ ہمت وعزیمت کی اُن وقتی شکستوں اور عارضی ٹوٹ پھوٹ نے ہماری قومی امنگوں کے فکری عزم کی اُ ن آتشیں لمحوں میں سرد نہیں ہونے دیا ، بحیثیتِ مسلمان ہم سے بہتر کون جان سکے گا کہ موت انسانی زندگی کی سب سے زیادہ اٹل و موثق حقیقت ہے ازل سے انسان زیادہ تر اِسی کے خوف کا شکار ہوتاہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ خوف وحزن سے آزادی کی منادی تو صرف اُن کے لئے ہے جو دیوانہ وار موت کی وادی میں اترتے ہیں اُس دور کے مفاد پرست سیاسی لیڈروں کا سر اغ لگانا کیا کوئی مشکل مرحلہ ہے؟، نہیں ‘صرف ضمیر کو جگانے کا مرحلہ ضرور ہے، آنکھوں سے مفادپر ستانہ تعصبات کی پٹی کو اُتارنے کا مرحلہ ہے، ذہنی افق پر چھائے ہوئے اندھیرے کو انصاف اور عدل کی روشنی میں پہچان کر اپنے اصل دشمن کے مقاصد اور عزائم کو حق اور سچائی کی کسوٹی پر پرکھنے کا مرحلہ یقیناًہے، یہ ہوجائے تب کہیں جاکر قوم المیہ ِٗ مشرقی پاکستان کے اصل ذمہ داروں کا تعین کر سکے گی سانحہِ مشرقی پاکستان کی تمام ذمہ داری وطن کی مسلح افواج کے سر تھوپنے‘ اور اپنے اِس با وقار قومی ادارے کو مسلسل ’الزامات ‘کی زد میں رکھنے کے حساس معاملے میں ہم اپنے دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے کے عادی ہو تے جارہے ہیں ، ہمیں اپنے پرائے کی کوئی تمیز ہی نہیں رہی ،لگتا ہے ہمارے ازلی دشمن کی یہی تمنا اور خواہش ہے کہ پاکستانی قوم اپنی بہترین اور لاجواب پیشہ ورانہ مہارت کا عالمی ریکارڈ رکھنے والی اور قابلِ ستائش ‘تنظیم میں یکتا ویگانہ افواج پر ہمیشہ تند وتیز تنقید کے تیر برساتی رہے ایسے منفی تعصبات کے حامل ہمارے دانشوروں سے اہلِ وطن کا ایک سوال ضرور ہے وہ بتائیں کہ اپنی سر زمین کے تحفظ وبقاء کے ضامنوں کے خلاف یہ بے چینی، اضطراب اور اُن پر الزامات در الزامات کی فضاء کیوں برقرار رکھی گئی ہے کن مقاصد کے تحت وقتاً فوقتاً پاکستانی فوج کو مسلسل لعن وطعن کا شکاربنایا جاتا ہے؟ اِس کا انجام کیا ہوگا ؟کیا اُنہیں علم ہے اُن کے اِس غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل سے ملک و قوم میں غیر محفوظ ہونے کے ’خطرناک احساس ‘کو تقویت ملے گی عین ممکن ہے کہ اگر ایسوں کو وقت ملے توشائد وہ اِس بارے میں سوچیں؟ ایسے اہم‘ حساس اور نازک موقعوں پر محبِ وطن اہلِ نظر و اہلِ بصیرت کا یہ شیوہ نہیں ہوتا، کہ وہ خاموش رہیں قوم اپنے حقیقی بہی خواہوں کو نہ صرف پہچانتی ہے بلکہ نازک اور کٹھن موقعوں پر اپنی بہادر اور جراّت مند افواج کو آواز دینے کی اپنے میں ہمت و سکت بھی رکھتی ہے۔