Posted date: March 13, 2015In: Articles|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی اور خود مختاری کی تاریخ جاننے والے کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیخ عبداللہ نے کشمیریوں کے ساتھ واقعی بڑی بیوفائی کی ‘ عہد توڑے انگریزوں کے فوراً جانے کے بعد قائم ہونے والی نئی دہلی کی مرکزی حکو مت کے تابعِ فرمان رہے اُنہیں آنکھیں بھی دکھاتے رہے پنڈت جواہر لعل نہرو نے کشمیر پر قبضہ جمانے کی نیت سے جب آرٹیکل 370 کے نام سے کشمیر کے عارضی انتظام کو بھارتی آئین کا حصہ بنانے کی اُن سے بات کی تو معلوم ہے کہ شیخ عبداللہ نے نہرو کو کیا جواب دیا تھا ’لوہا پہنے خود مختاری ‘ کا لولی پاپ اپنے پاؤں کے انگھوٹے سے ٹھکرا نا وہ پسند کریں گے یعنی کشمیر کے عارضی انتظام کو چلانے کے لئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو اُنہوں نے نہایت حقارت بھر ے نفرت آمیز انداز سے ٹھکرا دیا تھا تنازعہ ِٗ کشمیر کو 67 سال ہونے کو آئے ہیں بھارت برابر ہر پانچ سال کے بعد دنیا کو دھوکہ دئیے رکھنے کے نام پر وہاں ’عام انتخابات ‘ کے مضحکہ خیز ڈرامے کرتا چلا آرہا ہے غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بی جے پی یعنی بھارت کی کسی مرکزی جماعت نے اپنے ’جسّے ‘ سے بہت زیادہ ووٹ لیئے اور اِس الیکشن فراڈ میں مفتی سعید کی سیاسی جماعت (پی ڈی پی ) نے پہلی بار 28 نشستیں جت لیں، اندرونِ خانہ کی خبر رکھنے والوں کا یہ کہنا شائد غلط نہیں کہ نریند رمودی اور مفتی سعید کا پہلے ہی سے ’معاہدہ ‘ ہوچکا تھا دیش کے مرکز کے بارے میں وہ عوام کو یہ نعرہ د یں گے کانگریس کے نام پر ’وراثتی ‘ سیاست کا خاتمہ ہو اور کشمیر میں بھی ’وراثتی ‘ سیاست کی جڑبیخ اکھاڑ دی جائے اور ہوا بھی ایسا ہی ؟ آپ شیخ عبداللہ اور پنڈت جواہر لعل نہر و کو کچھ ہی کہیں؟ مگر یہ کانگریس ہی تھی جس کے قائد نہرو نے 2 ؍ نومبر1947 کو کہہ دیا تھا کہ’ہم نے اعلان کردیا ہے کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ آخرِ کار وہاں کے عوام ہی کریں گے ہم نے اِس بات کی ضمانت دی ہے بلکہ تمام دنیا کے سامنے سلامتی کونسل میں ضمانت دی ہے کہ نہ تو ہم اِس وعدے سے انحراف کرسکتے ہیں نہ ہی کبھی ایسا کریں گے ہم اِس بات کے لئے تیار ہیں جب حالات پُرامن ہوجائیں گے ہم اِس بات کو کشمیری عوام کے لئے ایک منصفانہ اور مناسب فیصلہ تصورکرتے ہیں کہ آخرِ کار نئی دہلی حکومت کشمیری عوام کے فیصلے کی پابند ہوگی ‘یہ صحیح کہ کانگریس خود بھی کل تک کشمیر میں ’الیکشن ڈرامہ ‘ کھیلتی رہی ہے مگر ریکارڈ کی بات ہے کہ کانگریس کی حکومت نے کبھی آرٹیکل 370 کو ختم کرنے یا کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا نہ کبھی کوئی ارادہ ظاہر کیا نہ کوئی سیاسی کوشش کی ہے اِب یہ ’سیکولر بھارت‘ کی بڑی بدقسمتی ہے کہ وہاں پر وقت کے جبر نے ایسا پلٹا کھایا اب نہ وہاں سیکولر ازم رہا ‘نہ اعتدال پسند اور میانہ رُو سیاسی معاشرہ استحکام پا سکا اُس کی جگہ متبادل قیادت آر ایس ایس کی ذیلی جنونی متشدد تنظیموں نے پُر کردی اچانک 2014 کے انتخابات میں آرایس ایس درمیان میں کھلے دم میدان میں کیسے آن کودی مرکز کو بھی صاف کردیا دنیا بھر کے پولیس کو مطلوب مفررو ملزمان سب بھارتی ایوانوں میں جاگھسے یہاں مقبوضہ جموں وکشمیر میں بی جے پی انتخابات میں 25 نشستیں حاصل کربیٹھی وہ تو مشن 44 کے نام پر شائد کشمیر میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہی تھی شکر ہے مشن44 ناکام ہوگیا بہر حال دھونس ‘ دھاندلی ‘ زور زبردستی کے نام پر بھارتی فوج کو کھلے بندوں استعمال کرکے جیسے تیسے انتخابات ہوئے گورنر راج کی دھمکیاں دی گئیں نافذ کیا گیا تاریخ کی بات ہے کسی