Posted date: September 18, 2015In: Urdu Section|comment : 0
ناصررضا کاظمی
امریکا ‘ روس اور عوامی جمہوریہ ِٗ چین کے بعد بھارت دنیا کا وہ ملک ہے جس کے پاس سب سے بڑی فوجی تعداد ہے 13 لاکھ50 ہزار کی تعداد میں فوجی حجم رکھنے والا یہ ملک اپنی فوج پر سالانہ 40 بلین ڈالرز سے بڑی خطیر رقم خرچ کرتا ہے جبکہ ہر سال اِس فوجی رقم میں کہیں ٹھہراؤ نظر نہیں آتا اضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے دیش بھر میں غربت ‘ افلاس ‘ تنگ دستی ‘ مفلوک الحالی اور دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی جانب دھیان دینے کی بجائے جنوبی ایشیا میں بھارت نے اپنی اِس زعم وتکبر سے سرشار فوجی برتری کی بلا ضرورت شان وشوکت کو کیوں برقرار رکھنا ضروری سمجھا آج تک کسی بھی بھارتی نواز حلقے سے اِس سوال کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں آیا بہرحال‘ بھارت جانے اور اُس کی آئے روز کی بڑھتی ہوئی فوجی ضروریات کو جائز سمجھنے والے جانیں یہاں پر ہم اپنے قارئین کو نئی دہلی کے جنتر منتر کے مقام پر لیئے چلتے ہیں ، جہاں ’ انڈین وائس آف ایکس سروس مین سوسائٹی ‘ کے اراکین کی ایک بہت بڑی تعداد نے اپنی سرکار کے سامنے اپنے جو مطالبات رکھے اُن کی میڈیا میں بازگشت آنے کے بعد ہم یہ بات جان پائے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے آج بھی بھارت اکیسیویں صدی کے دوسرے عشرے2015 میں نہیں بلکہ 60-65 سال پیچھے رہ رہا ہے جبکہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی دنیا بھر کے ممالک میں ’برٹش پروفیشنل آرمی ایکٹ‘ میں کیا سے کیا تبدیلیاں رونما ہو گئی ہیں ہر ملک نے اپنے سماجی وثقافتی معروضی حالات کے مطابق گزرتے وقت کے ساتھ نہ صرف اپنی آزادی وخود مختاری کو برقرار رکھنے کے لئے آئین میں دفاعی تبدیلیوں کا سفر طے کیا اور اپنے قومی سلامتی کے اداروں’حساس‘ اداروں کو بھی اپنی ثقافتی اور سماجی روایات کے مطابق ڈھالنے میں ہر نئے پیشہ ورانہ امکانات کو خوش آئند جانا اور اُن سے بھرپور فائدہ اُٹھایا بھارت نے آج تک اپنے قومی سلامتی کے اداروں، بالخصوص بھارتی فوج میں ’نوآبادیاتی نظام ‘ کو جاری وساری رکھنا کیوں ضروری سمجھا ؟جبکہ یہ عہد سائنسی تفکر کا عہد ہے، جدید سائنسی فکر ونظر کے مطابق انسانی سوجھ بوجھ ترقی کررہی ہے، بھارت کی فوج میں اپنے وقت پر یہ تبدیلی نہیں آئی اور تادمِ تحریر غالباً وہاں پر وہ ہی کہنہ اور فرسودہ نوآبادیاتی سامراجی عسکری سسٹم رائج ہے، جنوبی ایشیا سمیت مشرقِ البعید کے کئی ممالک نے اپنے قومی سلامتی کے اداروں کو نئے عہد کی انسانی سہولیات و ضروریات سے ہم آھنگ کرلیا جبکہ بھارت وہیں کا وہیں کھڑا ہے، بھارت کی فوج میں ’نان کمبٹنگ ارڈلی‘ رولز کو نہیں اپنایا سامراجی دور کی روایات کو باقی رکھا گیا ہے جس کے خلاف دارلحکومت نئی دہلی میں ’ون رینک ون پنشن‘کے لئے جاری تحریک کے دوران سابق فوجیوں نے بڑے زور وشور سے احتجاج کے لئے دھرنا دیا جسے آر ایس ایس کی نئی دہلی سرکار نے اپنے ہی سابق سولجرز پر جن میں کئی ‘ لاغر‘ جسمانی لحاظ سے کمزور ترین اور معمر افراد شامل تھے، اُن پر نئی دہلی کی پولیس نے آر ایس ایس کے لاٹھی برداروں کے ساتھ مل کر دل کھول کر لاٹھی چارج کیا ،نئی دہلی سرکار نے اُن کی مانگیں سننے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی کہ ہمارے دیش کے یہ سابق فوجی اہلکار کیا مانگ رہے ہیں اِس تحریک میں شامل سابق فوجیوں کا ایک الزام تو یہ ہے کہ بھارتی