نوجوان نسل کی انتہا پسندی کی لعنت سے بچاؤ وقت کی اہم ضرورت ہے
ایس اکبر
حال ہی میں سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما ڈاکٹر سلیمان بن عبداللہ نے تمام مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کو انتہاپسندی کی لعنت سے محفوظ رکھیں۔ انتہا پسندی ایک بہت بڑی لعنت ہے جس کی موجودگی میں دنیا میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا ۔ دہشت گردی کے سرطان نے دُنیا کے ہر طبقہ فکر کو اضطراب اور پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ملکی اورغیر ملکی سطح پر بہت سے نوجوان دہشت گردوں کی تنظیموں میں نہ صرف شمولیت اختیار کر رہے ہیں بلکہ رضاکارانہ طور پر دہشت گردی کی کاروائیوں کے لیے اپنے آپ کو پیش کررہےہیں۔دہشت گرد عناصر اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لیے نوجوان نسل کو جس بے رحمی اور سفاکی سے استعمال کر رہے ہیں اُس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔ دہشت گرد تنظیمیں اپنے نئے ہدف اورکارندے ڈھونڈنے کے لیےمختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں جن میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ذریعہ انٹرنیٹ ہے جس کے ذریعے ملکی اور غیر ملکی سطح پر اپنے شکار تک باآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔
دہشت گرد اپنے منتخب کردہ افراد کو ایک نہایت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتہا پسندی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ موجودہ نظام کے خلاف نفرت، فرقہ وارانہ تعصبات اور غیر مسلموں کے خلاف جارحیت کے احساس کو پروان چڑھا کر ان کی سوچ میں بغاوت کا بیج بویا جاتا ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائی، بےانصافی، غیرمتوازن معیشت، مغرب زدہ روشن خیالی بغاوت کے جذبے کومزید تقویت دیتی ہے۔ یہ دہشت گرد عناصر اسلامی تعلیمات کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق معنی دے کر معصوم نوجوانوں کودینِ اسلام کی حرمت بچانے کے واسطے دیتے ہیں۔ ایک خود اعلانیہ اور خود ساختہ جہاد کی منظرکشی کی جاتی ہے اور نوجوانوں کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ اس جہاد کا حصہ بن کر وہ فلاح کی راہ پر گامزن ہو سکتےہیں۔ ان تمام باتوں سے ایک کم سن اور کم فہم نوجوانوں کے منفی جذبات کو اس قدر بڑھا دیا جا تا ہے کہ وہ اس کارِخیرکو انجام دینے کے لیے اپنے گھر بار، ماں باپ، بھائی بہن، علاقہ سب کچھ چھوڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔ اپنے آپ کو دین کا ٹھیکےدار ظاہر کرنے والے دہشت گردوں کے بہکاوے میں آکر یہ نوجوان اسے اپنا رہنما تصور کر نے لگتے ہیں۔غریب اور متوسط طبقے سے تعلق ر کھنے والے نوجوان کو مالی امداد کا لالچ دیا جاتا ہے تا کہ یہ نوجوان ان انتہا پسند افراد کو اپنا خیر خواہ سمجھیں۔دہشت گردوں کی توقعات پر پورا اُترنے والے نوجوانوں کی اگلی منزل انتہا پسندی اور دہشت گردی کے تربیتی مراکز ہیں ان مراکز میں زیر تربیت بچے مختلف تربیتی مراحل سے گزرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کو جواز بنا کر ایسے اعلانات اور فتاویٰ جاری کیے جاتے ہیں جس سے زیرِ تربیت ہر نوجوان ان خود ساختہ دینی شخصیات کا حکم بجا لانا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔ ان فتاویٰ میں اپنے ہی ملک کے خلاف جہاد کر نا، بے گناہ لوگوں کی جان لینا، خودکش حملے، بم دھماکے ، ٹارگٹ کلنگ،سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہچانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ نوجوان نسل کو اس گمراہی کا شکار ہونے سے روکے ۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں کی مکمل نگرانی کریں ۔ان کے دوستوں کے بارے میں معلومات رکھیں اور انٹرنیٹ پر ان کی سرگرمیوں کا خاص خیال رکھیں ۔والدین اپنے بچوں کو معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیوں اور انتہا پسندی کی تر غیب دینے والوں کی کاروائیوں کے خلاف ہوشیار رہنے کی ہدایت دیں۔ اپنے بچوں کو دہشت گردوں کے غیر اسلامی اور غیر انسانی مقاصد کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کریں۔ اور اسلام کی اصل تعلیمات ،جہاد ،شہادت اورقربانی کے حقیقی معنی سے متعارف کروائیں۔ سکول ، کالج، مدارس اور یونیورسٹی کی انتظامیہ انتہا پسند عناصر سے چوکنا رہیں۔تمام تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو اسلام کی سچی تعلیمات سے روشناس کروانے کے لیے باقاعدہ مناسب انتظام ہونا چاہیے۔ تا کہ قرآن اور حدیث کی تعلیمات کو کوئی بھی انتہا پرست دہشت گرد اپنے ذاتی گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ اربابِ اختیا ر کو چاہے کہ متعلقہ محکمے انٹرنیٹ پر دہشت گردوں کی تمام ویب سائٹ پر کڑی نظر رکھتے ہوئے انھیں بلاک کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔میڈیا اخبارات و رسائل اورٹی وی چینلز کے ذریعے ایسے مضامین، خبریں اور پروگرام نشر کرے جن سے ہرانسان کے دل میں ان دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف نفرت پیدا ہو بلکہ ان سے نجات پانے کے لیے ہر ذی ہوش انسان سرگرمِ عمل ہو جائے۔
دہشت گردی ایک بڑی لعنت ہے اور اس لعنت سے چھٹکارہ پانے کے لیے ہرشخص کو اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کرنی پڑے گی۔ تا کہ ہماری نوجوان نسل اس دہشت گردی کی بھینٹ نہ چڑھیں بلکہ ملک کی ترقی و کامرانی میں قلیدی کردار ادا کر کے اس ملک کو امن و سکون کا گہوارہ بنائیں۔