بھی کشمیری سیاسی جماعت نے کبھی آرٹیکل 370 کو بھارتی آئین سے نکالنے اور کشمیر کو مکمل بھارتی صوبہ قرار دینے کی کبھی حمایت نہیں کی لیکن بی جے پی اور پی ڈی پی کا کشمیر میں حکومت کے لئے اتحاد سمجھ سے بالاتر ہے چونکہ کشمیر ایک عالمی متنازعہ مسئلہ ہے 21 ؍اپریل1948 ‘ 3 ؍جون1948 ‘14 ؍مارچ1950 اور 30 ؍مارچ1950 اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اِن تاریخوں میں جو قرار دادیں منظور کی ہیں اُن کے مطابق اِس مسئلہ نے حل ہونا ہے، یہ بھارتی پارلیمنٹ کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ خودمقبوضہ جموں وکشمیر کی پارلیمنٹ کا بھی مسئلہ نہیں، یہ مسئلہ حقِ استصوابِ رائے کے ذریعے سے حل ہوگا ،کل تک بلکہ گزشتہ سال ہونے والے کشمیر کے ’فراڈ الیکشن ‘ میں بھی ایک موقع پر خود نریندر مودی ایک جہاندیدہ کشمیر ی صحافی کے سوال پر گھبرا گیا تھا کہنے لگا ’’نہیں نہیں جناب! ہم الیکشن جیتنے کے بعد آرٹیکل 370 کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گے اب ‘دیکھتے ہیں کہ کشمیر میں ’فراڈ الیکشن ‘ کے بعد بننے والے ’فراڈ ریاستی حکومتی اتحاد‘ کی یہ دوڑ کامیاب رہتی ہے یا نہیں ؟ کیونکہ اطلاعات یہ ہیں جیسا کہ موجودہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ مفتی سعید جو بڑے گھاگ قسم کے سیاست دان ہیں، اُنہوں نے عمر عبداللہ کو سیاسی لحاظ سے نیچا دکھانے کی غرض سے نریندرمودی جیسے مسلم دشمن بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ یہ جو ایک غیر فطری اتحاد بنالیا ہے جو کہ توقعات کے بالکل بر خلاف‘ فطرت کی عین ’ضد ‘ مقبوضہ جموں وکشمیر میں قائم ہونے والا یہ اتحادی زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکتا،مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی میں بی جے پی اور پی ڈی پی دونوں جماعتوں کے 87 رکنی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت تک نہیں ہے ‘ مقبوضہ ریاست میں انتخابی تقریروں میں ایک طرف نریندر مودی پاکستان کو جنگی گیدڑ دھمکیاں د یتا رہا جبکہ دوسری جانب کشمیر کے لداخ کے علاقے میں چین کو للکار تا رہا ،مودی سینٹرل بھارت میں جنونی ہندوؤں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کے نام پر آرٹیکل 370 کو ختم کرنے جیسی انتہائی احمقانہ دعوے کر تا رہا ہے اطلاعات کے مطابق یہ معلوم ہوا ہے کہ مفتی سعید اور نریندر مودی کے مابین کوئی11 نکاتی معاہدہ طے پایا ہے صرف5 نکات کی بات کرلیں ،جنہیں پڑھ کر اندازہ لگائیے کہ نئی دہلی اور سرینگر کی حکومتیں کس برتے پر کتنی مضبوط کھڑی ہوئی نظر آتی ہیں ایک تو جنونی ہندو ؤں اور پختہ ایمان دار مسلمانوں کے مابین حکومتی اتحاد ؟ یہ کیسا پاگل پن پر مبنی تضاد اتحاد ہے دوسرا بقول مفتی سعید کے ‘ بھارت فی الفور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات ’نارمل ‘ کرئے (مفتی کو مودی سے یہ کیسی توقع ہے ) اور پھر کشمیر کے ایشو پر نئی دہلی‘ حریّت کانفرنس کی طرف قدم بڑھائے ‘ ایک سال کے اندر AFSPA کو واپس گھر بھیجا دیا جائے اور مفتی سعید نے بھی نریندر مودی کو پابند کیا ہے کہ وہ آرٹیکل370 کی ’عارضیُ نوعیت کو جوں کا توں برقرار رکھے گا ، مقبوضہ کشمیر بھارت کا کوئی جغرافیائی علاقہ تو ہے نہیں اور ہاں ! نریندر مودی سے پاکستان کو اچھی امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہئیں ‘اُس کی شخصیت دوغلی اور اُس کی سیاست دوغلی ہے ‘ کشمیری عوام کل کی طرح آج بھی مایوس نہیں ‘ مقبوضہ کشمیر میں یقیناًصبحِ آزادی ضرور طلوع ہوگی پاکستانی قوم اپنے کشمیری بھائیوں کے لئے اُن کے ساتھ قدم بہ قدم نسل درنسل ایثار اور قربانیوں کا جذبہ اُنہیں مسلسل فراہم کرتے رہیں گے ۔