فوج میں اِن کی تعداد یعنی ’کمبیٹنٹ سولجر‘ کی تعداد 87% کے قریب ہے جنہیں فوج میں ’اچھوت ‘ سمجھا جاتا ہے جب مراعات اور سہولیات کی بات ہوتی ہے، تو امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور افسروں کو ترجیح دی جاتی ہے اُن کا یہ کہنا بھی تھا فوج میں تقریباًایک لاکھ جوان تو ایسے ہیں جو فوجی افسروں کی ملازمت کرتے ہیں، جیسے اُن کے جوتے پالش کرنا ‘ اُن کے کتوں کو گھمانا ‘ اُن کے گھروں کی صفائی کرنا ‘ رات گئے اُن کے لئے کھانا پکانا اور اُن کے کپڑے دھونا وغیر ہ شامل ہے، اِس کے باوجود فوجی افسروں کو اُن کی تنخواہوں میں الگ سے ’سرونٹ الاؤنس‘ ملتا ہے انڈین وائس آف ایکس سروس مین سوسائٹی کے نام سے رجسٹر ڈ سابق فوجیوں کی اِس تنظیم میں جوانوں کے علاوہ نان کمیشنڈ افسراور جونیئر کمیشنڈ افسر بھی شامل نظر آئے ،سوسائٹی کے کنوینر ویر بہادر سنگھ نے دیشی اور بدیشی میڈیا سے اپنی بات چیت میں کہا کہ ’سرونٹ الاؤنس‘ کو جیب میں ڈال کر گھریلو کام فوجی جوانوں سے کر انا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ دنیا بھر میں یہ سسٹم متروک ہوچکا پھر بھارتی فوج میں کیوں جاری ہے ؟یاد رہے کہ ’نان کمبیٹنٹ ارڈلی‘ کا جدید سسٹم مہذب دنیا کی افواج میں رائج ہے ’سویلین ارڈلی‘ براہ راست جنگی امور کی پیشہ ورانہ خدمات سے جن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ،آجکل کی مہذب افواج میں گھریلو ملازمت کے یہ امور اب اُن کے ذمہ ہوتے ہیں، بڑا ملک ‘ بڑی جمہوریت ‘ بڑی فوج ‘دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ملک کہلوانے والے بھارت کو دنیا کی تبدیل ہوتی ہوئی عسکری ترقیات کی سہولیات کا اب تک کوئی علم نہ ہونا ہمارے نزدیک ایک اچھنبے کی سی بات لگتی ہے، نئی دہلی سرکار کو قریب سے دیکھنے والی گہری اور عمیق نگاہوں کے حامل سیاسی وعسکری تجزیہ کار وں کاماننا ہے بھارت نے جان بوجھ کر اپنے اداروں کو نئے زمانے کی ضروریات سے ہم آھنگ کرنے کی بجائے ہمیشہ اپنے علاقائی چھوٹے ممالک کو اپنی ’کالونیاں ‘ سمجھنے پر اپنی توانائیاں صرف کرنے میں بڑا وقت ضائع کیا جتنا بڑا وہ دیش ہے اُس کی ضروریات سے زیادہ فوج اُس نے رکھی ہوئی ہے آبادی میں اضافہ کم نہیں ہورہا بلکہ گزشتہ دِنوں میڈیا میں ایسی خبریں بھی سنائی دیں کہ بھارت کی ہندو آباد ی کے حجم کو مزید تقویت دینے کے نام پر ہر ہندو عورت کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی سرکاری ترغیب دی جارہی ہے آر ایس ایس کی سربراہی میں نئی دہلی میں قائم ہندوتوا کی جنونی سرکار سے اِس سے زیادہ اور کیا تعجب خیز اور تشویش ناک توقع رکھی جائے نئی دہلی اسٹبلیشمنٹ اگر کچھ نہیں سمجھ رہی تو وہ صرف یہ بات نہیں سمجھ رہی کہ بڑا ملک ‘ بڑی آبادی ‘ علاقہ میں اسلحی اعتبار سے دنیا میں مہلک اسلحہ کا سب سے بڑا ذخیرہ رکھنے کے علاوہ اُنہیں یہ سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ دیش کے اندرنی انسانی مسائل کے انبار کی جانب فوری دھیان دیا جائے اور یہ سمجھیں کہ دیش میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے کی ایک بڑی بنیادی وجہ ہندو آبادی کا بڑھتا ہوا حجم ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘ اعتدال پسند اور روشن خیال بھارتیوں کو بلا آخر اِس جانب توجہ دینے پر غور کرنا ہو گا، نئی دہلی سرکار کو مجبور کرنا پڑے گا کہ وہ فرقہ وارانہ جنونیت کے عفریت کو بڑھنے سے روکے اور جنوبی ایشیا کے امن کو لاحق خطرات کو ہوا نہ دے۔